ایران اور سعودی آویزش۔۔۔۔ سمندر اور گہری کھائی میں انتخاب


سعودی عرب میں ٹرمپ کی پذیرائی پر جماعت اسلامی کو طعنے دیے جارہے ہیں کہ اب اس کا وہ نعرہ کیا ہوا” امریکا کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ جماعت اسلامی کا سعودی عرب سے قریبی تعلق رہا ہے البتہ حالیہ برسوں میں اس میں بڑی دراڑ آئی ہے، جس کی بڑی وجہ مصری فوج کی جانب سے محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد دامے درمے سخنے قدمے، سعودی عرب کا جنرل سیسی کی حمایت کرنا ہے،سعودی عرب کے اس اقدام پر جماعت اسلامی کافی رنجیدہ ہے۔ اخوان المسلمون سے جماعت کا قلبی اورفکری ربط ضبط سب پر عیاں ہے، اس لیے سعودی عرب کے رویے پر جماعت کا ردعمل قابل فہم ہے ۔ گو کہ اس غصے کا برملا اظہار تو نہ ہوا مگر ناراضی کی لہر باآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔

جماعت اسلامی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سعودی عرب سے قریبی مراسم کے باوجود اس کے ایران سے روابط بھی رہے ہیں ،انقلاب ایران کا جماعت نے خیرمقدم کیا تھا۔ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد بعض جماعت کے حامیوں کے انفرادی موقف کو اس کا آفیشل موقف سمجھ لیا جاتا ہے،جس سے اصل بات سامنے نہیں آتی ۔ سعودی عرب میں مولانا مودودی کی کتابوں پربھی پابندی عائد ہے،جس کا ظاہر ہے جماعت نے برا ہی مانا ہوگا۔ چند سال پہلے ڈاکٹر جاوید اقبال نے خبردی تھی کہ سعودی عرب میں علامہ اقبال کے خطبات بھی’شجر ممنوع‘ ہیں۔ ٹرمپ سے پہلے سعودی عرب میں نریندرمودی کی آؤبھگت پر بھی جماعت اسلامی تنقید کی زد میں آئی۔ طیب اردگان کے دفاع میں بھی جماعت پیش پیش رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ طیب اردگان کے غیرجمہوری اقدامات پر بھی جماعت کو تاویلیں دینی پڑتی ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، جن جماعتوں پر تحریک کا رنگ غالب ہوتا ہے اور وہ اپنا کردارملک سے باہر دیکھتی ہیں ان کو ایسی تنقید کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔

جماعت کی بات پھر کبھی تفصیل سے ہوگی ، فی الوقت رواں ماہ سعودی عرب میں ہونے والے ’عرب اسلامی امریکی اجلاس‘ کے بعد اٹھنے والی گرد کے بارے میں کچھ کلام ہو جائے۔ اس اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف سے جس طرح بے اعتنائی برتی گئی،اسے توہین ماناجائے تو یہ کسی فرد کی نہیں، ملک کی توہین ہے کیوں کہ نواز شریف وہاں ذاتی حیثیت میں نہیں وزیراعظم پاکستان کے طور پر گئے تھے وگرنہ سعودی شاہی خاندان سے تو ان کے قریبی ذاتی مراسم ہیں، مشرف دور میں ان کی جیل سے رہائی میں سعودی فرمانروا کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جلاوطنی کے دوران نوازشریف سعودی مہمان نوازی سے لطف اندوز بھی ہوئے اور ان کے صاحب زادے حسین نواز نے کاروباربھی جمایا۔

سعودی عرب میں نواز شریف کو جس سبکی کا سامناکرنا پڑا ، بہت سے تجزیہ کاروں نے اسے خیر مستور ( Blessings in disguise) قرار دے کر تجویز کیا ہے کہ پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور برادراسلامی ملک کی تابعداری سے جان چھڑا لے۔ سعودی عرب پاکستان سے اس وقت سے خفا ہے جب سے اس نے یمن میں سعودیی عرب کی حوثیوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا ،اس سلسلے میں پاکستانی پارلیمان نے قرارداد پاس کی ، جس میں یمن میں فوج بھجوانے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس معاملے میں حکومت،اپوزیشن اور میڈیا کا نقطہ نظر یکساں تھا کیونکہ ماضی کے تجربات سے ظاہر تھا کہ پرائی جنگ کا حصہ بن کرپاکستان نے ہمیشہ گھاٹے کا سودا کیا۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو اسے کیا معلوم کہ پارلیمنٹ کس چڑیا کا نام ہے؟ جس ملک میں ملوکیت نے عشروں سے پنجے گاڑھ رکھے ہوں ، وہ کیا جانے منتخب نمائندے کیا حیثیت رکھتے ہیں ۔ادھر پاکستان کی بات کریں تو حکومت کے سخت ترین ناقد عمران خان بھی ایران کے خلاف کسی بھی سعودی اتحاد میں شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔ تحریک انصاف نے جنرل (ر) راحیل شریف کی سعودی عرب کی سربراہی میں قائم دفاعی اتحادکا سربراہ بننے کی بھی مخالفت کی تھی اوریہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کا عندیہ بھی دیا لیکن بعد میں شاید ’کہیں‘ سے پیغام آگیا کہ اس معاملے کو جانے ہی دیں۔

یمن کی جنگ سے دور رہنے پر متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ نے دوسال پہلے تحقیر آمیز لہجے میں پاکستان کے خوب لتے لیے تھے اور بتایا تھا کہ برادر اسلامی ملک ہمارے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے۔جناب انور قرقاش صاحب کے بیان کا لب لباب یہ تھا ’یمن تنازع پر پاکستان کو مبہم موقف کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ پاکستانی پارلیمنٹ کی قرار داد خلیجی ممالک کے بجائے ایران کا ساتھ دینے کی علامت ہے۔ پاکستان اور ترکی کو خلیجی ممالک کے بجائے ایران زیادہ اہم لگتا ہے، ہماری پاکستان کو معاشی مدد کا سب کو علم ہے لیکن مشکل وقت میں ہمیں سیاسی سپورٹ نہیں ملی۔‘

عرب ممالک پاکستان کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرنا چاہتے ہیں جیسا امریکا غریب ملکوں سے کرتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہو تو ٹھیک ہے بصورت دیگر مخالف ہو، طاقت کی اپنی منطق ہوتی ہے اور وہ ’کمزور‘ کوغیر جانبدار رہنے کا حق نہیں دیتی۔ سعودی عرب یہ سمجھنے سے قاصرہے کہ وہ جتنی مرضی قیمت لگاتا رہے ہمارے واسطے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس کے کہنے پرایران کے خلاف تن کر کھڑے ہوجائیں۔اول تو کسی ملک کے دوسرے ملک سے تعلقات اپنے مفاد میں ہوتے ہیں نہ کہ کسی اور کے لیے، ہم کو کیا پڑی ہے کہ سعودی عرب کی محبت میں ایران کو ناراض کردیں،بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ دو ہمسایہ ممالک ہندوستان اور افغانستان سے ہمارے تعلقات پہلے سے کشیدہ ہیں ، ایسے میں ایران کی ناراضی سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہو گا، یہ سوچ درست نہیں، مذکورہ دونوں ملکوں سے پاکستان کی گہری دوستی ہو، تب بھی کسی تیسرے ہمسائے سے الجھنے سے گریز ہی بہتر ہے ۔

سعودی عرب کے ہندوستان سے روابط آزادانہ حیثیت میں قائم ہیں، کشمیریوں پر مظالم پر وہ روایتی بیان بازی سے کبھی آگے بڑھا ہے؟ سعودی عرب نے ضیاء دور میں بھی عراق ایران جنگ میں ہمارا وزن عراقی پلڑے میں ڈالنے کے لیے دباؤ ڈالا جو اس وقت کی فوجی حکومت نے سہار لیا تھا، ہرچند کہ امریکی آشیر باد سے جاری افغان جہاد کے باعث سعودی عرب اور پاکستان آپس میں شیروشکر تھے۔ اس زمانے میں ایران عراق جنگ بندی کے لیے چھ اسلامی ملکوں کے سربراہان پرمشتمل کمیٹی کا بھی ہم حصہ تھے۔

زمانے نے ورق پَلٹا اور صدام حسین نے کویت پر حملہ کردیا۔ فوج کی زمام کار اب ضیاء الحق کے بجائے اسلم بیگ کے ہاتھ میں تھی۔ اب کہ سعودی عرب، عراق کے خلاف مدد کا طلب گار ہوا۔نوازشریف کی حکومت اس موقع پرسعودی عرب کے ساتھ کھڑی تھی تو دوسری جانب آرمی چیف جنرل اسلم بیگ حکومتی پالیسی کی سرعام مخالفت کر رہے تھے اور صدام کا ساتھ دینے کی وکالت کررہے تھے لیکن چند دن میں صدام کی چیں بول گئی اورحکومتی فیصلہ درست ثابت ہوگیا۔ صدام کی محبت میں صرف دائیں بازو کے لوگ ہی دیوانے نہ ہوئے تھے بلکہ احمد بشیراور شفقت تنویر مرزا جیسے ثقہ لیفٹسٹ لکھاری بھی صدام کو فاتح کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ اس زمانے میں صدام کے پوسٹراور بیجزکی پاکستان میں ایسی بہار آئی کہ بہت سے لوگوں کے کاروبار چمک گئے۔ اہل وطن میں سے بہت سوں نے بچوں کا نام صدام رکھ کرعراقی حکمران سے محبت کا ثبوت دیا۔

پی سی بی کے موجودہ چیئرمین شہریار خان اس دور میں سیکرٹری خارجہ تھے،کچھ سال پہلے ہم نے ان سے انٹرویو کیا تو خلیج کی جنگ بھی زیربحث آئی،جس کے بارے میں بڑی صراحت سے انھوں نے اپنا نقطہ نظر واضح کیا:

“1991ء کی خلیج جنگ میں پاکستان نے ایک اصول کی بنیاد پر عراق کی مخالفت کی تھی۔ کسی بھی خودمختار ملک پر حملے کی حمایت سے ہمارے اپنے لیے مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ یہاں ہم نے ایک اصولی موقف اپنایا جبکہ عراق اور ایران کی جنگ کے دوران ہم نیوٹرل رہے تھے کیونکہ عراق اور ایران کی جنگ میں اصول کی بات نہیں تھی۔ اس وقت سعودی عرب کویت اور گلف کے دوسرے ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکا خواہاں تھا کہ ہم صدام کی مدد کریں لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور دباؤ کا سامنا کیا۔ خلیج کی جنگ میں معاملہ یہ تھا کہ ایک طرف اصولی موقف تھا اور دوسری طرف ہمارے ملک کی جو فضا تھی وہ صدام حسین کے حق میں تھی لیکن ہم نے اصولی موقف اپنایا۔ نواز شریف بھی کہتے تھے کہ ان کو اس پالیسی سے سیاسی اعتبار سے نقصان ہو رہا ہے۔ ان کے قریبی رفقاءکا موقف تھا کہ ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ ہم نے نواز شریف کو مضبوط کیا کہ ہم نے کویت پر عراق کے حملے کی مخالفت نہ کی تو اگر کل ہندوستان آزاد کشمیر پر قبضہ کر لے تو ہم کس بنیاد پر اس کی مخالفت کریں گے۔ نواز شریف نے اس جنگ کے دوران مسلم ممالک کے دورے بھی کئے۔ وہ مراکش گئے، تیونس گئے، اردن اور سعودی عرب بھی گئے اور سب جگہ ان کے موقف کو پذیرائی دی گئی۔ وہ بیرون ملک موقف کی حمایت ملنے کے باوجود نجی طور پر کہتے تھے کہ عوام میں تو میرا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اس وقت محبوب الحق، سرتاج عزیز اور شہباز شریف بھی حکومتی پالیسی کے خلاف تھے لیکن نواز شریف دفتر خارجہ کے موقف کے ساتھ کھڑے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وزیراعظم دوسرے ممالک کے دورے کر رہے تھے تو اس سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر جس صبح وہ چین جانے کے لیے ہوائی جہاز میں بیٹھے تھے، اس صبح ہمیں جہاز میں یہ خبر ملی کہ عراق نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس سے میاں صاحب اور دفتر خارجہ کا موقف درست ثابت ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے جہاز ہی میں وزیر خارجہ یعقوب خان اور مجھے گلے لگایا اور کہا کہ آپ نے بہت نازک وقت میں میرا ساتھ دیا۔ مجھے صحیح بات سمجھائی اور اب میں عوام سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے درست حکمت عملی اختیار کی تھی۔ اس جنگ کے دورا مرزا اسلم بیگ صاحب نے کچھ ایسی بات کی تھی کہ ہمیں عراق کی حمایت کرنی چاہیے۔

نواز شریف نے سعودی عرب میں فوج بھجوانے، ایکیوپمنٹ اور دوسری جو امداد دینے کا وعدہ کیا تھا، اس کو سعودی عرب پہنچانے کے سلسلے میں اسلم بیگ نے تاخیر پیدا کرنا شروع کی۔ سعودی عرب اس سے ناراض ہوا اور اس نے کہا کہ پاکستان نے جن چیزوں کا ہم سے وعدہ کیا ہے وہ ہمیں نہیں مل رہیں۔ سعودی عرب میں پھر بیگ صاحب کو بلایا گیا اور انہیں وہاں اچھی خاصی باتیں سنائی گئیں۔ مثلاً یہ کہا گیا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں اور حکومتی پالیسی کے خلاف کیوں جا رہے ہیں۔ اس کے بعد معاملات درست ہو گئے اور جیسے حکومت چاہتی تھی ویسا ہی ہوا۔ دفتر خارجہ کا موقف غالب آیا اور فوج کا موقف نہیں مانا گیا۔ یہ ہمارے ہاں بہت کم ہوا ہے لیکن یہ اس سلسلے کی ایک مثال ہے۔“

 سعودی عرب کے عزیز دوست امریکا نے صدام حسین کاتختہ الٹ کر اور افغانستان میں طالبان حکومت ختم کرکے دہشت گردی کے نہ رکنے والے سلسلے کو جنم دیا، لاکھوں بے گناہ لوگ اس مہم جوئی میں جاں سے گئے،اسی امریکا سے مل کر سعودی اور پاکستانی حکمران جب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کی بات کرتے ہیں حیرت ہوتی ہے۔ افغانستان اورعراق میں امریکی حملوں سے آنے والی سیاسی تبدیلی کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہوا کیونکہ صدام اور طالبان دونوں سے اس کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔

سعودی عرب اور ایران میں سے پاکستان کا قریبی دوست کون رہا ہے؟اس پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ میڈیا پر سعودی عرب کے پاکستان پراحسانات گنوانے والے زیادہ ہیں اور وہ لوگ ثابت کرتے ہیں کہ جیسے ایران سدا سے پاکستان کا دشمن ملک رہا ہو۔ تاریخ مگر کوئی اور کہانی سناتی ہے ، ہندوستان سے جنگوں میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا۔ آرسی ڈی کے پلیٹ فارم سے ترکی، ایران اور پاکستان کا قریبی معاشی وثقافتی اشتراک رہا۔ سعودی عرب کے برعکس ایران پاکستان کے سیاسی معاملات میں براہ راست دخیل نہیں رہا۔صرف دو مثالوں سے بات صاف ہوجائے گی،اول: ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران سعودی سفیر ریاض الخطیب کا فریقین میں ثالثی کے لیے سرگرم کردار۔ دوسرے نواز شریف کی سعودی عرب جلاوطنی کا معاملہ۔ ادھرجنرل مشرف نے کچھ عرصہ قبل اعتراف کیا کہ لندن اور دبئی میں اپارٹمنٹس کے لیے انھیں رقم شاہ عبداللہ نے دی تھی۔ ایسی حرکتوں سے سے سعودی عرب کا کردارمتنازع بنا اور عوام کے ذہنوں پر منفی تاثرمرتب ہوا۔

تاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔سعودی عرب کا معاملہ یہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت نہرو سعودی عرب گئے تو ’امن کا ایلچی‘ کے نعروں سے ان کا سواگت ہوا۔ 1951تک سعودی عرب میں ہمارا باقاعدہ سفارت خانہ نہ کھل سکا۔ مئی1951 میں حکومت نے باقاعدہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت کے لیے عبدالعزیز بن سعود کے پاس مولوی تمیز الدین کی سربراہی میں وفد بھیجا ، جس میں ناموراسلامی مفکر علامہ محمد اسد بھی شامل تھے، ان کی بادشاہ سلامت سے صاحب سلامت تھی ، اس لیے پاکستانی وفد کو اِذنِ باریابی مل گیا اور وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا یعنی باقاعدہ سفارت خانہ کھل گیا۔ یہ دونوں ملکوں سے ہمارے روابط کے آغاز کی کہانی ہے، جس میں بعد میں اتاڑ چڑھاؤ آتے رہے اور آج ان کے ساتھ نباہ کرنے کے بارے میں نازک مقام پر کھڑے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ اس مرحلہ سے ہم آساں گزر جاتے ہیں یا کسی جال میں پھنستے ہیں۔ ہمارے لیے صائب رستہ یہی ہے کہ عرب وعجم کی اس تاریخی آویزیش سے خود کو دور رکھیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).