سوشل میڈیا کو لگام دینے کی سعی


چونکہ ہم لوگ ہر نئی سائنسی ایجاد کی درگت بنانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں اور چونکہ ہماری حکومتیں ہر ایسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سولہویں صدی کے غٰیر سائنسی طریقوں پر یقین رکھتی ہیں ، لہذا سوشل میڈیا پر پابندی کے خواب دیکھتے دیکھتے اب اس کے بے لگاموں سے نمٹنے کے لیے ایف آئی اے کو فوجداری طریقے سے کارروائی کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے ۔

بہت پہلے ہم نے ایک فلم ” وڈا تھانیدار“ دیکھی تھی ۔ اداکار ننھا مرحوم نے وڈے تھانیدار کا کردار ادا کیا جو ایک سین میں گھر آ کر کہتا ہے ” ماں ! میں جس علاقے میں تھانیدار لگاہوں ، وہاں میری دہشت ایسے پھیل گئی ہے ، جیسے گند پھیلتا ہے “ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کی دہشت بھی کچھ اسی طرح پھیل چکی ہے ۔ جدید سائنس کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ابھی ہم موبائل فون استعمال کرنے کے آداب و اطوار سیکھنے کے مراحل میں تھے کہ اوپر سے سوشل میڈیا بھی ا ٓ گیا اور ہم نے اس کی بھی بلا تکلف ٹھکائی شروع کردی۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی سائنسی ایجاد کے استعمال بارے اس کے موجد کے وہم و گمان میں بھی وہ کچھ نہیں ہوتا ، جو ہمارے ہاں کیا جاتا ہے ۔ مثلاً لاﺅڈ سپیکر بنانے والے کو قطعاً اندازہ نہیں ہوگا کہ اس کی ایجاد سے دنیا کے کسی خطے کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردی جائیں گی۔ موبائل فون کا موجد بھی لاعلم تھا کہ اس صوتی آلے کو دنیا میں کوئی برگزیدہ قوم اپنے غیر مہذب رویوں کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرے گی یا بم بلاسٹ کے لیے اس کی خدمات سے استفادہ کرے گی ۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے جسے یار لوگوں نے اپنے غیر شائستہ بے لگام جذبات کے اظہار کا ذریعہ سمجھ لیا ہے ۔ بجا کہ اکثریت سوشل میڈیا کو رابطے ، علم کے حصول اور اس کی ترویج کے لیے استعمال کرتی ہے مگر ہمارا ایک مخصوص منجھا ہوا طبقہ سماجی رابطے کے اس عجوبے کی وساطت سے نفرت ، دشنام طرازی ، کردار کشی ، توہین ، فرقوں اور لسانی بنیادوں پر فساد کو مہمیز دینے پر تلا ہوا ہے ۔ دوسری طرف ہماری وزارت داخلہ ، علمائے انصاف اور کچھ زود فہم دانشور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایف آئی اے کے ذریعے کارروائی یا سرے سے سوشل میڈیا ہی بند کرنے پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ وہی اصول ہے جس کی طرف ہم پہلے بھی کسی کالم میں اشارہ کر چکے ہیں کہ کس طرح ایک لال بجھکڑ نے مٹی کی ہانڈی میں پھنسا بکری کا سر آزاد کرایا ۔ اس نے پہلے بکری ذبح کرنے کا حکم دیا اور پھر ہانڈی توڑ کر اس کا سر ” آزاد “ کرا لیا۔

اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اگر وزارت داخلہ افواج پاکستان اور عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو سخی سے روکنا چاہتی ہے تو وہ پہلے ان افراد کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی جو ٹی و ی سکرینوں پر بیٹھ کر سرِ عام اداروں کی تضحیک کرتے ہیں ۔ کیا میڈیا پر جلوہ افروز ہوکر فوج کو منتخب حکومت کا تختہ الٹنے جیسی ” دعوتِ گناہ“ دینا مصلح افوا ج کی توہین نہیں ؟ یہاں تو ڈان لیکس کے معاملے پر حکومت اور پاک فوج میں مفاہمت پر بھی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے اس ادارے کی کمزور شمار کیا گیا کیونکہ دفاعی اداروں کی بالغ نظری کے سبب کچھ ” امیدوں “ پر پانی پھر گیا تھا ۔ اِدھر روزنامہ ڈان کی تحقیقی رپورٹ ہے کہ ملک بھر میں 64 فرقہ وارانہ اور دہشت گرد تنظیمیں کالعدم قرار دی گئیں ، جن میں سے 41 اب بھی فیس بک پر موجود ہیں اور کھل کر نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کر رہی ہیں ۔ ایسے افراد کے خلاف ٹھوس کارروائی کی بجائے عام لوگوں کی پکڑ دھکڑ حکومت مخالف رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد تو دے سکتی ہے لیکن کسی مثبت نتیجے کی توقع رکھنا عبث ہو گا۔

اگرچہ ملک کی اکثریت سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی بے ہودگی کا خاتمہ چاہتی ہے مگر اس مقصد کے لیے وزارتِ داخلہ کے اقدامات کو پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار کا حق ملک کی سیکورٹی ، دفاع ، پبلک آرڈر ، شائستگی ، اخلاقیات یا توہین عدالت کے حوالے سے طے کردہ قانون حدود کے تابع ہے ۔ اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں آزادی اظہار کی چیمپئن دکھائی دیتی ہیں مگر اقتدار میں آ کر یہی جماعتیں تنقید برداشت نہیں کرتیں اور قومی سلامتی، اداروں کے تقدس اور جمہوریت کے خلاف سازش کی آڑ میں تنقیدی آراءاور آزادی اظہار کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ناشائستگی کو فروغ دینے میں چند جاہل لوگوں کی انفرادی مساعی کے علاوہ پی ٹی آئی کے خوفنا ک سوشل میڈیا سیل کا بڑا ہاتھ ہے۔ اب تو دیگر جماعتو ں نے بھی اپنے اپنے میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جہاں پارٹی مخالفین کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔ سرکاری اقدام کو انہی حکومت مخالف سوشل میڈیا سیلز کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔اگر تمام سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے اپنے سوشل میڈیا سیل کے لیے مشترکہ ضابطہ اخلاق بنا لیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک قومی اداروں کے احترام کا تعلق ہے تو وہ اتنے کمزور نہیں کہ کسی کے غلط الزامات سے ان کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے ۔ ریاستی اداروں کے اکابرین سے غلطیاں ہو سکتی ہیں اور اکیسویں صدی کے میڈیا میں ان پر تنقید کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں ۔ تاہم مثبت تنقید اور شر انگیزی میں فرق ضرور روا رکھنا چاہیے ۔ چاہے عام آدمی ہو یا کسی ادارے کا رکن ، بغیر ثبوت جھوٹی خبروں یا جعلی دستاویزات کے ذریعے اس کی کردار کشی کرنے والے کو ضرور سزا ملنی چاہیے ۔ تاہم مہذب دنیا کی طرح اس مقصد کے لیے فوجداری مقدمات کے ذریعے نہیں بلکہ سول عدالتوں سے جرمانے اور ہرجانے کی صورت میں سزا ہونی چاہیے ۔ اس سلسلے میں ہمارا ہتک عزت کا قانون موجود ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ سے قانون سازی کے ذریعے اسے زیادہ موثر بنایا جائے اور ایسے مقدمات کا جلد فیصلہ یقینی بنایا جائے ۔ اس کارِ خیر سے جہاں عدالتوں میں تنقید اور تذلیل میں فرق طے ہو جائے گا وہاں جب چند غیر ذمہ دار عناصر کو بھاری ہرجانے کی سزا ملے گی تو دوسروں کو یقینا عبرت حاصل ہو گی ۔

حرف آخر یہ ہے کہ ہمیں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر اقدامات کرنے ہوں گے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہماری نسلوں نے مارشل لاﺅں اورایمر جنسیوں کے زیر سایہ پرورش پائی ہے ۔ہم نے اپنی زندگیو ں میں آئین کو معتبر دیکھا نہ قانون کی حکمرانی ۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی دیکھی نہ عدالتوں کا وقار ۔ کبھی انصاف ہوتے دیکھا نہ مظلوم کی داد رسی ۔ اپنے بنیادی حقوق بھی ہمارے لیے اجنبی رہے اور عزت نفس بھی ۔ ہم نے گھٹن زدہ ماحول میں مکرو فریب سے بھرپور ترقی کے کھوکھلے دعوے سنے یا جہنم کی بشارت دینے والے کفر کے فتوے ۔ ہماری فکری رہنمائی کی باگ ڈور بھی ان گھڑ لوگوں کے ہاتھ میں رہی ،جو آزادی اظہار تو کجا ، کسی کو سوچ تک کی آزادی دینے کو تیار نہیں۔ ایسے جان لیوا حبس میں آزادی اظہار کی بادِ نسیم چلی ہے تو سالہاسال سے قفل پڑے اذہان سے تہذیبی رویوں کی امید رکھنا زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔ تعلیم و تربیت اور انتہا پسندی کے اسباب کا سد باب کیے بغیر فقط قیدو بند ، پابندی اور خوف کی فضا قائم کر کے ایسی قوم کو آزادی اظہار کا سلیقہ سکھانے کو دنیا خلائی قلعے تعمیر کرنے سے تعبیر کرتی ہے ۔ قبل ازیں اس اسلوب سے ہم یو ٹیوب پر پابندی لگا کر اپنی جگ ہنسائی کا کافی ساماں کر چکے ہیں ۔ اکیسویں صدی میں وڈے تھانیدار کے نہیں ، بیدار مغز رہنما کے اقدامات مسائل حل کرتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).