پاک انڈیا میچ ….قلندر کہکشانی کے تکیے پر


 \"jamilآج شام کچھ فرصت تھی۔ سوچا کہ کہاں کا رخ کیا جائے۔ کوشش بسیار کے باوجود نہ کوئی جائے رفتن سوجھی نہ پائے ماندن سمجھ آیا۔ کیا چھوٹا کیا بڑا بخار زدہ لگا۔ ہیجان چہروں پر رقصاں تھا اور پاک انڈیا کرکٹ میچ کا غلغلہ تھا۔ میں نے پنجابی بابا کو یاد کیا اور ان کے فرمان ’چل چلیے دنیا دے اس نکڑے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے‘کو پیش رکھا اور سائیں قلندر علی کہکشانی کے تکیے کی طرف نکل لیا۔ باہر دروازے پر سائیں کے خلیفہ ملاقی ہو گئے۔ آگہی دی کہ صبح صبح بھنگ کچھ زیادہ گھوٹنے کی غلطی ہوئی اور سائیں تو ایک قطرہ ضائع کرنا حرام ہے، کو مانتے ہیں۔ پس اسی فلسفے پر عمل سے ابھی تک وجدانی کیفیت میں ہیں۔ دوپہر کے وقت سائیں کے گھر سے بچے کو مچھلی کے پیسے لینے بھیجا گیا تھا مگر سائیں توعرش پر تھے اور ویسے بھی ان دنیاوی باتوں سے ان کا کیا لینا دینا۔ میں نے بچے کو تین سو تودے دیے مگرسائیں کیا بتاو¿ں اس وقت سے طبیعت مزہ چھوڑ گئی ہے اور یہ خیال ہے کہ سائیں تو ڈہائی اور پونے تین کو متبرک سمجھتے ہیں۔ پورے تین سو دینا حکمت نہیں سمجھتے۔ اب یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ میرے پچاس ڈوبیں گے یا پچیس۔ خیر خلیفہ کو دم دلاسا اور وعدہ وعید کرکے کٹیا میں سائیں کی بیداری کی مشن پر بھیجا۔ بصورت کامیابی مجھے خلیفہ کا نقصان پورا کرنا لازم ٹھہرا۔ سائیں کو ٹھیک بلکہ ٹھاک کر کے خلیفہ نے مسند پر بٹھایا اور فقیر کو درشن کرنے کا مڑدہ دیا۔ سائیں اس وقت تک ننداسی آنکھوں سے نجات پا رہے تھے۔ حال احوال ہوا کچھ راز و نیاز، رنگین و سنگین کہہ کر سائیں کو موڈ میں لایا مگر ابھی مسائل تصوف زیر بحث بھی نہ لائے گئے تھے کہ مولوی حمید اللہ شاہین آ پہنچے۔ اور اکیلے بھی نہیں۔ کرایہ کے ایک عدد ٹی وی کو مثل محبوبہ بغل میں دابے۔ مجھے سوجھ گیا کہ آج سائیں قلندرعلی کہکشانی سے رموز و اسرار جاننے سے محرومی نصیب ٹھہری۔ ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔ سو خود کو حوصلہ دلا کر سائیں قلندر علی کہکشانی اور مولوی حمید اللہ شاہین کے ساتھ میچ دیکھنے پر تیار کرلیا۔ ٹاس ہونے لگا تو سائیں قلندر علی مولوی شاہیں کی طرف متوجہ ہوئے۔

”ہاں مولبی صاحب۔ بتا۔ ٹاس کون جیتے گا؟“

” پاکستان ہی جیتے گا اور کون جیتے گا“ مولوی حمید اللہ شاہین کا جملہ لپا لپ یقین سے بھرا ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بھنگ کا بھرا گلاس خلیفہ نے سائیں قلندر علی کے سامنے رکھا۔ اگلا لمحہ انڈیا کے ٹاس جیتنے کا تھا۔

”او مولبی یہ ہے تیرا علم؟“

’یہ تیرے خلیفہ نے پلید چیز جو پلائی اس کا بد اثر تو ہوگا نا۔ یہی ٹاس کو پاکستان سے چھین گیا‘۔ مولوی حمید اللہ شاہین سے قلندر کہکشانی کا ٹھٹھا کہاں برداشت ہونا تھا۔

” لے مولبی اس پلید چیز کوجہنم کے حوالے کرتے ہیں“ یہ فرما کر قلندر کہکشانی ایک ڈیک لگا کر پورا بھنگ کا گلاس چڑھا گئے۔

”اب اگر یہ پلید چیز یہاں آئی تو میں اسی وقت اٹھ کر چلا جا و¿ں گا۔ تم تو پاکستان کو ہرا کر ہی چھوڑوگے“

تب میں نے مداخلت کی اور بتایا کہ پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی گئی ہے۔

”دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ پاکستان ٹاس جیتے گا۔ اور وہی ہوا۔ “ مولوی صاحب فرحاں ہوکر بول پڑے۔

” وہ کیسے“ مجھ سے یہ راز سلجھایا نہ گیا

”او یار ٹاس جیتنے کا مطلب ہوتا ہے بیٹنگ کرنا۔ نہیں سائیں؟“

”برابر ٹاس جیتنے کا اور مطبل کیا ہوتا ہے۔ یار تو بھی سمجھتا نہیں“ سائیں مولبی صاحب کی تائید کرتے مجھے مخاطب ہوئے۔

”لیکن ابھی یہ پلید چیز نہیں آئے گی“ مولوی حمید اللہ شاہین کی بات میں میری ہاں میں ہاں ملانے کے بعد خلیفہ کو مناہی کردی گئی۔

” سائیں آج میچ کون جیتے گا“

” بچے آج میچ انڈیا کے ہاتھ لگتا نظر آتا ہے۔ علم الاعداد کے حساب سے یہ میچ پیر کے دن ہوتا تو پاکستان جیتتا۔ “ سائیں نے میرے سوال پر گویا ہوئے۔

” سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ انڈیا جیتے۔ یہ ہمیشہ کافروں کی طرفداری کرتا ہے“ مولوی صاحب بھڑک اٹھے۔

” مولبی بنا پھرتا ہے اور علم ٹکے کا نہیں۔ او جاہل میں نے علم الاعداد کے حساب سے کہا کہ پاکستان کے لئے پیرکا دن مبارک پڑتا ہے۔ مجھے بتا یہ پیر کے دن کیوں نہیں رکھا میچ“ سائیں قلندر کہکشانی اب کے مجھ پر برسے۔

” یہ کافروں کی سازش ہے۔ ہے کہ نہیں۔ “ میرے جواب سے پہلے مولوی صاحب بول اٹھے۔ اب کون کافر ٹھہرے۔ ٹاس کے بعد اشتہار رواں ہوگئے اور مولوی صاحب بھی۔

” یہ اشتہار ہیں؟ اوئے ہوئے چپس، ڈنگ ڈانگ ببل، یہ سکھایا جا رہے ہمارے نسل کو۔ وہ کیا سیکھیں گے۔ “

” کیا سیکھیں گے مولوی صاحب؟“مجھے سمجھنے کے لئے سوال کرنا پڑا

” مجھے کیا پتا کہ کیا سیکھیں گے اور تم بس سن لیا کرو۔ یہ سوال کی جو عادت ہے، تم پر کبھی بہت بھاری پڑے گی۔ “

” او مولبی خود پتا نہیں کیا اناپ شناپ بولتا ہے اور اس سے خوامخواہ لڑے جا رہا ہے۔ “ اتنے میں اوپنر کی آمد نے بات بدلنے میں مدد دی۔

” سائیں اوپنرز کا کیا کہتے ہو؟“

” بابا حفیظ کا نام خاکی ہے جو آج رات بارہ بجے تک وارا نہیں کھا رہا۔ باقی شرجیل آبی ہے یہ رن بنائے گا۔ “

” تو سائیں رات بارہ بجے بھیجیں اسے؟ پھر تو وہ پچ پر جا کر جھاڑو ہی لگا سکتا ہے۔ “

” او یار خود پوچھتا ہے اور پھر الٹی باتیں کرتا ہے۔ او مولبی تو ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ “ سائیں قلندر کہکشانی نے مجھ پر ناراضگی کی نظر ڈالی۔ میں نے خاموشی میں فائدہ سمجھا۔

” ہم نے بول دیا تھا۔ اب کوئی مانے نہ مانے” حفیظ رخصت ہوئے تو سائیں مسکراکر گویا ہوئے۔

” اوئے بس کر سائیں۔ ہمیں پتا ہے تیری کالی زبان کا اور اوپر سے ہنسے جا رہا ہے۔ مولوی حمید اللہ شاہین کے پاس رعایت کہاں۔
” اب بول۔ یہ تیرا آبی لدھڑ شرجیل رنز بنائے گا۔ وہ رنز بنائے گا کہ کھا گیا ؟“کچھ دیر میں شرجیل کے لوٹتے ہی مولوی صاحب نے بقایہ حساب چکتا کیا۔ ابھی سائیں مراقبے میں جا کر مولوی کے جواب کی تیاری میں تھے کہ یہاں تو چل میں آیا کا رواج زور پکڑ گیا۔ ایک ایک وکٹ گرنے پر مولوی حمید اللہ شاہین کا پارہ چڑھتا گیا۔

” یہ سب تیرے لعنتی پلید بھنگ کے گلاس کا اثر ہے۔ اگر یہ تیرا خلیفہ شروع میں اسے نہ لاتا تو سب نہ ہوتا۔ “ پینتیس پر پانچواں آوٹ ہونے پرگنگ بیٹھے مولوی صاحب ابل پڑے۔ بیالیس پر چھٹے اناڑی نے میدان چھوڑا تو ہم نے اپنے پاو ¿ں کو حرکت دی۔ اندازہ تھا کہ کرائے کا ٹی وی ٹوٹے ہی ٹوٹے۔ ہماری موجودگی کی صورت میں وزن ہمارے نازک کندھوں پرآنا تھا اس لئے سائیں قلندر علی کہکشانی اور مولوی حمید اللہ شاہین کی بذریعہ بازو روکے جانے کے باوجود ہم کھسکنے میں کامیاب ہوگئے۔ بعد میں کیا ہوا؟یہ خلیفہ جب ہم سے اپنا حصہ طلب کرنے آئے گا تو آپ کے گوش گذار کردیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments