آزاد عدلیہ ۔۔۔ تھا خواب میں خیال کو اس بت سے واسطہ


آج کل سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر آزاد عدلیہ اور اس کے آزادانہ فیصلوں کی بڑی دھوم ہے۔ تاثریہ دیا جا رہا ہے کہ جیسے پہلی دفعہ عدلیہ آزادانہ فیصلے کررہی ہیں۔ جیسے پہلی دفعہ کسی سیاست دان کا احتساب ہو رہا۔ جناب ان آزادانہ فیصلوں کی اور احتساب کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں۔ اس ملک میں احتساب صرف سیاست دانوں کا ہی تو ہوا ہے۔ کیا کبھی کسی آمر کو آئین توڑنے پر سزا ہوئی ہے۔ کیا کسی غیر سیاست دان کا کرپشن پر احتساب ہوا ہے۔ بردران یوسف کی کرپشن کی داستانیں سارے جہاں میں گونجی کیا کوئی سوموٹو لیا گیا۔ ایک آمر کمردرد کا بہانہ کرکے ملک سے باہر گیا کسی جج کی جرات ہوئی اس کو واپس بلانے کی۔ ایک چیف جسٹس اپنے ہی بیٹے کے خلاف کرپشن کے کیس میں بینچ کا حصہ رہا کسی جج نے مودبانہ طور پر گزارش کی کہ مائی لارڈ آپ اس بینچ کا حصہ نہ بنیں۔ ایک ہائی کورٹ کے محترم جج صاحب کا نام بھی پانامہ کی فہرست میں سنا گیا تھا، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ حالانکہ سراج الحق کی پیٹشن میں تو سب کا احتساب کرنے کی استدعا تھی۔ نہال ہاشمی کو تو توہین عدالت میں فورا طلب کرلیا گیا۔ لیکن جب ایک مخصوص چینل اور بہت سے اینکرز اپنے پروگراموں میں سیاستدانوں ،تجزیہ نگاروں اور دوسرے صحافیوں پر غداری اور کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور پیمرا ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس کارروائی کے خلاف عدلیہ حکم امتناعی دے دیتی ہیں۔

یہ مختصر سی مثالیں ہیں عدلیہ کے حالیہ آزادانہ فیصلے کی اب عدلیہ کی تاریخ سے چند مزید آزادانہ فیصلے بھی سنا دیتے ہیں۔ 1954 میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑ دیا اس اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اس کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔  سندھ ہائی کورٹ نے دستور ساز اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا لیکن فیڈرل کورٹ نے تیکنیکی بنیاد پر مولوی تمیز الدین کو گھر کا راستہ دکھا دیا۔ چار برس بعد ڈوسو کیس میں نظریہ ضرورت کی

روایت پڑی ۔ جس کے بانی جسٹس منیر تھے۔ یہی نظریہ ضرورت بعد میں ہر آمریت کی توثیق کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت ایوب خان کی بغاوت کو جائز قرار دے دیا۔ اگر جسٹس منیر تاریخ کی دوسری سائیڈ پر ہوتے تو آج پاکستان کی اور عدلیہ کی تاریخ بہت مختف ہوتی۔

جب 1977 میں ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو کچھ ججز کو چھوڑ کر زیادہ تر نے 1981ء میں پی سی او پر حلف لے کرایک آمر کی آمریت کو جلا بخشی۔ جس وزیراعظم کا تختہ الٹ کریہ مارشل لاء لگایا اس پر اقدام قتل کی سازش کا مقدمہ بنا کر عدالتی پیشیاں بھگتنے پر لگا دیا گیا۔ آخرمیں عدلیہ نے وہی آزاد فیصلہ کیا جو وہ آمر چاہتا تھا۔ اور ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس سے زیادہ آزادانہ فیصلے کی مثال آپ کو دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملے گی۔

ایک اور آزادنہ فیصلے کی مثال 12 اکتوبر 1999 کو بھی نظر آئی ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ طیارہ سازش کیس میں معزول وزیراعظم کو اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا۔ ایک دفعہ پھر نظریہ ضرورت زندہ ہوا ظفر علی شاہ کیس میں ایک آمر کو زندگی بخشی دی گئی۔ پی سی او پر حلف لئے گئے۔ جنہوں نے علم بغاوت بلند کیا ان کوجبری ریٹائر کردیا گیا۔ منتخب وزیراعظم کو طیارہ سازش کیس میں سزائے موت اور پھر اپیل پر عمر قید میں بدل دیا گیا۔ اس آمر کے خلاف پھر علم بغاوت تب بلند ہوا جب اس کے نظریے کے ساتھ اپنا نظریہ ٹکرایا۔ اور پھر اس عدلیہ کو زندگی انہیں سیاست دانوں نے دی جو مافیا کہلاتے ہیں، جو کرپٹ ہیں۔ جنہوں نے اس ملک کو لوٹ کرکھایا ہیں۔ اس عدلیہ کی بحالی کے لئے سڑکوں پر یہی کرپٹ لوگ مار کھانے کے لئے نکلے۔

پاکستان کی آزادانہ تاریخ میں ایک 2012 کا سال بھی آیا جب ایک منتخب وزیراعظم کو اپنے صدر کے خلاف خط نہ لکھنے پر گھر بھیج دیا گیا۔ اب آجاتے ہیں موجودہ زمانے میں ایک دفعہ پھر عدلیہ آزادانی فیصلوں کی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے۔ ایک جج نے تو ایک منتخب وزیراعظم کو گاڈ فادر کہنے کر تاریخ رقم کردی ۔ ظاہر اس کا قصور بہت بڑا ہے اس عدلیہ کو آزاد کروایا اس کو سزا تو ملنی چاہئے۔ وہ آمر توایک شریف النفس انسان تھا جس نے ججوں کوگھروں میں نظر بند کیا۔ ان کے بچوں کو سکول کالج جانے سے روکا۔ چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر پولیس کی وین میں ڈالا۔ بڑی فرعونیت سے کہا جو پی سی او پر حلف نہیں لے گئے وہ گھر جائے گئے اور وہ گئے بھی۔ ایک جج صاحب کا کہنا ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ناجائز ذرائع ہوتے ہیں اور ایک آمر بیٹھ کر کہتا ہے کہ میری آف شور کمپنیاں ہیں اور کسی کے باپ کی جرات نہیں کہ پکڑ سکے تو واقعی کسی مائی کے کسی لا ل کی جرات ہی نہیں ہوتی۔

ایک جج صاحب کا کہنا ہے موجودہ حکومت مافیا ہے واقعی مافیا ہی تواس لئے تو احتساب کے لئے پیش ہوگئی۔ بیٹے روز پیشیاں بھگت رہے

ہیں۔ جے آئی ٹی پر اعتراض کرتے ہیں تو آزاد عدلیہ کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے۔ جلد ہی ایک اور آزاد عدلیہ تاریخ رقم کردے گی تو کیا ہوگا؟ وزیراعظم نااہل ہوجائے گا۔ پہلی دفعہ تو نہیں ہوا۔ وزیراعظم کو سزا ہوجائے گی پہلی دفعہ تو نہیں ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ سیاستدانوں کے احتساب سے بھری ہوئی ہے، قتل بھی سیاست دان ہوتے ہیں۔ جیل بھی سیاست دان جاتے ہیں۔ جلا وطن بھی سیاست دان ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک خیال سا ہے، واہمہ ہی سمجھیے کہ عدلیہ تب آزاد ہوگی جب وہ کسی آمر کے سامنے جھکنے سے انکار کرے گی جب تمام عدلیہ پی سی اور پر حلف اٹھانے سے انکار کرے گی اور جب وہ ایک آمر کو گاڈ فادر کہنے کی جرات کرے گی۔ یہ شاید ہماری زندگیوں میں تو نہ ہو، آنے والی نسلیں شاید آزاد عدلیہ دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).