فکشن، نان فکشن، تماشا اور مداری


اکتوبر 2013 کا ذکر ہے، میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ گروپ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا۔ اتفاق سے میرے روم میٹ ایک سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے تھے۔ وہ خود ایک بینک میں اعلیٰ عہدے پر کام کرتے ہیں۔ ایک دن انھوں نے بہت پُرجوش ہوکر مجھے مطلع کیا کہ ملالہ یوسف زئی کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے اور ڈان نے یہ رپورٹ چھاپ دی ہے کہ وہ مغرب کی ایجنٹ ہے۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا اور پوچھا کہ رپورٹر کا نام کیا ہے۔ اُن صاحب نے جواب دیا، ’’ندیم فاروق پراچہ!‘‘

میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے انھیں بتایا کہ این ایف پی میرے دوست ہیں اور وہ کرائم رپورٹر نہیں، سیٹائر یعنی طنزیہ و مزاحیہ کالم لکھتے ہیں۔ ملالہ کی حقیقت جو بھی ہو، اُن کی تحریر کی بنیاد پر آپ ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ لیکن صاحب کو میری بات کا یقین نہ آیا۔

یہ ہمارے معاشرے کی عمومی صورت حال ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ فکشن اور نان فکشن میں فرق نہیں سمجھ پاتے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے فکشن نہیں پڑھتے۔

تمام ٹوٹے پھوٹے، بے سمت، جبر کے شکار اور الجھن میں مبتلا معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی فکشن لکھنا ایک خطرناک کام ہے۔ صحافت سے زیادہ خطرناک۔! صحافی سچ جاننے اور پھر اسے ُدنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔ صحافی جانتا ہے کہ سچ لکھنے میں کیا خطرات ہیں۔

فکشن لکھنے والا اپنی زندگی اور معاشرے سے حاصل ہونے والے تجربات اور امیجی نیشن (تخیل) کی مدد سے ایک مختلف دنیا تخلیق کرتا ہے۔ وہ اُس دنیا کا ایک پہلو ہمیں دکھاتا ہے۔ چونکہ یہ عکس در عکس ہوتا ہے اِس لیے کبھی ہمیں اپنی تصویر بھونڈی لگتی ہے، کبھی اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ اِس لیے بہت سے لوگ خفا ہو جاتے ہیں۔

فکشن رائٹر کتنی ہی مہارت سے ہماری دنیا ہمیں دکھائے، ہمیں ہی اپنا کردار بنائے، ہماری محرومیاں اور زیادتیاں سامنے لائے، یاد رکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ سب فکشن ہے۔ اُس تحریر سے کوئی مثبت نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے لیکن اُسے کسی مقدمے کے لیے فردِ جرم نہیں بنایا جا سکتا۔ اُس کی بنیاد پر کسی کو کافر یا غدار قرار نہیں دیا جاسکتا۔

دو برس قبل لاہور لٹریری فیسٹول میں محمد حنیف نے جب یہ کہا تو میں اُن کے بالکل سامنے بیٹھا تھا، کہ انھیں کبھی کبھی ایسے لوگ ملتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کتابیں نہیں پڑھتے لیکن آپ کی کتاب پڑھی ہے۔ بظاہر یہ فخر کرنے کی بات ہے لیکن حنیف کہتے ہیں کہ انھیں ایسے لوگوں سے ڈر لگتا ہے۔ جو شخص صرف ایک کتاب پڑھتا ہے، وہ اُس کے تمام مندرجات کو سچ سمجھ بیٹھتا ہے۔ حنیف ایسے لوگوں کو دوسری کتابیں پیش کرتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ فکشن کیا ہوتا ہے۔

میں حنیف سے متفق ہوں۔ اگر کسی کو یہ سمجھ نہیں کہ وہ جو پڑھ رہا ہے یا سن رہا ہے یا دیکھ رہا ہے، وہ کیا ہے، تو پھر وہ خود بھی نقصان اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

مجھے یہ سب اِس لیے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اپنی سو لفظوں کی کہانیوں پر آج کل مجھے عجیب و غریب تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ کسی کو میری کہانیوں کے موضوعات سے تکلیف پہنچ رہی ہے، کوئی ِانداز بیان پر تنقید کر رہا ہے، کوئی الفاظ کے چناؤ پر برہم ہے، کوئی بین السطور پیغام غلط سمجھ کر برا بھلا کہہ رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھیں معلوم نہیں کہ دراصل فکشن کیا ہوتا ہے۔

میں ایک ایسے نیوز چینل سے وابستہ ہوں جو کئی بار بند کیا جاچکا ہے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنا سچ برداشت کیا جا سکتا ہے اور کہاں جا کر خاموش ہو جانا چاہیے۔ لیکن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے تقاضے مختلف ہیں۔ ٹی وی پر جو بات نہیں کی جاسکتی، پرنٹ کے میڈیم اور فکشن کی صنف میں وہ بات بین السطور کہی جاسکتی ہے۔ بات کی جانی چاہیے تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔

تیس سال پہلے جب میں خانیوال کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھتا تھا تو ایک دن میرے بستے سے کہانیوں کی کتابیں نکل آئی تھیں۔ اُس دن مجھے پورے اسکول کے سامنے مرغا بنا دیا گیا تھا۔ یہ بے عزتی مجھے کبھی نہیں بھولتی۔ اسکول اور کالج میں ٹاپ کرنے والے طالب علم کی سولہ سالہ تعلیمی زندگی کا وہ واحد دن ہے جب اسے کوئی سزا ملی۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ جس طالب علم کے بستے سے کہانیوں کی کتابیں نکلی تھی، آج اس کی کہانیاں ہزاروں لاکھوں افراد روزانہ پڑھتے ہیں۔ کیا وہ سزا درست تھی؟

بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ فکشن لکھنا اور پڑھنا اِس معاشرے کو قبول نہیں۔ فکشن پڑھنے والا سچ اور جھوٹ میں فرق جان جاتا ہے۔ اسے جھوٹی خبریں نہیں سنائی جا سکتیں۔ اُسے مسخ تاریخ نہیں پڑھائی جا سکتی۔ اُسے نفرت پر اکسانے والا درس نہیں دیا جاسکتا۔ اُسے سوال اٹھانے کی سمجھ آ جاتی ہے۔ ہمارے بعض اساتذہ اور مقتدر حلقے، اپنی مرضی کا درس دینا چاہتے ہیں۔ انھیں سوال سننا پسند نہیں۔

یہ کس کا قول ہے کہ فکشن سے دور رہنے والے، دولے شاہ کے چوہوں کی قوم بن جاتے ہیں۔ اُن کی آنکھوں پر پٹی اور ناک میں نکیل ڈالنا ممکن ہوجاتا ہے۔ انھیں محترم لوگ ہانک کر جہاں جی چاہے، لے جاتے ہیں۔ انھیں سوچنے پر نہیں اکسایا جاسکتا کیونکہ اُن کا دماغ اِس قابل نہیں رہتا۔

ہمارے معاشرے کو فکشن کی تعلیم اور کتابوں کے فروغ کی تحریک کی اشد ضرورت ہے۔ قوم فکشن پڑھنے لگے گی تو بہت جلد اسے فکشن اور نان فکشن، یعنی جھوٹ اور سچ کا فرق سمجھ آجائے گا۔ بس اُسی دن ٹی وی اور لاؤڈاسپیکر کا مائیک اٹھا کر تماشا کرنے والے بہت سے مداری بے روزگار ہو جائیں گے

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments