نواز شریف کا نونہال!


 سر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔۔ پلٹناجھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا ۔لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا۔

مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ پاکستان میں کیونکہ جمہوریت کے پودے کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا گیا اس لئے پاکستان ایک مضبوط ،جمہوری فلاحی مملکت نہیں بن سکا اور آئے دن اسے کسی نہ کسی نئے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر ادارے مضبوط ہوتے تو پاکستان میں عدلیہ اپنا کام کرتی،پارلیمان اپنا کام کرتی اور انتظامیہ اپنا کام کرتی۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان میں ٹکراو نہیں ہوتا۔ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی اداروں کے درمیان ٹکراو ہوتا ہے مگر یہ تمام ادارے ایک دوسرے پر چیک رکھتے ہیں اور عدلیہ تو سب پر چیک رکھتی ہے اور اس بات پر نظر رکھتی ہے کہ کہیں حکومت یا کوئی اور ادارہ آئین کے خلاف تو کام نہیں کر رہا۔

لیکن کیونکہ پاکستان میں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ اداروں کی نشوو نما صحیح اور صحت مند طریقہ سے نہیں ہوئی اس لئے جسے ماؤزے تنگ نے دائیں بازو کی انتہا پسندی سے بائیں بازو کی انتہا پسندی قرار دیا تھا ،پاکستان میں بھی یہ بات ہر ادارے پر لاگو ہوتی ہے ۔جیسا کہ عاصمہ جہانگیر نے حالیہ بحران پر رائے دی کہ ’ہم سب اس حمام میں ننگے ہیں‘۔دوسرا اونٹ والا مسئلہ ہے۔ جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔

میں سیاست دانوں سے بات شروع کرتا ہوں کیونکہ انہیں صحت مند جمہوری ماحول میسر نہیں آیا اس لئے وہ فوج سے ساز باز کرنے سے لیکر اس کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں ۔اسی طرح انہوں نے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں پارلیمان کا صحیح اور سود مند استعمال نہیں کیا ۔ بدقسمتی سے عمران خان نے پاکستان میں پارلیمان سے باہر سیاست کی ایک نئی روایت ڈالی ہے ۔انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ کل اگر وہ وزیر اعظم بن گئے اور حزب اختلاف نے ان کی حکومت کو گرانے کے لئے غیر پارلیمانی حربے استعمال کئے تو ان کا کیا حشر ہوگا!

پارلیمان کی قوت اور صحیح استعمال کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں گو یہ ایوب خان کے دور اقتدار کی بات ہے کہ مغربی پاکستان میں گنتی کے چند ممبران اسمبلی ہوتے تھے۔موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر، گوجرہ سے حمزہ اور بلوچستان سے باقی بلوچ ،یقین کریں کہ ان چند ایک حزب اختلاف کے ممبران نے حکومت کا اس قدر ناک میں دم کر رکھا تھا کہ ایک موقع پر حکومت نے باقی بلوچ کو قتل کروانے کی کوشش بھی کی۔

اب عدلیہ کی طرف آتے ہیں ،مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ عدلیہ کی تاریخ ایسی قابل رشک نہیں ہے جس پر کوئی پاکستانی فخر کر سکے۔پاکستانی عدلیہ نے ہمیشہ وقت آنے پر فوجی طالح آماوں کا ساتھ دیا ہے۔عدلیہ کی اندرونی سازشوں کی صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ کس طرح جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کی مسند سے ہٹانے کے لئے ججوں نے خود ہی سازش کی اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی اور بحالی کی تحریک عدلیہ، وکلا اور عوام کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھا جسے سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

اب میں نہال ہاشمی کی تقریر کی طرف آتا ہوں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ انتہائی غیرمناسب اور قابل مذمت تقریر ہے ۔جس پر بجا طور پر نواز شریف نے بر وقت ایکشن لے کر انہیں پارٹی رکنیٹ سے معطل کردیا اور بطور سینیٹر نہال ہاشمی سے استعفیٰ لے لیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس کا نوٹس لیا اور عدلیہ نے اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے ۔گو نہال ہاشمی الزام کی صحت سے انکار کر رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہال ہاشمی کی تقریر اتنے دنوں تک میڈیا میں کیوں نہیں آئی ۔اس تقریر کو کس نے اس خاص موقع پر نشر کیا اور وہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔

آخر میں عرض ہے کہ میں نے ایک دفعہ پاکستان کے چیف جسٹس مرحوم چوہدری یعقوب علی خان سے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے کہا۔Judges speak through their judgments-

مجھے اس بات کا مکمل احساس ہے کہ ہماری عدلیہ کن مشکلات کا شکار ہے اور ان پر کیا گذرتی ہے۔دوسرا یہ کہ وہ بھی ہم میں سے ہیں۔ صرف یہ عرض کہ انہیں کسی بھی صورت میں جذباتی نہیں ہونا چاہئے اور ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیں جن کی وجہ سے ان پر کوئی انگلی اٹھا سکے۔

چاہئے تو یہ تھا کہ JITمیں کسی ایسے شخص کو شامل نہ کیا جاتا جس کا تعلق کسی طرح سے بھی جنرل مشرف اور حدیبیہ کیس کی انکوائری یا پی ٹی آئی سے ہوتا ۔مگر یہ سپریم کورٹ کی صوابدید تھی اس نے اس کا استعمال کیا۔اب اس بنچ پر سارا بوجھ پڑ گیا ہے جس کے زیر نگرانی یہ انکوائری ہو رہی ہے کیونکہ نہ صرف انصاف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہئے۔

امید کرنی چاہئے کہ پاکستان میں اس سارے بحران کے بعد جمہوریت مضبوط ہوگی ۔دنیا کے ہر ملک میں بحران پیدا ہوتے ہیں مگر جمہوریت کی خوبصورتی اور طاقت یہ ہے کہ سیاست دان مل جل کر بحران کا حل نکال لیتے ہیں اور جمہوریت کا سفر رواں دواں رہتا ہے ۔ہمارے پیارے ملک کے لئے یہی اچھا اور صحت مند، مفید راستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).