کعبے میں گڑے استوار مگر روادار بت۔۔۔۔


گزشتہ روز عزیزم مبشر علی زیدی نے شیعہ اور سنی دوستوں کے مابین افطاری کے وقت کے ضمن میں ہونے والے ایک مکالمے کو تیس لفظی کہانی کی شکل میں پیش کیا۔ اگلے روز استاذی حافظ صفوان چوہان نے کسی اثنا عشری صاحب کے عقد میں ایک سنّی خاتون کا استفسار اسی بارے میں فیس بُک کی زینت بنایا۔ استفتاء کی کتب میں فتاوی اکثر فرضی مکالمات و استفسارات کی شکل میں لکھے جاتے ہیں سو نجانے حافظ صاحب کا نقل کردہ مکالمہ واقعی انہیں موصول ہونے والے کسی استفسار پر مبنی ہے یا ایک دینی نکتہ سمجھانے کی خاطر یہ پیرایہ اختیار کیا گیا۔

مبشر علی زیدی صاحب تو ہیں ہی اردو میں مختصر فکشن نویسی کے امام، اگرچہ ان کی گنے چنے لفظوں کی کہانیاں اکثر حقیقی واقعات کا عکس ہوتی ہیں۔ نجانے ثقہ ہے یا نہیں، مگر مشہور ہے کہ مرزا نوشہ جیسے رند مشرب اور بیک وقت کرشن کا پجاری اور علی کا بندہ ہونے کے دعوے دار نے اپنا دیوان تدوین کے بعد مولانا فضل حق خیر آبادی جیسے جیّد سنی عالم کو بہ غرض تنقید و اصلاح بھیجا تھا۔ اگر یہ روایت جزواً بھی درست ہے، تو دیوان دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے اشعار کے انتخاب میں عقائد کے بہ جاے معیارِ سخن کو پیشِ نظر رکھا۔ یہ تو خیر سنی سنائی یا نیم فکشن پر مبنی تمہید تھی، مگر اس پس منظر میں اس خادم کو اپنا آنکھوں دیکھا سچا واقعہ یاد آگیا، جسے آج کل کے “کافر کافر” کے نعروں سے گونجتے معاشرے میں تصور کرنا شاید کچھ قارئین کو مشکل لگے۔

میری والدہ محترمہ کی ایک رشتے کی خالہ ایک کٹّر سلفی بزرگ سے بیاہی ہوئی تھیں۔ البتہ دل میں “اصلی اسلام” کی تلاش کی چیٹک رہتی تھی۔ معمولی پڑھی لکھی تھیں۔ ایک روز استخارہ کیا تو مبینہ طور پر خواب میں حرف “ش” نظر پڑا۔ صبح اٹھتے ہی اعلان کیا کہ میں شیعہ ہو گئی ہوں۔ اس وقت تین بیٹوں کی ماں تھیں۔ زمانہ اچھا تھا تبدیلی مذہب کے باوجود شادی برقرار رہی۔ اور تین مزید بیٹوں کو جنم دیا۔

چھے کے چھے بھائی انتہائی متدیّن تھے۔ پہلے تین بیٹے خالصتا ابّا کے مذہب ہر، مونچھیں صفا چٹ، داڑھیاں مشت بھر سے بھی زیادہ اور بعد کے تینوں پٹّے بڑھاے اور مومنانہ خشخشی داڑھیاں چہروں پر سجاے۔ سب کے سب بچے جوان ہو گئے، بوڑھے اور عیال دار بھی ہو گئے۔ کم از کم دو بھائی شاعر بھی تھے۔ ایک توحید خالص پر مثنویاں لکھتے تو دوسرے نوحے اور منقبتیں۔

زمانہ ہنوز اچھا تھا، چنانچہ ایک بھائی کے جدید وضع قطع کے حامل مگر پیدائشی سلفی بیٹے سے دوسرے بھائی کی شیعہ بیٹی بیاہی گئی۔ ہمارے ان میجر صاحب کزن کی پوسٹنگ کوئٹہ میں ہوئی تو ایک رمضان میں دونوں بھائی اپنے بیٹے/ داماد کے ہاں مہمان تھے۔ ہمیں بھی افطار پر مدعو کیا گیا۔ بڑے بھائی نے قریبی مسجد کی تکبیر اولی پر روزہ کھولا تو چھوٹے نے یک گونہ تمسخر سے زیر لب کہا، “روزہ خور۔۔ دس منٹ کی بے صبری سے سارے دن کا روزہ اکارت کر لیا”۔ بڑے بھائی نے اس وقت تو کچھ نہ کہا، مگر جب کچھ دیر بعد چھوٹے نے افطار کیا تو ویسے ہی زیرِ لب بولے، “جسے خدا نے اس دنیا میں مقررہ وقت کے بعد دس منٹ بھوکا رکھا، اُس جہان میں نجانے اور کتنی سزا دے گا”۔ یہ چونچیں چلتی رہیں اور نماز مغرب و مغربین کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی غزل سنائی۔

ہمیں اُس وقت اتنا شعور نہ تھا مگر کچھ یاد سا پڑتا ہے کہ ایک کے ہاں بندوں سے لو لگانے پر چوٹیں تھیں تو دوسرے کے ہاں کچھ تفضیلیت۔ دونوں نے اس نوعیت کے اشعار سن کر الگ الگ لاحول ضرور پڑھی مگر ایک دوسرے کی نکتہ آفرینی پر داد بھی دیتے رہے۔ بعد ازاں ایک تراویح پر تو دوسرے چہل قدمی پر نکل گئے۔ اب دونوں حضرات، محمد اشرف خان اور احمد حسن خان مالکِ حقیقی کے ہاں حاضر ہوچکے ہیں اور امید ہے کہ وہاں ایک دوسرے کے جنّتی محلات میں نقص نکالنے میں مصروف ہوں گے۔
Jun 2, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).