انقلاب مہر و محبت


نہ صرف دنیا ظلم، نا انصافیوں، تکالیف، قحط، غربت، دکھوں اور المیوں سے بھر چکی ہے بلکہ ملک عزیز پاکستان بھی انتہاپسندی، دہشت گردی، عدم برداشت، عدم روادری، بدعنوانی، جہالت اور خود غرضی کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں سب کے لیے ایک ناخوشگور مسکن بن گیا ہے۔ ایسے میں انقلاب مہر ومحبت کے لیے اس سے بہتر وقت شاید ہی کوئی ہو۔ مہر ومحبت سے اسے امن و سکون کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔

ہم سب چاہتے ہیں کہ ہم، ہمارے رشتہ دار اور دوست محبت، امن اور آرام کی زندگی گزاریں۔ ہم اپنے ملک اوردنیا کو بھی پرامن، خوشحال اور خوشگوار دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر ان خواہشات اور مقاصد کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ نہ ہو تو یہ محض خواب ہی رہیں گے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ کسی مقصد کے حصول کے ممکن اور ناممکن ہونے کا انحصار ہمارا اس کےلیے پرعزم اور مخلص ہونے کی مقدار اور شدت پر ہوتاہے۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ہر مرد و عورت کا کردار اہم ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے تو دنیا بہت جلد مہربانی، رواداری اور امن و سکون کا مرکز بن جائے گی۔

مہرومحبت متعدی جذبہ ہے۔ ہم سے کوئی محبت کرے یا ہم کسی کو دوسروں کے ساتھ محبت و مہربانی کا سلوک کرتا دیکھیں تو ہمارے اندر بھی بھلائی اور پیار کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دوسروں کی مدد بہتر صحت کے قائم رکھنے اور ڈپریشن، دمہ اور السروغیرہ جیسی بیماریوں کے اثرات کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

تو آئیے دنیا کو محبت اورمہربانی سے بھرنے کے لیے اپنا سفر آج سے ہی شروع کریں۔ اس مقصد کے لیے چند ایک اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں جن سے یہ دنیا ہم سب اور دیگر مخلوقات کے لیے ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔ آپ چاہیں تو ان میں اضافہ و ترمیم کر سکتے ہیں۔

1۔ خوش اخلاقی کو شعار بنائیے۔ کسی کو جانتے ہوں یا نہیں، سب کے ساتھ مسکراکر ملیے۔

2۔ محبت سب سے جب کہ نفرت کسی سے نہیں، آپ کا اصول ہونا چاہیے

3۔ اگر اللہ نے آپ کو نوازا ہے تو غریبوں کے ساتھ ہنگامی، عارضی اور مستقل مالی مدد کیا کیجیے۔ کھانا کھلانا، کپڑے خرید کر دینا، علاج کروانا یا تعلیم دلوانا وغیرہ اس کی چند صورتیں ہیں۔ یہ تعاون اپنوں، پڑوسیوں یا غیروں سب کے ساتھ کرنا اپنی عادت بنا لیجیے۔

4۔ لوگوں کی مدد کریں۔ راستہ دکھانا ہو، سامان اٹھانا لےجانا ہو، کسی کو اوپر چڑھنے میں مدد دینا ہو، چیزیں ڈھونڈنا ہو یا سڑک پار کروانا، انسانیت کا بوجھ ہلکا کرنے میں اپنا کردار ادا کیاکریں۔
5۔ سب کا احترام کریں، کسی کا مذاق نہ اڑائیں۔

6۔ دوسروں کو خود پرترجیح دیا کریں، اپنا آرام دوسروں کے لیے تج دیں۔ ٹکٹ خریدنے یا بل جمع کرنے میں دوسروں کو قطار میں پہلے موقع دیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اپنی سیٹ بزرگوں اور خواتین کو پیش کرکے دعائیں لیا کریں۔ بارش کے دوران اپنی چھتری سے دوسروں کو بھی متمتع کیجیے۔ اپنی گاڑی ہو تو ضرورت مند مردوں، بچوں اور خواتین کو نیک نیتی سے لفٹ دیاکریں۔ بدنیتی اس میں شامل نہ ہو تو اللہ ہر امتحان سے بچائے گا۔

7۔ صبر و برداشت دکھائیں خصوصاً جب دوسرے سختی سے پیش آئیں۔ بداخلاقی کے مقابلے میں خوش اخلاقی دکھانا ہی اصل شرافت ہے۔

8۔ ہسپتالوں، بڑھاپا سنٹروں، دارالکفالوں اور یتیم خانوں کو جایا کریں۔ ان کے مکینوں سے باتیں کریں، ان کو سنیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں خود بھی اور دوسروں کو ترغیب دے کر بھی۔

9۔ اپنے عارضی پڑوسی (سفر کے ساتھی) یا مستقل ہمسائے سے تعاون کریں اگر انہیں ضرورت ہو یا وہ مانگ لیں۔

10۔ اچھی عادات، الفاظ اور رویے کی قدر کیجیے اور انہیں سراہا کریں۔

11۔ جن لوگوں سے اکثر آپ کا سامنا ہوتا ہے ان سے خود بات کرنے میں پہل کیجیے، تعارف ہا بات کرنے کے لیے ان کا انتظار نہ کریں۔

12۔ بہت سے رشتے ناتے بچائے جا سکتے ہیں اگر ہم دوسروں کو دینے پر توجہ دیں نہ کہ ان سے کچھ مانگنے، توقع کرنےاور لینے پر۔

13۔ تحفے دیا کریں اس سے محبت بڑھتی ہے۔

14۔ دوستوں، رشتہ داروں، اساتذہ، بزرگوں اور شاگردوں سے خط یا کال یا مسیج کے ذریعے رابطہ کرتے رہیے۔ اس سے دوسرے کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور وہ آپ سے محبت کرنے لگتا ہے۔

15۔ شریف اور اعلیٰ ظرف بندوں کی طرح اپنے ماتحتوں کو احترام، سہولت اور پیار دیں۔ ان پر سختی سے پرہیز کریں۔

16۔ دوستوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ملازمتی ساتھیوں کو دعوت دیا کریں چاہے ایک کپ چائے کا ہی کیوں نہ ہو۔

17۔ اچھے سامع بنیے۔ دوسروں کی بات توجہ اور احتیاط سے سنیے۔ ان کی بات ختم ہونے کا انتظار کریں اور اپنی باری پر بولیں۔

18۔ بات سلیقے اور سکون سے کریں۔ الفاظ اور انداز دونوں مناسب ہوں۔ آواز نہ بہت دھیمی ہو نہ تیز۔ کسی سے بات کرنی ہو تو پورا رخ اس کی جانب موڑ کر کیجیے۔

19۔ شک اور بدگمانی سے حتی الوسع اجتناب کریں۔ دوسروں کی ذات، کردار اور ایمان پرہمیشہ نیک گمان کیا کریں۔

20۔ اگر آپ ملازم ہیں تو اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کریں۔ کام کے لیے آنے والے افراد سے اچھا برتاؤ کریں، اوران کا کام کروائیں۔ کرپشن سے نفرت کریں۔ ہمیشہ متلاشی القلوب رہیں نہ کہ متلاشی الجیوب۔

21۔ جتنا ممکن ہو سکے دوسروں کے ساتھ معاملات میں ایمانداری، نرمی، اخلاص، رواداری اور قربانی سے کام لیں۔ ہر ایک کے لیے باعث رحمت و آرام بنیں نہ کہ باعث زحمت۔

22۔ دوستوں اور خاندان والوں کو بھرپور وقت دیں۔ ان سے خود تعلقات منقطع نہ کریں۔ وہ کریں تو مناسب انداز میں ان کو صفائی پیش کریں اور کبھی بھی تکبر اور لاپرواہی نہ دکھائیں۔ اتفاق کا ذریعہ بنیں نہ کہ انتشار کا۔

23۔ غصہ، کینہ، غیبت، چغلی اور خود غرضی محبت کی قینچیاں ہیں۔ ان سے اجتناب کریں۔ کسی کے بارے میں ایسی بات نہ کریں جو آپ اپنےلیے ان کی طرف سے برداشت نہیں کرسکتے۔

24۔ غلطی ہو جائے تو اسے ماننے میں تامل نہ کریں۔ دوسروں پرالزام ڈالنے کی عادت سے جان چھڑائیں۔ دوسروں کی طرف سے اگر زیادتی ہو، جذباتی رویہ، عدم برداشت اور ترش خوئی سامنے آئے اور اس وقت جواب دینے سے بات مزید بگڑنے یا تعلق ختم ہونے کا خدشہ ہو تو آپ صبر و حکمت سے کام لیں۔ اختلاف کے ہنگام خاموش رہنا یا میٹھےبول بولنا امن، رشتوں اور پیار قائم رکھنے کا یقینی ذریعہ ہے۔

25۔ غصہ میں خاموش رہیں اور اپنے حواس قابو میں رکھیں۔ دوسروں کی مجبوری اور ضرورت کو پیش نظر رکھیں کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ یعنی empathy کو شعار بنائیے۔
26۔ بچوں سے پیار کریں۔ پڑوس یا بازار، پارک اور راستے میں بچوں سے مسکراکر ملیں، سلام کریں، انہیں ٹافیاں، آئس کریم وغیرہ کھلائیں۔

27۔ دل کو نفرت، انتقام اورخودغرضی سے پاک رکھیں، بہت سی پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔

28۔ دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ محفل کا لطف اٹھائیں اور انہیں توجہ دیں۔ کوئی بھ شریف بندہ قریب بیٹھے دوستوں سے لاپرواہی اختیار کرکے دور بیٹھےلوگوں کے ساتھ مسیجنگ میں مصروف نہیں ہو سکتا۔

29۔ صدقہ و خیرات مصیبتوں کو ہٹاتے ہیں۔ اپنی ہر آمدن میں سے کم ازکم ایک فیصد صدقہ کیا کریں۔ مگر صدقہ دیکھ بھال کر ہی دیں۔ اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں کے علاوہ ایسے اجنبیوں پر بھی بازار، پبلک ٹرانسپورٹ، پارک یا ہوٹلوں میں خرچہ کیا کریں جو مانگتے نہیں لیکن شکل سے ہی حقدار دکھائی دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آپ ایک خاص دن بھی باہر نکل سکتے ہیں۔

30۔ خون کا عطیہ دیا کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔

31۔ کوئی حادثہ ہو جائے تو موبائل پر ویڈیو بنانے کی بجائے متاثرین کو ہسپتال پہنچانے کا بندوبست کریں یا پولیس اور ان کے رشتہ داروں کو اطلاع دیں۔

32۔ ان پڑھ بچوں، یتیموں، بیواؤں، بیماروں، اقلیتوں، گداگروں اور غریبوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں، ان کی بحالی کے لیے اور ہوائی فائرنگ، منشیات اور دوسری سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے مہمات چلائیں۔

33۔ ماحول دوست انسان بنیں۔ سبز اور پاک ماحول کے لیے پودوں کی کاشت اور نگہداشت پر سماجی شعور بیدار کرنے میں مدد دیں۔
34۔ جانوروں سے بھی پیار کریں۔ چڑیاگھروں میں بند جانوروں کو بھی کھلائیں پلائیں لیکن اپنے گھر، پارکوں اور پڑوس میں موجود چیونٹیوں، پرندوں اور دیگر جانوروں کی خوراک اور آرام کا بھی انتظام کریں۔

35۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ عدم برداشت ہے۔ اس کا نتیجہ کورٹ کچہری کےطویل مقدمے ہیں۔ ایک ذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ وہ معاشرے میں رواداری، برداشت، قربانی اور بھائی چارے کو فروغ دینے اورتنازعات پیدا ہونے کا راستہ روکنے کی کوشش کرے لیکن اگر اختلاف و تنازعہ پیدا ہو تو پھر اگر اس کے بس میں ہو تو اس سےپہلے کہ صورتحال بگڑے تصفیہ و مفاہمت کی کوشش کریے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).