بیانیے کا چورن اور پھل فروشوں کا بائیکاٹ


سکول کے زمانے میں ایک بابا جی سر پر ایک چھابڑی اور سرکنڈوں سے بنا اس کا سٹینڈ لئے چورن بیچنے ہمارے سکول کے باہر موجود ہوتے تھے ہم روزانہ ان سے چونی اٹھنی کا چٹ پٹا چورن لے کرچٹخارے لیا کرتے ، ان کے چورن کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی کیمیائی طریقے سے چورن میں آگ لگا کر پڑیا لپیٹ کر ہمارے ہاتھ میں تھما دیتے اور اس آگ کی وجہ سے وہ چورن کچھ زیادہ چٹ پٹا محسوس ہوا کرتا تھا۔

آج کل رات آٹھ سے گیارہ بجے کے دوران اسی طرح کے چورن والے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر آگ لگا کر بیانیے کا چورن بیچنے میں مصروف ہیں۔ مجال ہے کہ کسی کو بیانیے کا مفہوم پتہ ہو، بس پچھلے ایک دو برس کے دوران یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ جہاں کہیں ملکی مسائل خاص طور پر دہشت گردی کی بات ہو بیانیے کے بنا مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اب اس دوڑ میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے اور عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کے لئے لوگ سوشل نیٹ ورکس کا سہارا لیتے ہیں چاہے ساحر لودھی کو تنقید کا نشانہ بنانا ہو یا پھل فروشوں کا بائیکاٹ کرنا ہو۔ ایک مفروضہ سچائی پیش کرکے اس کے حق میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کوتائیدی بیان کے لئے تیارکرنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے۔مشتاق احمد یوسفی صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ ہمارے یہاں کے لوگ توہم پرست ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لئے ڈاکٹروں کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس جاتے ہیں۔ اورستم یہ ہے کہ وہ ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں۔ یہی حال ہمارا اب بھی ہے اگر ہمیں سوشل میڈیا متاثرکرنے کی کوشش کرے تو ہم فورا متاثر ہو بھی جاتے ہیں۔

ابھی یہ چند سطریں لکھنے کی کوشش میں تھا کہ بیگم صاحبہ نے حکم دیا کہ بازار سے بہت ساری چیزیں لانے والی ہیں ذرا بازار لے چلئے حکم بیگم مرگ مفاجات کے مصداق ہم چپ چاپ گاڑی کی چابی اٹھائے چل دیے۔ راستے میں تین روزہ فروٹ بائیکاٹ کا ذکر ہوا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ بھئی تمام فیس بکی دانشوران ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ اگر ہم ایک قوم بن کر کسی بات کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو اس کا اثر کیونکر نہ ہوگا۔یہ پھل فروش ناجائز منافع کماتے ہیں ،میں تو حیران ہوں ان لوگوں پر جو ان کی طرفداری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ غریب لوگ ہیں اور ان کو پھل اگرمنڈی سے مہنگا ملے گا تو یہ گاہک کو مہنگا ہی دیں گے ناں۔ اصل میں ہمارے ان دوستوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ ظالم پھل فروش اپنا پیسہ باہر کے بینکوں میں رکھتے ہیں یہاں دکھاوے کے لئے غریب نظر آتے ہیں اور تو اور ایسی مسکین شکل بنائے رکھتے ہیں جیسے خود پھل خرید نے اور کھانے کی سکت نہیں رکھتے۔انہی باتوں میں ہم شہر کے اکلوتے بڑے سٹور پہنچ گئے جہاں ہر چیز نہایت اچھی کوالٹی کی اور غیرملکی کمپنیوں کی بنی ہوئی ملتی ہے۔وہاںسے ہم نے معروف کمپنی کے بنائے ہوئے چکن کے سا سے جز، نگٹس، چپلی کباب، مختلف ذائقوں میں دستیاب دہی، ہمارے گاﺅں سے پچاس روپے کلو خرید کر اس میں مزید ذائقہ اور مفید صحت عناصر ڈال کرسو سے کچھ اوپر قیمت کا ڈبے میں پیک کیا گیا دودھ، کریم کے پیکٹ، کیک بنانے کا سامان اور امپورٹڈ فروٹ کاک ٹیل کے ڈبے خریدے اور شہر کے ٹھیلے والوں اور پھل فروشوں کو لعن طعن کرتے ہوئے گھر چلے آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).