سوتیلے رشتے بھی رشتے ہوتے ہیں


ہمارے معاشرے میں سوتیلے والدین زیادہ نہیں اور اس حوالے سے ہمارے معاشرے کی باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی ہدایات یا رہنما اصول تو بالکل بھی میسر نہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ ہر تجربہ ہر صورتحال پر لاگو نہیں کیا جا سکتا نہ ہی رشتوں جیسی پیچیدہ اور گنجلک چیزوں کے بارے میں کوئی ایک اصول بنایا جا سکتا ہے، مگر پھر بھی ہر رشتے کو نبھانے کے لئے کچھ باتیں اچھی یا بری ہوتی ہیں جن پر عمل کرنے سے اکثر صورتوں میں بہتری ہی آتی ہے۔

اگر ماں یا باپ ہونا اور بچوں کی پرورش کرنا ایک مشکل امر ہے تو ایک اچھا سوتیلا ماں یا باپ بننا شاید دس گنا زیادہ قربانی اور خراج مانگتا ہے۔

ہمارے ہاں طلاق کے بعد بچے عموما ماں کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔ ماں کے دوسری شادی کر لینے کی صورت میں ایسے بچے بعض اوقات نانا نانی پال لیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں بچے باپ کی تحویل میں بھی دے دیے جاتے ہیں خصوصا چھوٹے لڑکے۔ اکثر صورتوں میں مرد حضرات دوسری شادی کر لیتے ہیں۔ بیوی کی وفات کی صورت میں بھی سوتیلی ماں لانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اکثر مرد حضرات دوسروں کے بچے پالنا نہیں چاہتے مگر کچھ حوصلہ مند لوگ ایسا کرتے بھی ہیں۔ سوتیلے بچے پالنا ہرگز بھی آسان نہیں مگر اگر کچھ اصولوں کے تحت چلا جائے تو کچھ پیچیدگیوں سے شاید بچا جا سکتا ہے۔ ابھی میں ایک اچھی سوتیلی ماں بننے کے موضوع پر بات کروں گی کیونکہ سوتیلی ماں اور باپ دونوں رشتوں کے بارے میں لکھنا بہت تفصیل مانگتا ہے۔ سوتیلی ماں کے آنے کی بھی بہت سی صورتیں ہیں مگر صورتحال جو بھی ہو، اس رشتے کو نبھانا ایک بڑے دل، سمجھ داری اور حوصلے کا متقاضی ہے۔

لوگ اکثر کہتے ہیں کہ طلاق ہو جائے تو بچے سب سے زیادہ نقصان میں رہتے ہیں۔ بچے طلاق کی وجہ سے نقصان میں نہیں رہتے بلکہ والدین کی لاپرواہی اور بے توجہی کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں اور تب نقصان اٹھاتے ہیں جب والدین اپنے مفادات کی وجہ سے انہیں مہروں کی طرح استعمال کریں۔ اگر بچے کے فائدے اور اس کی شخصیت کی تعمیر کو اپنا بنیادی مقصد بنا کر چلا جائے تو بچے بہت لچک رکھتے ہیں اور نئی صورتحال کے ساتھ ٓسانی سے گزارہ کر سکتے ہیں۔

سوتیلے رشتے کو ایک بچے کی زندگی میں لانے سے وہ حقیقی والد جن کی تحویل میں بچے ہوں ان کی ذمہ داری بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے نئے شادی شدہ رشتے کو بھی نبھانا ہوتا ہے اور اپنے بچوں اور ان کی سوتیلی ماں کے بھی قریب لانا ہوتا ہے۔ ایسے والد کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محبت ایک دن میں پیدا نہیں ہو جاتی اور نہ ہی نئی بیوی ایک ہی دن میں ساری ذمہ داریاں سمجھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے والد کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو، چاہے وہ عمر کے جس حصے میں بھی ہوں، اعتماد میں لے اور ان کی رضامندی سے ایک خاتون کو ان کی زندگی میں لائے۔ اگر بچے ابھی باپ کی زندگی میں کسی کو برداشت کرنے کو ہی تیار نہیں تو پہلے ان کو بات چیت کر کے قائل کرے اور پھر ایک ایسا نیا رشتہ قائم کرے۔

ہمارے ہاں سوتیلے بچے سے نفرت کی وجہ عموما شوہر کی سابقہ یا مرحومہ بیوی سے ایک حسد کا جذبہ ہوتا ہے۔ حسد شوہر کی سابقہ بیوی سے ہوتا ہے اور غصہ بچے پر اتارا جاتا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص آپ کے جیون ساتھی کی زندگی سے نکل گیا اور اب اس کی زندگی میں شامل نہیں ہے اس سے نہ تو آپ کی مقابلہ بازی بنتی ہے اور نہ ہی حسد کی کوئی وجہ۔ اگر آپ حال میں جئیں اور مستقبل کا سوچیں تو ماضی کے رشتوں سے حسد خود ہی ختم ہو جائے گا۔ لوگوں کی باتوں پر تو بالکل ہی دھیان مت دیں۔

سوتیلے بچے سے ایک برا رویہ رکھنے کی بنیاد بعض اوقات دادا دادی یاپھوپھیوں کی بے جا مداخلت بھی ہوتی ہے جو کہ سوتیلی ماں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سوتیلے بچے کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں، ہم اس کے خیر خواہ ہیں اور اس کی زندگی میں موجود ہیں۔ ان رشتوں کی بے جا مداخلت عام رشتے میں بھی گرہیں ڈال دیتی ہے تو ایک گنجلک صورتحال میں تو اور پیچیدگیوں کا باعث ہی بنے گی۔ ایسے میں یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ رشتوں کو ان کا درست مقام متعین کرنے میں مدد کرے اور رشتہ داروں کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچے کی خیر خواہی اسے ایڈجسٹ ہونے میں مدد دینے میں ہے نہ کہ دلوں میں فاصلے پیدا کرنے میں۔

اگر بچے کی حقیقی ماں بچے کی زندگی میں موجود ہو اور بچہ حقیقی ماں اور باپ دونوں کی زندگی میں رہتا ہو تو یہ بات جان لینی چاہیے کہ بچے کی زندگی میں اس کی حقیقی ماں موجود ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خاتون اب آپ کے شوہر کی زندگی میں بھی موجود ہے۔ اور بچے کے لئے بھی آپ کا اپنا مقام اور آپ کے رشتے کا اپنا ایک نام اور اپنی ایک اہمیت ہے۔ سوتیلی ماں کا رشتہ حقیقی ماں کے رشتے کی طرح صرف جنم دینے سے مضبوط نہیں ہو جاتا۔ اس میں بہت تحمل اور بہت برداشت سے بہت مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر سابقہ بیوی بے جا مداخلت کرے اور سوتیلی ماں کو تنگ اور پریشان کرے تو شوہر کا کام ہے کہ وہ نئی بیوی اور اپنے بچوں کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے سابقہ بیوی سے بات چیت کرے۔ ایسی حقیقی ماوں کو بھی اپنے بچوں کی بہتری کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں نئے رشتوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے اور تعلق وضع کرنے میں مدد دینا چاہیے۔

دنیا میں ہر صورتحال بہت مثالی نہیں ہوتی مگر رویے رشتوں کو آسان رکھنے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

سوتیلی ماں اگر اپنے سوتیلے بچے سے دل سے ایک اچھا رشتہ بنانا چاہتی ہے تو یہ چند باتیں خالص اس کی مدد کے لئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ سوتیلے بچوں سے پہلے ہی دن محبت پیدا نہیں ہو سکتی مگر سوتیلے بچوں سے انسانیت سے پیش آنا اور اچھائی کے اصولوں سے چلنا بہت ضروری ہے۔ وہ ایسے بچے ہیں جو والدین کی طلاق یا والدہ کی وفات کی وجہ سے پہلے ہی مشکل میں ہیں۔ ان سے اچھے طریقے سے پیش آنا ہی بنتا ہے۔ بدتمیزی یا ایسا رویہ جو آپ کو تکلیف دے، اس پر ان بچوں کو خود سے ٹوکنے کی بجائے ان کے والد سے بات کریں۔ بچوں کو اصول سکھانا ان کے حقیقی والدین کی ذمہ داری ہے۔ آپ صبر اور حوصلے سے چلیں تو بچے پھر خود آپ کو یہ حق دے دیں گے، آہستگی سے اپنی جگہ بنائیں۔ اپنے بچے سے اس کی حقیقی ماں کی کبھی برائی نہ کریں۔ اس کی حقیقی ماں سے اگر آپ ایک مقابلہ بازی کی فضا قائم نہیں کریں گی اور اپنا خود کا مقام بنائیں گی تو بچے بھی آپ کو آپ کا ایک علیحدہ مرتبہ اور مقام ہی دیں گے۔

بچے آپ کو ماں کہہ کر پکارتے ہیں یا نہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ وہ آپ سے ایک عزت اور دوستی کا رشتہ رکھیں۔ بچوں کو مارنا اور جھڑکنا تو ویسے بھی ایک درست رویہ نہیں اور سوتیلے بچوں کو تو مارنا یا جھڑکنا آپ کا ہرگز بھی حق نہیں۔ آپ یہ سمجھیں کہ آپ کا ان سے ایک خود کا رشتہ ہے، جو کہ اپنی جگہ ایک معتبر رشتہ ہے اور ان کی بہتری، صحت اور بہبود کا خیال رکھنا اب آپ کے فرائض میں سے ایک ہے کیونکہ جس دن آپ نے سوتیلی ماں بننا قبول کیا تھا، آپ نے ان کی فلاح کا خیال رکھنے کا ان دیکھا حلف اٹھا لیا تھا۔ ابتدا میں سوتیلی ماں کے فرائض تو ایک ماں والے ہوتے ہیں مگر حقوق کو بچوں کی نظر میں اس برابری پر لانے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے۔

اپنے شوہر کے پیسے پر ان بچوں کا حق بھی سمجھیں۔ تنگ دلی تو ویسے ہی رشتوں میں دراڑ ڈال دیتی ہے۔ اپنے سوتیلے بچے کے بارے میں جانیں، اس کی پسند نا پسند کا پتہ کریں، اس کے ماضی کے بارے میں جانیں، اس کی ذات میں دلچسپی لیں۔ خود پر یہ سختی مت کریں کہ آپ ایک دن میں سب کچھ سدھار لیں گی۔ آرام سے چلیں۔ ہر کسی سے اس رشتے میں پیش آنے والی نزاکتوں کا ذکر مت کریں۔ لوگوں کی باتوں کو مت سنیں اور ان کے بارے میں مت سوچیں۔ ان کی زندگی سے نکل جانے والے رشتوں میں آپ کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، آپ اب کی صورتحال کو ان کے لئے آسان کریں۔ ان بچوں کو انعام میں ملے ہوئے ایسے بچوں کی طرح سمجھیں جنہیں پیدا کرنے کی تکلیف سے آپ کو نہیں گزرنا پڑا۔

اب اس نئے زمانے میں ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوتیلے رشتے بھی رشتے ہوتے ہیں اور اگر حوصلے یا سمجھداری سے چلا جائے تو ان رشتوں کا بھی ایک اپنا حسن،اپنا مقام اور اپنا سکھ اور سکون ہوتا ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim