سسلین مافیا کے پروان چڑھے ناراض بچے


 ”بیگم یہ مت بھولو کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں۔ مجھے دھمکیاں مت دو۔“ میرے غصے کو بیگم نے ایک ہنکارے کی مار دی۔ ”ہنہ؛ آپ کیا مافیا ہیں؟“ مجھے بھی غصہ آ گیا، ”مافیا میں نہیں تم ہو؛ بل کہ تم سسلین مافیا ہو۔“

”یہ سسلین مافیا کیا ہوتا ہے؟“ بیگم نے حیرانی سے پوچھا۔ میں نے جھٹ سے جواب دیا، ”وہی جو ہر مافیا کی ماں ہوتی ہے۔ سب سے بڑی مافیا۔“ بیگم کو پارہ چڑھ گیا، ”تو آپ میرے بچوں کو مافیا کَہ رہے ہیں؟“ میں کہاں چپ رہنے والا تھا، ”ہاں ہاں مافیا ہیں، سب بچے مافیا ہیں۔ اور سب مافیا کی ماں تم؛ سسلین مافیا۔“

بیگم سے جھگڑا کوئی نئی بات نہیں؛ اب تو معمول بن چکا۔ ایک سال میں، میں نے ایک سیل فون نہیں بدلا اور وہ تیسرا سیل فون توڑ چکی ہے۔ کئی بار سمجھایا ہے، فون کو پرس میں مت رکھا کرو، پرس میں دیگر ہتھیار جیسا کہ چابیاں، نیل کٹر، فایلر، قینچی، چھتری، پانی کا گلاس رکھے ہوتے ہیں، سیل فون ان سے رگڑ کھا کے خراب ہو جاتا ہے، لیکن وہ ہٹ کی پکی ہے؛ اپنی ہی کرتی ہے۔ آج کہنے لگی کہ مجھے نیا سیل فون خرید دیں، تو میں نے کہا، ”اپنے بجٹ سے خریدو؛ پہلے ہی تم نے بچوں کی پاکٹ منی کو اپنے بجٹ سے منہا کروا دیا ہے؛ تمھیں جو خرچ دیتا ہوں، وہ الگ؛ جب کہ تم اپنی سیلری سے ایک دھیلا مجھ پر خرچ نہیں کرتیں۔“ وہ تلملائی، ”کیوں کروں؟ میں محنت آپ کے لیے نہیں کرتی۔“

آپ سے کیا پردہ، گھر کا آئنی سربراہ تو میں ہوں، لیکن حکم بیگم ہی کا چلتا ہے۔ بچوں سے پانی کا گلاس بھی مانگو، تو وہ ماں کی طرف دیکھتے ہیں، کہ لا کے دینا ہے یا نہیں۔ بیٹا پڑھائی میں توجہ نہیں دے رہا تھا، اُس سے کہا اپنا سیل فون الماری میں رکھ دے، جب تک پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے، سیل فون انٹرنیٹ سے دُور رہو۔ اُس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا، کہ وہ کیا جواب دیتی ہیں۔ ”آپ خود تو ہر وقت موبایل میں گم رہتے ہیں، کیا ہوا جو بچے نے زرا کے زرا استعمال کر لیا۔ جاو بیٹا جا کے کھیلو۔“ بیٹا مجھ کو استہزائیہ نظروں سے دیکھتے وہاں سے چلا گیا۔ ”بیگم، اگر یہی حال رہا تو میں اس گھر کا نظام کیسے چلاوں گا؟ میرے ہر حکم کو تم ایک ویٹو کر دیتی ہو، کبھی کہتی ہو، بچوں کو سمجھانا میرا کام ہے، سجھاوں تو انھیں نافرمانی کی طرف مائل کر دیتی ہو۔ یہ کیا داستان ہے؟“ بڑے رسان سے بولی، ”آپ نہیں سمجھتے گھر کے مسائل کیا ہیں، اور ان کا حل کیسے نکلے۔ یہ میں جانتی ہوں۔ مجھ کو پتا ہے۔ یہاں کیا ہوگا، یہ مجھی کو فیصلہ کرنا ہے۔“

سیل فون کے قضیے کو لے کے اتنی بات بڑھائی، کہ جے آئی ٹی کی تشکیل ضروری ہوگئی۔ ”جے آئی ٹی“ کیا ہے، یہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ انگریزی حرف ”جے“ میرے بڑے سالے کے نام کا پہلا حرف ہے۔ ”آئی“ سے سالی کا نام شروع ہوتا ہے؛ ”ٹی“ میرے سسر کے نام کا پہلا حرف ہے۔ بیگم نے اپنی ماں کو وٹس ایپ کر کے ان تینوں ناموں کو طلب کیا۔ گو کہ وٹس ایپ کر کے نام زد کرنا، یہ رولز کی خلاف ورزی ہے، لیکن بیگم کو ایسا کہوں تو وہ توہین کا واویلا کرے گی؛ سو خاموشی بھلی۔ ”جے آئی ٹی“ کے سامنے پیش ہوا تو ”ٹی“ بولے، ”بیٹا یہ مت بھولو کہ تمھیں بنانے والے ہمی ہیں۔ تمھیں کون جانتا تھا؟ ہم نے تمھارے لیے جوڑ توڑ کی، تمھیں پہلی نوکری، پھر دوسری نوکری بھی ہمی نے دلائی، اب تیسری بار تم اپنی کوششوں سے کام یاب ہوئے ہو، تو ہماری بیٹی کو تنگ کر رہے ہو؟ اور آج تم اس مقام پر ہو، تو سمجھتے ہو، ہماری دست برد سے بچ رہو گے؟ اب ہمی کو آنکھیں نکالو، یہ ہم سے برداشت نہ ہوگا۔“

’آئی“ بھی برہمی کا اظہار کرنے لگی، ”جیجا جی، معاہدے کے وقت یعنی نکاح کے وقت ہم نے شرط لگائی تھی، کہ آپ کچھ بنیادی ایشو نہیں چھیڑیں گے؛ گھر کے اہم فیصلے ہماری بہن کیا کرے گی؛ ہاں چھتیں مرمت کرانا، دیواریں پکی کرانا، گھر کی صفائی ستھرائی، کونے کھدروں سے جالے اتارنے کا ذمہ آپ کا۔ پالیسی بنانے میں آپ کا دخل نہیں ہوگا، اب آپ پورا اختیار مانگ رہے ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟“

”جے“ پہلے تو چپ چاپ بیٹھا تھا، اب وہ بھی گرجا، ”آپ کے اکاونٹ میں کتنی رشوت کی رقم ہے، یہ ثبوت فراہم کرنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔“ میں منمنایا کہ ”آپ کی کمائی کب حلال کی ہے، جو مجھ کو دھمکا رہے ہیں؟“ اس پر ”جے“ کو مزید غصہ چڑھ گیا۔ ”ہماری کمائی پر نظر رکھتے ہو؟ پتا بھی ہے، ہم تمھارے ساتھ کیا سلوک کر سکتے ہیں؟ پہلے تو حج کے لیے بھیج دیا تھا، اب یہیں لٹکا دیں گے۔“ میں تھر تھر کانپنے لگا۔ ایک بار ایسا ہوا تھا کہ بیگم سے شدید اختلاف ہو گیا، ایسے میں سالوں نے مجھے زبردستی جہاز میں بٹھا کے جدہ ایر پورٹ روانہ کر دیا تھا۔ وہاں میرے مکتب والا مجھے سیدھا مکہ لے گیا، عمرے بھی کیے اور حج بھی۔ بچوں کی بہت یاد آتی تھی مجھے تو معاملہ رفع دفع ہونے میں بھی خاصا وقت لگا۔

میری بیوی جے آے ٹی سے میری تکرار دیکھ کے رونے لگی اور سسکتے ہوئے کہا، ”دیکھیے یہ مجھ کو دھمکا رہے ہیں، کہتے ہیں میں ایک دن دیکھ لوں گا سب کو۔“ میرے سسر بیٹی کا رونا برداشت نہ کر سکے، لگے زور زور سے چیخنے، ”تم ہمیں دھمکا رہے ہو؟ ہماری بیٹی کو دھمکا رہے ہو؟ تم سسلین مافیا کب سے ہو گئے؟“ میری بیگم رونا بھول کے حیرت سے باپ کی صورت دیکھنے لگی۔ ”آپ کیسے جانتے ہیں،کہ سسلین مافیا کیا ہے؟“ اس سے پہلے کہ میری بیوی کے والد اس کو کوئی جواب دیتے، میں نے کہا، ”کیوں کہ یہ خود سسلین مافیا ہیں، جیسا کہ انھوں نے جتلایا، میں انھی کا پروان چڑھایا پودا ہوں، میرے ہم زلف ہوں یا میں، ہر مافیا پر انھی کا کنٹرول ہے۔“

اس کے بعد میرا کیا حشر ہوا، وہ نشر کرنے کے قابل نہیں۔….

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran