عمران خان کی چند نمایاں خوبیاں اور خامیاں


3 جون 1971 وہ دن ہے جب عمران خان صاحب قومی منظرنامے پر نمودار ہوئے۔ اس دن ان کو انگلینڈ کے خلاف میچ میں ٹیسٹ کیپ ملی۔ اپنے کرکٹ کیرئیر میں وہ پاکستان کے مقبول ترین کھلاڑی بن کر ابھرے۔ ان کے کیرئیر کا نقطہ عروج 1992 کے ورلڈ کپ کی جیت تھی۔

کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے اپنی مکمل توجہ شوکت خانم ہسپتال کے قیام کی جانب مبذول کی۔ ان کی اس مہم کی سپورٹ ننھے بچوں تک نے کی اور وہ پاکستان کا یہ مشہور کینسر ہسپتال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان سے بار بار سیاست میں آنے کے بارے میں سوال پوچھا گیا لیکن انہوں نے جنرل ضیا سے لے کر نواز شریف صاحب تک ہر ایک کو انکار کیا حالانکہ ان کے لئے اس دور میں وزارت لینا نہایت آسان تھا۔

25 اپریل 1996 میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے سیاست کے میدان میں قدم رکھا مگر ان کو عوام میں پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ بے دسمبر 2007 میں نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب پیپلز پارٹی نے 2008 کے انتخابات میں فتح حاصل کی تو اس کی کارکردگی سے مایوس ہونے والے اس کے حامی کسی متبادل قیادت کی تلاش میں سرگرداں ہوئے۔ مسلم لیگ ن سے مایوس افراد بھی یونہی سرگرداں تھے۔ اس موقعے پر بے داغ مالی شہرت اور دیانت داری کا امیج بنانے والے عمران خان صاحب نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کیا اور خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 30 اکتوبر 2011 کا لاہور کا عظیم الشان جلسہ ان کو یکلخت قومی سطح کے ایک مقبول لیڈر اور پنجاب میں نواز شریف صاحب کے مدمقابل کے طور پر سامنے لے آیا۔

2013 کے انتخابات میں ان کو ستر لاکھ سے زیادہ شہریوں نے اپنے ووٹ سے نوازا اور ان کو خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کرنے کا موقع ملا۔ ان کو ووٹ دینے والے بہت سے ووٹروں کا یہ کہنا تھا کہ دوسرے تمام لیڈروں نے ہمیں مایوس کیا ہے، چلو عمران خان صاحب کو ایک موقع دے کر دیکھتے ہیں۔ ایسے ووٹرز میں ہم خود بھی شامل تھے۔

عمران خان صاحب کی خوبیوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ کم نہیں ہیں۔

ایک بکھری ہوئی اور کمزور کرکٹ ٹیم کو جس جذبے سے عمران خان صاحب لڑاتے تھے، ان سے ان کا ایک مضبوط لیڈر کا تاثر بن چکا ہے۔ یہی تاثر ان کے لئے سیاست میں بھی معاون ثابت ہوا۔ وہ بدترین حالات میں بھی گھبراتے نہیں ہیں اور جیتنے کی نیت سے مقابلہ کرتے ہیں۔

ان کی ادارے بنانے اور ٹیم کے افراد پر اعتماد کرنے کی صلاحیت ہی شوکت خانم جیسے بے مثال منصوبے کو کامیابی سے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چلا رہی ہے۔ شوکت خانم سے کئی لوگوں کو شکایت بھی ہے کہ اس کی لیب بہت مہنگی ہے اور یہ ادارہ بہت سے مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ کئی مواقع پر ہمارا ذاتی تجربہ یہ رہا ہے کہ شوکت خانم اپنے محدود وسائل کے پیش نظر صرف ان مریضوں کے علاج کی ذمہ داری لیتا ہے جن کا کینسر قابل علاج سمجھا جاتا ہے۔ مریض کو علاج کے لیے قبول کر لیا جائے تو اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں کہ پیسہ آپ خود دیں گے یا زکات اور عطیات کی رقم سے علاج کروائیں گے۔ مریض دونوں میں سے جو بھی آپشن منتخب کریں، ان کا علاج ایک جیسی توجہ سے ہی ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ جو مریض مالی طور پر کمزور ہوں، عام طور پر ان کی تعلیم بھی کم ہوتی ہے اور وہ ہسپتال کے عملے کے لئے زیادہ پریشان کن رویہ اختیار کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہسپتال کا عملہ سب مریضوں کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی اور ہمدردی سے پیش آتا ہے۔ عملے کو یہ علم نہیں ہوتا ہے کہ کون سا مریض اپنی جیب سے رقم ادا کر کے اپنا علاج کروا رہا ہے اور کون سے مریض کی ذمہ داری ہسپتال نے خود اٹھائی ہوئی ہے۔ اس رویے سے یہی لگتا ہے کہ عملے کی تربیت بھی نہایت اعلی درجے کی کی گئی ہے اور غلط رویہ اختیار کرنے پر اس پر سخت انتظامی گرفت بھی ہوتی ہے۔ شوکت خانم جیسا مثالی منصوبہ بنانا اور طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا معیار قائم رکھنا عمران خان صاحب کی ایک ایسی خوبی ہے جس کی جتنی تعریف بھی کی جائے وہ کم ہے۔ ان کے تعلیمی منصوبے نمل کے متعلق ہمیں زیادہ علم نہیں ہے اس لئے اس پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔

عمران خان صاحب کی دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ سیاست سے مایوس اور بے نیاز طبقات کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کر چکے ہیں۔ عام طور پر ان کے نوجوان حامیوں پر ’برگر‘ اور خواتین پر ’ڈیفینس کی آنٹی‘ کی تضحیک آمیز پھبتی کسی جاتی ہے۔ عمران خان صاحب کا کمال یہی ہے کہ وہ ان طبقات کو پاکستان کی سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کر چکے ہیں جو مالی طور پر اتنے آسودہ ہیں کہ وہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں سیٹل ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کی بہتری کی خاطر عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں۔ یہ وہ ووٹر ہیں جو گزشتہ دہائیوں کی اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو سیاست کے سحر سے آزاد ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت میں عمران خان صاحب نے پولیس اور محکمہ مال کی درستگی پر کام کیا ہے اور اس کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ اس بات پر تو صوبے کے رہائشی ہی رائے دے سکتے ہیں کہ یہ دعوی کتنا درست ہے یا کتنا غلط، مگر تعلیمی سیکٹر کو دیکھتے ہیں تو غیر سرکاری اداروں کی رپورٹ کے مطابق بھی ایک بڑی تعداد میں والدین نے اپنے بچوں کو نجی سکولوں سے ہٹا کر سرکاری سکولوں میں داخل کرایا ہے۔ یعنی تعلیم کے میدان میں عمران خان صاحب کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کسی بھی شک و شبے سے بالاتر ہے۔

کرپشن سے پاک ہونے کا تاثر عمران خان صاحب کے حق میں رہا ہے۔ دوست دشمن سب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان ایک ایسا شخص نہیں ہے جسے خریدا جا سکے۔

لیکن اس کے باوجود وہ بہت سے ووٹر جو 2013 کے انتخابات میں عمران خان صاحب کے حامی تھے، ان سے الگ ہو گئے ہیں۔ اس علیحدگی کی وجہ عمران خان صاحب کی چند نمایاں خامیاں ہیں۔

صوبائی حکومت ملنے کے بعد اگر عمران خان صاحب اپنا پورا فوکس اس صوبے پر دیتے اور اسے ایک مثالی صوبہ بناتے تو وہ اسے بقیہ پاکستان کے سامنے ایک ماڈل کے طور پر پیش کر سکتے تھے۔ مگر اس کی بجائے انہوں نے اپنا سارا وقت بے مقصد سیاسی شور و غوغا کرنے پر صرف کیا۔ کبھی الیکشن دھاندلی کا شور ہوا، کبھی پینتیس پینکچر لگائے گئے، کبھی پاناما کے پیچھے دوڑا گیا۔ ان تمام مہموں کا مقصد صرف یہ تھا کہ نواز شریف صاحب کو وزارت عظمی کی نشست سے ہٹا دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب اگر اس سیٹ سے ہٹ بھی گئے تو کیا اس سیٹ پر ان کا کوئی کٹھ پتلی نمائندہ ویسے ہی نہیں بیٹھے گا جیسے پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں اس کا وزیراعظم صدر زرداری کے اشاروں پر حکومت کرتا تھا؟ عمران خان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام کرپشن کو قبول کرتے ہیں، یہ ان کے لئے ایک انتخابی ایشو نہیں ہے۔

عمران خان صاحب نے پشاور میں بھی شوکت خانم ہسپتال بنایا ہے۔ اس کی لاگت چار ارب روپے بیان کی جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ صوبائی حکومت رکھنے کے باوجود، جس کا پچھلے برس کا کل بجٹ 505 ارب تھا، سرکاری سیکٹر میں شوکت خانم کی ٹکر کے تین چار سرکاری ہسپتال نہیں بنائے گئے؟ کیا سرکار کا مالک ہو کر بھی ایسا ہسپتال صرف شوکت خانم ٹرسٹ کے تحت ہی بنایا جائے گا؟

عمران خان صاحب یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاست، دوست دشمن سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔ اس میں مشترکہ مفادات پر سودے کیے جاتے ہیں۔ اپنی پوزیشن سے بھی پیچھے ہٹا جاتا ہے اور فریق مخالف کو بھی اس کی پوزیشن سے ہٹ کر ایسا سمجھوتہ قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو بحیثیت مجموعی سب کو اپنے مفاد میں دکھائی دے۔ کیا دھرنے کے وقت عمران خان صاحب کو چھے میں سے بقیہ پانچ پوائنٹ منوا کر اپنا وزیراعظم کے استعفے والا مطالبہ چھوڑنا نہیں چاہیے تھا؟ کیا دھرنے کا مقصد نواز شریف صاحب کو سیٹ سے ہٹانے کی بجائے انتخابی اصلاحات اور کرپشن کی روک تھام کے بہتر قوانین کی ڈیل حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے تھا؟ اب اگلے الیکشن میں کیا اسی فرسودہ نظام کے تحت انتخابات نہیں ہوں گے جن کے تحت 2013 کے الیکشن ہوئے تھے جن کے بارے میں دھاندلی زدہ ہونے کا شور کیا جاتا ہے؟ پھر چار برس تک قوم کو ایک خلجان میں مبتلا رکھنے کا کیا فائدہ ہوا؟ اسی دھرنے کے باعث ہم نے تحریک انصاف کی حمایت ترک کی تھی اور ایسا کرنے والے ہم تنہا نہیں تھے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ایسا کرنے والے بہت تھے۔

عمران خان صاحب کی ایک خامی یہ ہے کہ وہ اپنے تجربہ کار ساتھیوں سے مشاورت کے بغیر ہی یکلخت کوئی اعلان کر دیتے ہیں اور پھر اگلے دن اسے واپس لیتے ہیں۔ باقی اعلانات کو ایک طرف رکھیں، یہ ہنڈی کے ذریعے رقم منگوانے کا کہتے وقت کیا ان کو ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے بارے میں رتی برابر بھی علم نہیں تھا؟ وہ نواز شریف صاحب کا چٹ سے دیکھ کر بات کرنے پر مذاق اڑاتے ہیں، مگر بہتر یہی ہے کہ خان صاحب خود بھی چٹ دیکھ کر بات کیا کریں۔ اسی طرح جس طرح وہ میڈیا پر آ کر عوام کو یقین دلاتے رہے تھے کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا، اور پھر ریحام خان سے شادی اور ان کو طلاق دینے سے پہلے جس طرح اس بارے میں غلط بیانی کرتے رہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، کیا وہ ایک مناسب بات تھی؟ کیا ایسا کر کے عمران خان صاحب نے خود کو باقی سیاستدانوں کی طرح عوام کو بے وقوف بنانے والا ثابت نہیں کر دیا ہے؟

عمران خان صاحب پر ہمارا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں دشنام طرازی کے کلچر کو فروغ دیا۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں یہ عنصر ہمیشہ سے موجود ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران مولانا مدنی اور مولانا آزاد کے ساتھ علی گڑھ کے لونڈوں کا سلوک ہو، یا صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ اختیار کیا جانے والا مذموم رویہ، ایوب خان کے خلاف لگائے جانے والے نعرے ہوں یا محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی شرمناک مہم، یہ رویہ ہمیشہ سے ہی ہماری سیاست کا حصہ رہا ہے۔ مگر ماضی میں یہ روایت تھی کہ بڑے لیڈر اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے تھے۔ ہر پارٹی نے تیسرے درجے کے لیڈروں کی صف میں ایسے افراد رکھے ہوتے ہیں جو رکیک بیانات کے ماہر ہوتے ہیں مگر پہلی اور دوسری صف کے لیڈر یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ملک کی دیگر سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا اس لئے وہ اپنی ذات کا احترام برقرار رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان صاحب یہ احساس کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ تیسرے درجے کے لیڈر نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے صف اول کے لیڈر ہیں۔ خان صاحب اپنی زبان پر قابو پا لیں تو بہت سے ووٹر ان سے دور نہیں بھاگیں گے اور مخالف بھی ان کی طرف پلٹیں گے۔

تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات کے بارے میں تحقیقات پر جو رویہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کے ساتھ اختیار کیا گیا، اور جس طرح فنڈنگ کے معاملے میں اکبر ایس احمد کی درخواست پر خود کو بچایا جا رہا ہے، وہ رویہ عمران خان صاحب کی شفافیت پر ایک داغ بنتا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے وہ بدنام لیڈر پوری کر رہے ہیں جو ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔

عمران خان صاحب کی پارلیمانی کارکردگی مایوس کن ہے۔ تحریک انصاف نے عوامی مفاد کے کتنے بل قومی اسمبلی میں پیش کیے ہیں؟ کیا تحریک انصاف اسمبلی میں ایک جاندار اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے؟ عمران خان صاحب نے آج تک قومی اسمبلی کے کتنے اجلاسوں میں شرکت کی ہے؟ اگر عمران خان صاحب کو لگتا ہے کہ اسمبلی میں جانا فضول ہے تو وہ اپنی نشست سے استعفی کیوں نہیں دیتے ہیں؟ اسمبلی کو غیر اہم سمجھتے ہوئے اس میں نہ جانے کی ایسی روایت ہو تو عمران خان صاحب اور نواز شریف صاحب میں کیا فرق باقی رہتا ہے؟

عمران خان صاحب کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آنا چاہیے جو سوچ سمجھ کر ایک موقف اختیار کرتا ہو۔ یہ اپنا مذاق اڑوانے والی بات ہے کہ وہ نواز شریف صاحب کے جن تعمیراتی منصوبوں کا وہ تین برس تک تکرار سے مذاق اڑاتے رہے ہیں چوتھے برس خود ان کا اعلان کر رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ وہ پہلے برس سے ہی ان پر توجہ دیتے؟ عمران خان صاحب کو تعمیر اور اتحاد کا سمبل بننا چاہیے، انفراق اور جھگڑے کا نہیں۔

عمران خان صاحب ہمارے لئے بہتری کی ایک امید تھے۔ وہ اپنی خامیوں پر قابو پائیں تو اس ایک برس میں وہ دوبارہ اپنے مایوس ووٹروں کو واپس کھینچ سکتے ہیں۔ ورنہ اگلی بار ایک مرتبہ پھر وہ انتخابی شکست کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar