رمضان میں پھل، عمر کوٹ کا مسیحی اور ہمارا احساس


 چلو جی یہ شوشا بھی کر کے دیکھ لیا۔ ہونا کچھ تھا نہیں ایویں منہ چلانے کو موضوع مل گیا تھا۔ ویسے تو کراچی والوں کو آٹے میں نمک جتنی جو بجلی بھی ملتی ہے وہ بھی تمام ملک کی نسبت سب سے زیادہ مہنگی ملتی ہے۔ کراچی میں برسات کے بعد کی کھمبیوں کی طرح گلی گلی اگے اسکولوں کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے اور ریگیولیٹری ادارے کا پتہ نہیں، ہم لوگ آٹے سے لیکر چینی، اور بجلی سے لیکر صفائی تک روزانہ کی تمام ضرورتوں کا بحران دیکھ چکے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی حال نہیں اس لئے نجی ٹیکسی اور چنگچی کا کاروبار دنوں میں چاندی ہوا ہے، اسکول سب کے بچوں کا پرائیویٹ ہوتا ہے مگر پھر بھی ٹیوشن اور کوچنگ سینٹر سب جاتے ہیں۔

کیوں؟ کیونکہ جن لوگوں نے مسئلے حل کرنے ہیں وہ ہم سے ہڑتالیں، دھرنے اور بکواسیں کروا کر خود جان چھڑاتے ہیں جس کی واضح مثال ہے کہ کراچی میں پھل کی قیمتوں کو کم کروانے کے بجائے کمشنر صاحب شہریوں سے کہتے ہیں بابو پھل نہ کھائو۔ 3 دن نہیں کھائیں گے۔ چوتھے دن سے تو کھائیں گے نہ؟ ایسے ہی گوگل کیا تو پتہ چلا کہ امریکہ میں اوسطا تنخواہ 8000 ڈالر ماہانہ ہے تو پیزا ہٹ کا لارج پیزا 14 ڈالر کا ہے یعنی کل تنخواہ کا اشاریہ 00175 فیصد۔ پاکستان میں کم از کم دیہاڑی 15000 (بجٹ کے مطابق) مقرر ہے اور پیزا ہٹ کی ویب سائٹ پہ دیکھا تو ایک سادہ لارج پیزا تھا 1279 پاکستانی روپے یعنی کل تنخواہ کا اشاریہ 085 فیصد۔

ایک ذاتی تجربہ پیش خدمت ہے۔ جو اسکواش ٹیپ عام دکان سے 10 یا 15 روپے کی ملتی ہے وہ ایک معروف مال سے جب لی تو اس پر 150 روپے لکھا تھا۔ یہی حال ٹیپ بال، مارکر، پینسل کلر اور دیگر معمولی اشیاء کا تھا۔ مگر کسی نے بائیکاٹ نہ کیا۔ کیوں؟ کیونکہ چھوٹے کیڑے تو پیر کے نیچے آ جاتے ہیں مگر ہاتھی کے منہ کون لگے؟ وہ روندتا ہوا نکل جائے گا۔ ایک معروف برانڈ کا چرچا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کا استحصال کر رہا ہے۔ ہاں! کرتا ہو گا۔ مگر اس کی کمائی پہ کوئی فرق نہیں آنیوالا۔ وجہ یوں ہے کہ جب حکومت نے کھلی چھٹی دے دی تو ہم اور آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم اپنی فرسٹریشن پھل والا، راشن والا، کباڑی، موچی، ٹین ڈبے والا، رکشے والا اور گھر کی ماسی پر نکال سکتے ہیں۔ ہمارا زوال دراصل معاشی نہیں اخلاقی ہے۔ ہم اس لیے اپنا حق نہیں مانگ سکتے کیونکہ ہم دوسروں کو انکا حق دے بھی نہیں رہے۔ ایک بڑا ہوٹل ایک وقت کے کھانے کے 6000 روپے لوٹ لیتا ہے تو ہم کچھ نہیں کہہ پاتے۔ چپ چاپ بل دے کر اٹھ جاتے ہیں اوراگلے دن ملازمہ کو دینے والے 600 روپے میں سے کس چھٹی کے کتنے پیسے کاٹنے ہیں یہ سوچتے ہیں۔ اگر پھل، سبزی، راشن، کپڑے کی قیمت واقعی کم کروانی ہوتی تو تاجر برادری خود اعلان کرتی کہ احترام رمضان میں ہم نے قیمتوں میں 20 فیصد کمی کر دی۔ مگر وہ ایسا کیوں کریں جبکہ رمضان تو برکتوں اور کمائی کا مہینہ ہے چاہے آپ چینل کے مالک ہوں یا بیسن کے بیوپاری۔

واحد رستہ کچھ کچھ یہ سمجھ آتا ہے کہ آنے والے برسوں میں دکان رمضان کی مناسبت سے جو گیم شو کئے جائیں اسکے انعام 20 کلو بیسن، 50 کلو پھل، ایک بوری کھجور اور چنے آلو کی بوریاں رکھی جائیں۔

بات صرف احساس کی ہے جو اس معاشرے میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دل اتنے پتھر ہو گئے ہیں کہ نہ بیوپاری کو آڑھتی کا احساس ہے، نہ آڑھتی کو متوسط طبقے کا اورنہ ہی ہمیں اور آپ کو ان یتیموں کا جن کی کفالت کا ہمیں حکم ہے کیونکہ زکوۃ، صدقہ اور خیرات بھی ہم بلاوں کو ٹالنے اور دنیا کو بتانے کیلئے دیا کرتے ہیں اور ان یتیموں نے کسے بتانا ہے جن کا اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں۔ بات صرف پھل کی نہیں بات احساس کی ہے۔ ہمیں پھل والے کے بچوں پہ رمضان میں رحم نہ آیا۔ نہ کسی نے یہ سوچا کہ اگر یہ اتنا آسودہ حال ہوتا تو چلچلاتی دھوپ میں ریڑھی کیوں لگاتا؟ اگر واقعی پھل والا امیر ہوتا تو کیا دو، تین دن اسکے مالی حالات خراب کرنے کے لئے کافی ہوں گے؟ ابھی اطلاع ملی ہے کہ عمرکوٹ میں ایک خاکروب نے تڑپتے ہوئے جان دے دی کیونکہ ڈاکٹر اس کے غلیظ وجود کو ہاتھ لگانا پسند نہیں کر رہا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ اس اسپتال کا بائیکاٹ ہوگا؟ یا اس ڈاکٹر کا سماجی بائیکاٹ ہو گا؟ لوگ ایسے انسان سے ہم کلام ہونا پسند کریں گے جس نے ڈگری تو حاصل کر لی مگر وہ عہد نہ نبھا سکا جو ہر ڈاکٹر کا خود سے وعدہ ہے۔ مٹی ڈالیں اس واقعے پر بس اب اتنا خیال رکھیں کہ اپنے ساتھ ایک بیگ رکھیں جس میں ایک صاف ستھری قمیض اور پرفیوم موجود ہو تاکہ اگر کوئی ناگہانی ہو تو آپ کا علاج کروایا جا سکے اور آپ کا ظاہری حلیہ آپ سے زندہ رہنے کا حق نہ چھیننے دے۔

جھگڑا اور کسی چیز کا نہیں، مسئلے کی اور کوئی جڑ نہیں، بات صرف احساس کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).