غلیظ مریض نفاست پسند ڈاکٹروں سے دور رہیں


سندھ میں ایک قصبہ ہوا کرتا تھا امر کوٹ نامی۔ اما وہی رانا چندر سنگھ والا جہاں کسی زمانے میں 80 فیصد آبادی ہندو ہوا کرتی تھی۔ اب اس کا نام عمر کوٹ ہے اور اس کی 50 فیصد آبادی ہندو ہے۔ بہرحال ادھر سے ایک خبر آئی ہے کہ ادھر کے تحصیل ہسپتال میں صفائی اور نفاست کا ایسا اعلی معیار ہے کہ ڈاکٹر غلاظت کو دیکھنے تک سے انکاری ہیں خواہ وہ ایک جاں بلب مریض کی شکل میں ہی ان کو کیوں نہ دکھائی دے۔

خبر کے مطابق پرویز مسیح نامی ایک شخص نے بتایا ہے کہ یکم جون کی صبح اس کا بھائی عرفان نامی خاکروب اور اس کے دو اور ساتھی میونسپل دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں ان کے افسران نے ان کو چھور روڈ پر واقع گٹر لائن کی صفائی کرنے کے حکم دیا۔ عرفان اور دیگر خاکروبوں نے افسران کو بتایا کہ چار ماہ سے گٹر لائن بند ہے اور اس میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے لیکن وہ افسران کے دباؤ میں آ گئے اور لائن کھولنے چلے گئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق گندے پانی کی نکاسی کے لیے بنائی گئی اسی لائن میں تین سال قبل بھی دو خاکروب، نواز مسیح اور کرشن صفائی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے جس کی وجہ سے پہلے ہی لوگوں میں ڈر موجود تھا۔ عرفان کا ساتھی پہلے گٹر لائن میں اترا لیکن گیس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گیا جسے بچانے کے لیے عرفان نیچے گیا مگر وہ بھی گیس کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا۔

اب پرویز مسیح اور اس کے ساتھی تحصیل ہسپتال کے ڈاکٹروں کی طرح پڑھے لکھے تو تھے نہیں، وہ یہ سمجھے کہ کسی شخص کی زندگی خطرے میں ہو تو پہلے اس کو طبی امداد دی جاتی ہے۔ وہ فوراً عرفان کو اٹھا کر ہسپتال لے گئے۔ پرویز مسیح کے مطابق ادھر سب سے پہلے ان کے پاس ڈاکٹر یوسف آئے۔ وہ ان لوگوں کی یہ جہالت دیکھ کر ہکے بکے رہ گئے کہ وہ محض ایک شخص کی جان کو خطرے میں دیکھ کر مریض کو سیدھا ہسپتال لے آئے ہیں، اسے پہلے گھر لے جا کر نہلایا دھلایا اور پاک صاف نہیں کیا۔ ڈاکٹر یوسف نے نہایت نرمی سے وضاحت کی کہ یہ گندگی میں لتھڑا ہوا ہے، اسے نہلا دھلا کر لاؤ، میں روزے کی حالت میں ہوں، کہیں ناپاک نہ ہو جاؤں۔ پرویز مسیح کے مطابق اس کے بعد دو اور ڈاکٹر، اللہ داد اور جام کنبھر آئے اور انہوں نے ڈاکٹر یوسف کی طبی رائے سے اتفاق کیا کہ بندے کی جان بچانے سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اسے نہلایا جائے۔ آخر میں حنیف آریسر نامی ایک ڈاکٹر آیا جسے صفائی سے زیادہ مریض کو طبی امداد دینے میں دلچسپی تھی۔ اس نے غلیظ کیچڑ میں لت پت عرفان کو چیک کیا اور بتایا کہ طبی امداد میں دیر ہونے کے سبب اب اسے صرف دفنانے کے لئے ہی غسل کی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔

پولیس کی بدمعاشی دیکھیے کہ اس نے تحصیل ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر جام کنبھر، آر ایم او ڈاکٹر یوسف اور ڈیوٹی ڈاکٹر اللہ داد راٹھور پر قتل خطا کا مقدمہ درج کرتے ہوئے ڈاکٹر جام کنبھر کو حراست میں لے لیا ہے اور اب باقی دو ڈاکٹروں کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔

پولیس یہ بات نہیں سمجھ رہی ہے کہ غالباً ان ڈاکٹروں کی تشخیص یہ تھی کہ مریض کا دم گھٹ رہا ہے اور ان کو مریض کے منہ سے اپنا منہ لگا کر اسے ابتدائی طبی امداد دینی ہو گی، اس لئے گندگی میں لتھڑے مریض کو سیلنڈر سے آکسیجن دینے کی بجائے اسے نہلانے پر اصرار کر رہے تھے۔

اس بات پر ہمیں حیرت ہے کہ یہ ڈاکٹر حنیف آریسر کس میڈیکل کالج کے سند یافتہ ہیں جو صفائی پر توجہ دینے کی بجائے پہلے غلیظ حالت میں مریض کی جان بچانا سکھاتا ہے۔ ہمیں گمان ہے کہ اگر ہارٹ اٹیک وغیرہ جیسی حالت میں مبتلا کوئی ایسا مریض آ جائے جس کا دل کے دورے کی وجہ سے اعضا پر کنٹرول ختم ہونے پر بول و براز خارج ہو گیا ہو تو ڈاکٹر حنیف اس کی جان بچانے کی کوشش کرنے لگتے ہوں گے، اپنے ایم ایس اور دیگر ساتھیوں کی طرح پہلے اس کی صفائی کروانے پر توجہ نہیں دیتے ہوں گے۔ کیا ان کو کسی نے یہ بات نہیں بتائی کہ گندگی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مریض کو انفیکشن ہو سکتی ہے بلکہ ڈاکٹر کے اپنے کپڑے بھی گندے ہو سکتے ہیں۔ یا ممکن ہے کہ ڈاکٹر حنیف نے روزہ نہ رکھا ہوا ہو اس لئے انہوں نے اپنے کپڑوں کو گندگی سے بچانے سے زیادہ ضروری یہ سمجھا ہو کہ مریض کی جان بچا لی جائے۔

لیکن ڈاکٹر یوسف اس بات پر داد کے مستحق ہیں کہ اس پریشانی کی حالت میں بھی جبکہ زندگی اور موت کا مسئلہ سامنے تھا، انہوں نے اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے پرائے مریض کی بجائے اپنا روزہ بچا لیا۔ اب کوئی شخص عالم ہونے کا دعویدار ہو کر ہمیں یہ مت بتائے کہ لباس پر گندگی لگنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا یا یہ کہ انسانی زندگی بچانے کے معاملے میں حرام بھی جائز ہو جاتا ہے۔ یہ علما وغیرہ ڈاکٹر یوسف سے زیادہ پرہیزگار اور پڑھے لکھے تو نہیں ہوں گے۔

ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ نفاست پسند ڈاکٹر ماہ رمضان میں خاص طور پر اور باقی گیارہ مہینے عام طور پر کسی مریض کا آپریشن وغیرہ نہیں کرتے ہوں گے، یا ان کو پیشاب یا پیپ وغیرہ خارج کرنے کے لئے نالیاں نہیں لگاتے ہوں گے، کیونکہ آپ تو علم طب سے واقف نہیں ہیں لیکن میڈیکل کالج میں یہ نفاست پسند ڈاکٹر یہ بات سیکھ چکے ہیں کہ ہر انسان کے جسم کے اندر غلاظت بھری ہوتی ہے اور روزے کی حالت میں ایسے نفاست پسند ڈاکٹروں کو غلیظ انسانوں سے دور رہنا چاہیے۔

بہرحال ہمیں انتظامیہ کے رویے پر حیرت ہے۔ نفاست پسند ڈاکٹروں کو ہی گرفتار کر لیا؟ اب تحصیل ہسپتال عمر کوٹ میں نفاست پسند ڈاکٹروں سے غلیظ مریضوں کو کون دور رکھا کرے گا؟

بندے کی خیر ہے، شکر ہے کہ ڈاکٹر یوسف کا روزہ بچ گیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar