مین سپلیننگ (Mansplaining) بند کریں!


 خواتین کے لئے جب آدمی بولنا شروع کریں‌ جیسے ان کو زیادہ پتہ ہے تو اس کے لئے ایک ٹرم ہے جس کو مین سپلیننگ کہتے ہیں۔ اگر خواتین کو ذرا سا بھی اندازہ ہو کہ جن لوگوں‌ پر مکمل انحصار کرکے بیٹھ گئی ہیں وہ کتنے کمزور اور کلو لیس ہیں تواس صورت حال کی خطرناکی کا اندازہ ہوگا۔ جو لوگ سولہ سال کی لڑکیوں‌ کو اس کشتی میں‌ بٹھا کر بھیج دیتے ہیں، کیا وہ سوچتے ہیں‌ کہ آگے ان کے اوپر کیا مشکلات آنے والی ہیں؟ کچھ مہینے پہلے ایک آرٹیکل نظر سے گزرا کہ ڈاکٹر کا لالچ جان لے سکتا ہے۔ عنوان کے برعکس وہ آرٹیکل اس بارے میں‌ تھا کہ ان صاحب کی بیگم لیبر میں‌ تھیں‌ اور وہ اور ان کی بچی ڈاکٹر کی تلاش میں‌ مرتے مرتے بچیں۔ اس سے ان کو یہ سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ خود اپنی بیوی کو مڈوائفری کا کورس کروائیں‌ تاکہ وہ اپنے خاندان اور پڑوس میں‌ خواتین کی مدد کریں‌ اور اپنی فیملی پلاننگ بھی کریں کہ اگلی بار ایسی سچوایشن سامنے نہ آئے۔ پروفیشنل لوگوں‌ کی شدید کمی کے باعث پاکستان میں‌ بچوں‌ کی پیدائش کے دوران خواتین کے مرنے کی شرح‌ دنیا میں‌ سب سے زیادہ ہے اور بچوں‌ میں‌ پیدائش کے دوران مرنے کی شرح‌ بھی دنیا میں‌ سب سے زیادہ پاکستان میں‌ ہے۔ بلکہ ان خاتون کو خود اپنے لئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ مر گئیں‌تو آپ کے بچے کون پالے گا؟

جس طرح‌ ہم دنیا میں‌ مختلف مکانوں‌ میں‌ رہتے ہیں بلکل اسی طرح‌ زندگی میں‌ ہم اپنے جسم کے اندر رہتے ہیں اور ہر کسی کو اپنے جسم کا اور اپنے دماغ کا اور اپنے دل کا ہی پتا ہوتا ہے۔ جیسے کسی کی ٹانگ نہ ہو، کسی کی آنکھیں‌ نہ ہوں، کسی کی چھ انگلیاں‌ ہوں۔ میرے دو مریض‌ ہیں ‌جن کا دل بائیں‌کے بجائے دائیں‌جانب ہے۔   دنیا میں‌ ایسے بھی لوگ ہیں‌ جو اس کو تین کے بجائے دو ڈائمینشن میں‌ دیکھتے ہیں جیسے تصویر دیکھ رہے ہوں، کسی کی دونوں‌ آنکھوں‌ کا رنگ مختلف ہوتا ہے، کچھ لوگ آواز کے رنگ دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ کو ڈسلیکسیا ہوتا ہے اور وہ نارمل طریقے سے نہیں‌پڑھ سکتے۔ انسان ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور جو مشکلات وہ زندگی میں‌ فیس کرتے ہیں‌ ان کا دیگر افراد کو کچھ اندازہ نہیں‌ ہوتا۔ اس لئے یہ بات ناممکن ہے کہ ایک پلاسٹک کا سانچہ لے کر ہر کسی سے یہ توقع کی جائے کہ اس میں‌ فٹ ہوجائے۔ زندگی ایک فری سائز موزا نہیں‌ ہے جو ہر کسی کو پورا آجائے۔ اس لئے جو لوگ بھی زندہ یا تاریخی انسانوں‌ کی مثال آپ کے سامنے رکھتے ہیں‌ اور کہتے ہیں‌ کہ ایسے بن جاؤ تو وہ بالکل غلط ہیں۔

دنیا کی قریبی تاریخ، مذہبی کتابیں، فلسفے کچھ بھی اٹھا کر دیکھ لیں، سب آدمیوں‌ کا ہی لکھا ہوا ہے اور اپنے نقطہء نظر سے خود کو دنیا کا مرکز بنا کر ہی لکھا ہے۔ اسی لئے جو خواتین کے جنسی رویے پر حال ہی میں‌ مضمون نظر سے گزرا وہ لوگوں‌ کے سر پر سے گزر گیا، ان کو سمجھ ہی نہیں  آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لئے انفرادی انسانی اناٹومی، فزیالوجی، سائکولوجی اور معاشرتی اور سماجی سائنس سمجھنی پڑے گی۔ پرابلم یہ ہے کہ سینکڑوں‌ سالوں‌ سے جو نالج کا دھاگا چلا آرہا ہے وہ آدمیوں‌ نے لکھا ہے اس لئے جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں‌ بھی تو ہماری نالج بھی اسی لحاظ سے محدود ہے۔ جیسا کہ اگر ایک مرد مریض‌ کسی ہارمونل مسئلے کے ساتھ آتا ہے تو اس کی مدد کرنا ایک خاتون کی مدد کرنے سے زیادہ آسان ہے کیونکہ زیادہ تر دوائیں، ٹیسٹ، مشینیں‌ اور انفارمیشن اسی طرح‌ موجود ہیں۔ اسی طرح‌ ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر اشتہار بھی آتے ہیں۔ وہ تو سبھی نے دیکھ رکھا ہوگا جس میں‌ ساحل پر باتھ ٹب میں‌ بیٹھے ہیں۔ خواتین کے علاج کے میدان میں‌ مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔   جیسا کہ ایک گذشتہ مضمون میں‌ بھی لکھا تھا کہ جس بات کو ہمارا دماغ نہ جانتا ہو وہ ہماری آنکھوں‌ کے سامنے ہوتے بھی دکھائی نہیں‌ دیتی۔

جب حاملہ خواتین کو الٹیاں‌ اور متلی ہوتی تھی تو تاریخ میں‌ ڈاکٹرز نے اس کا مطلب یہ نکالا کہ وہ اپنے پیٹ میں‌ موجود بچے سے نفرت کرتی ہیں اور اس کراہیت کی وجہ سے ان کو الٹیاں‌ ہوتی ہیں۔ حالانکہ اب ہمیں‌ پتا ہے کہ وہ بیٹا ایچ سی جی ہارمون سے ہوتا ہے۔ کسی کو بھی بیٹا ایچ سی جی دیا جائے اس کو متلی ہوگی۔ اسی لئے اس کو وزن گھٹانے کی دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔ ہسٹیریا کے لئے کہتے تھے کہ وہ بچہ دانی کی وجہ سے ہوتا ہے یہاں‌ تک کہ کئی خواتین کی ہسٹریکٹومی اسی لئے کی گئی تاکہ ان کا ہسٹیریا ٹھیک ہوجائے۔ اب ہم جانتے ہیں‌کہ ہسٹیریا کا یوٹریس یا بچہ دانی سے کوئی تعلق نہیں‌ ہے۔ پچھلی صدی میں‌ یہی سمجھا جاتا تھا کہ خواتین کو دل کے دورے نہیں‌ پڑتے کیونکہ سارے ریسرچرز خود بھی مرد تھے اور ان کے سبجیکٹ بھی مرد تھے اس لئے انہوں‌ نے یہ نتیجہ نکال لیا اور اسی لئے کتنی خواتین دل کی بیماری سے مر گئیں۔

پھر جب خواتین نے بائیسائیکل چلانا شروع کی تو ڈاکٹرز نے کہا کہ خواتین کو بائیسائیکل نہیں‌ چلانا چاہیے کیونکہ اس سے ان کو ”بائیسائیکل فیس“ کی بیماری ہوجاتی ہے۔ سعودی عرب میں‌ آج بھی وہاں‌ کہتے ہیں‌ کہ خواتین کو گاڑی نہیں‌ چلانی چاہیے کیونکہ اس سے ان میں‌ آرگازم ہوتا ہے۔ ان سے کوئی پوچھ کر بتائے کہ بھئی وہ کیسے ہوگا۔

اسی لئے خواتین سے گذارش ہے کہ پلیز پجن ہولز (ڈربوں) سے نکلیے، ان آدمیوں‌ کے حلقوں‌ میں‌ آدھی تعداد میں‌ اپنی نمائندہ ‌ بھی بھیجیے۔ کابینہ میں‌ بیٹھ کر یہ لوگ کتنے عقلمند نظر آنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں؟ وہ آپ کے لئے کتنی نسلوں‌ سے الٹے سیدھے کام کررہے ہیں۔ نارمل لوگ اصلی دنیا میں‌ موسم، جغرافیے، حالات، صحت، بیماری، دن، ضرورت اور وقت کے لحاظ سے خود کو ملبوس کریں‌گے، کام کریں‌ گے اور سواری بھی کریں‌ گے۔

ایک بچہ نیا دنیا میں‌ آتا ہے، آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے، اس کو اپنے جسم کے مختلف حصوں‌ کے بارے میں‌ سمجھ آتا ہے۔ جیسے جیسے سائز بڑھتا ہے تو کپڑے، جوتے اسی لحاظ سے مناسب سائز کے لینے ہوتے ہیں۔ پھر بلوغت کے دوران  نارمل تبدیلیوں‌ سے گزرتا ہے۔ نئے کپڑے پہننا سیکھنا پڑتا ہے جن کا سائز بھی بدلتا رہتا ہے۔ پھر یہ ایک کامن پرابلم ہے کہ مہینے آنے کے بارے میں‌ جن بچیوں‌ کو ان کی ماؤں‌ نے یا ٹیچرز نے بتایا نہیں‌ ہوتا وہ خوفزدہ اسکول میں‌ یا گھروں‌ میں‌ روتی پائی جاتی ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں‌ آتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اپنے تیرہ بچے بھی ہیں‌اور نارمل بات بھی بچوں‌کو نہیں‌ بتاتےکہ کس طرح‌ پرسنل ہائی جین کا خیال کرنا ہے۔ بارہ تیرہ سال کا انسان ایک بچہ ہی ہوتا ہے اس کو کچھ پتا نہیں‌ ہوتا کہ اپنا خیال کیسے کرے۔

کوئی سید فیملی تھی، وہ لوگ ذات سے باہر شادیاں‌ نہیں‌ کرتے تھے اور ایک لڑکے نے ان کے بارے میں‌ اپنے بچپن کی کہانی لکھی۔ ایک تو سید زیادہ تر ہیں‌ ہی نہیں، 98 فیصد ساؤتھ ایشین ہیں اور دوسرے یہ کہ اگر کسی کو چائے والا پسند ہے تو ان کو چائے والے کے ساتھ جانے دینا، ساری زندگی کے لئے قیدی بنانے سے بہتر ہے جہاں‌ وہ بچوں‌ کی معصومیت خراب کریں۔ لوگوں‌ کو سامنے آکر اپنی کہانیاں‌ بتانی ہوں‌ گی تاکہ یہ مجرمانہ روئیے کم کئیے جاسکیں۔

کسی کی تیرہ سال کی عمر میں‌ شادی ہوئی کسی کی سولہ۔ اس عمر میں‌ معصوم بچیاں‌ ہوتی ہیں جن کے کھیلنے کے اور پڑھنے کے دن ابھی پورے نہیں‌ ہوئے۔ شادی سنبھالنا اور گھر کی ذمہ داری اٹھانا بڑے کام ہیں‌ وہ بچوں‌ کا کھیل نہیں ہے۔ ان کے ساس سسر بھی ہاتھ پیر چھوڑ کر خود کو بوجھ بنادیتے ہیں۔ ابھی انہوں‌ نے یہ نہیں‌ سیکھا کہ اپنے شوہر کے ساتھ کیسے رہنا ہے کہ بچے ہونا شروع ہوگئے۔ حمل سے جو گزرے اور بچے پیدا کرے وہ ہی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اپنے اندر ایک اور انسان کو گھومتے محسوس کرنا کیسا ہوتا ہے۔ سر سے پیر تک جسم میں‌ تبدیلیاں‌ سینٹر آف گریوٹی بدل دیتی ہیں۔ ہارمونز میں‌ تبدیلیاں‌ ہوتی ہیں۔ میں‌ نے سائکائٹری میں‌ ہاؤس جاب کی تھی۔ ایسی دو مریضائیں‌ یاد ہیں‌ جن کو پوسٹ پارٹم ڈپریشن اور پوسٹ پارٹم سائکوسس تھا۔ کوئی اپنے نئے بچے تک پکا کر کھالیتی ہیں۔ سائکائٹرسٹ انتہائی کم ہیں‌ اور دماغی مریض زیادہ ہیں۔ نئی ماں کا سوتے جاگتے چھاتیوں‌ میں‌سے دودھ بہتا ہے۔ سو کر اٹھیں‌ تو بستر بھیگا ہوا ملے۔ ان خواتین میں‌ سے کسی فینسی پرفیوم کی نہیں‌ بلکہ آلو گوبھی کی بو آتی ہے۔ جسم پھیلا پھر سکڑا، پھر پھیلا اور پھر سکڑا۔ ایک ہی وقت میں‌ ایک ایسا انسان بننا جو تین نسلوں‌ کی ضروریات پوری کرنے میں‌لگا ہو، یقیناً گولڈ میڈل کا حقدار ہے۔ آدھی رات میں‌جب ننھی منھی آواز میں‌ ایک بچہ چلاتا ہے تو صرف اس کی ماں ‌کی اتنی ہمت ہوتی ہے کہ اس کا جواب دے سکے۔ پھر وہ بڑا ہوکر کہتا ہے کہ آپ کمزور ہیں۔

اسی لئے جب خواتین اپنی عمر کی تیسری اور چوتھی دہائی میں‌ پہنچتی ہیں، ان کے بچے تھوڑے بڑے ہوچکے ہوتے ہیں، ساس سسر بھی مرگئے اور ان کو اپنے جسم میں‌ رہنا اور اس کا خیال رکھنا آجاتا ہے تو ان کی توجہ جنسی تعلق کی طرف ہوتی ہے۔ اس وقت تک دیسی شادیوں‌ میں‌ میاں‌ بیوی ایک دوسرے سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی بیویوں‌ کے بارے میں‌ لطیفے بنانا لوگوں‌ کا عام مشغلہ ہے۔ وہ اپنا وقت اپنی بیویوں‌ کے ساتھ مووی دیکھنے پر یا باہر جاکر کھانا کھانے پر خرچ کرنے کے بجائے باہر وقت صرف کرتے ہیں۔ بچوں‌ کی جو بھی پرابلم ہو تو ماں پر ذمہ داری ڈال کر الگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک انسان کا کوڑا دوسرے انسان کا خزانہ ہوتا ہے۔ آج کل بھابیاں‌ رکھنا کتنا مشکل ہوگیا ہے، جس کو دیکھو طلاق لے کر جارہی ہے۔ اب تو ہیرے کی انگوٹھی یا ایسے کوئی مہنگے تحفے دیتے ہوئے بھی جھجک ہوتی ہے، وہ بھابیوں‌ کے ساتھ ہی چلے جارہے ہیں۔

اسی لئے اگر لوگ یہ نہیں‌ سمجھیں‌ گے کہ ان کو مڈل ایج میں‌ اپنے اسپاؤس کے ساتھ محبت اور خوشی سے رہنا چاہیے تو وہ یہی ناخوش زندگیاں‌ گذارتے رہیں‌ گے۔ اس طرح غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکتیں‌ کرنے پر لوگ مجبور ہوں‌ گے۔ جو خواتین کے ہاتھوں‌ لڑکوں‌ کے استعمال کا ذکر ہوا وہ نہایت خطرناک بات ہے کیونکہ سب لوگ اسی بات کا زیادہ خیال کرتے ہیں‌ کہ آدمیوں‌ سے بچوں‌ کو بچائیں، خواتین کی طرف اس طرح‌ دھیان بالکل نہیں‌ جاتا۔ اپنے اپنے بچے بچانا ہوں‌ گے۔ لوگوں‌ کو نارمل طریقے سے جینے دینا ہوگا۔ مین سپلیننگ بند کرنا ہوگی اور سننا شروع کرنا ہوگا۔


اسی بارے میں
جب جنسی جذبہ بیدار ہوتا ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).