قائد اعظم، تین جون 1947: نہ مولوی، نہ اسلامی نظام، خالص آئینی سمجھوتہ


تین جون 1947 کی سہ پہر ہو چکی تھی۔ ہندوستان کے آئینی بحران میں شامل تمام فریقوں کے درمیان آئینی سمجھوتے پر اتفاق  ہو چکا تھا۔ ہندوستان کی تقسدیم ہونا طے پا گئی تھی۔ اور یہ بھی اتفاق ہو گیا تھا کہ پنجاب اور بنگال کے صوبے ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کئے جائیں گے۔ تین جون 1947 کی شام آل انڈیا ریڈیو پر مرکزی رہنماؤں کو اس منصوبے کی منظوری کا اعلان کرنا تھا۔ پروٹوکول کے مطابق وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پہلے تقریر کرنا تھی۔ ان کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کو خطاب کرنا تھا۔ اس کے بعد قائد اعظم محمد جناح نے قوم کو تقسیم ہند کی منظوری سے آگاہ کرنا تھا۔ سکھ قوم کی طرف سے سردار بلدیو سنگھ کو اپنا موقف بیان کرنا تھا۔

آل انڈیا ریڈیو کے اس تاریخی پروگرام کے پروڈیوسر اخلاق احمد دہلوی تھے۔ اخلاق دہلوی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کی گاڑی عین اس وقت ریڈیو اسٹیشن پہنچی جب پنڈت نہرو کی تقریر ختم ہو رہی تھی۔ اب قائد اعظم کو اسلامیان ہند کو قیام پاکستان کا مژدہ سنانا تھا۔ یہ ایک تاریخی تقریر تھی۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے لئے قائد اعظم کی سات سالہ سیاسی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو رہی تھی۔ قائد اعظم ہندوستان کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کی خوش خبری دے رہے تھے۔ اس تاریخی تقریر کا متن یہاں اردو ترجمے کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس تقریر کو غور سے پڑھنا چاہیے۔ قائد اعظم کی اس تاریخی تقریر میں مولوی حضرات کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ کسی مفروضہ اسلامی نظام کا ذکر کیا گیا یے۔ اس تقریر میں خلافت کا کوئی ذکر نہیں، جہاد کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا، قائد اعظم نے نہ صرف یہ کہ مسلمان کی تعریف متعین نہیں کی بلکہ موعودہ پاکستان کے ہندو، سکھ، پارسی اور مسیحی شہریوں کو ایک قوم تصور کرتے ہوئے خطاب کیا ہے۔ اس میں نظریہ پاکستان کا کوئی ذکر ہے اور نہ دو قومی نظریے کی کوئی یاد دہانی ہے۔

آئیے اس تقریر کا اردو ترجمہ پڑھتے ہیں اور پھر انگریزی زبان میں قائد اعظم کی اصل تقریر کی ریڈیو ریکارڈنگ بھی سنتے ہیں۔

محمد علی جناح کے بیان کا اردو ترجمہ:

ہِز میجسٹی کی حکومت کا ہندوستان کے لوگوں کے لیے انتقال اقتدار کے منصوبے کے بارے میں بیان نشر کیا جا چکا ہے، اور انڈیا اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ میں کل اشاعت کے لیے پریس کو ریلیز کر دیا جائے گا۔

اس بیان میں اِس منصوبے کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس پر ہمیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منصوبے کا جائزہ ٹھنڈے دماغ اور غیر جذباتی انداز میں لیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس عظیم برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے، جس میں چالیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، نہایت اہم اور گمبھیر فیصلے کرنا ہیں۔ جس قدر بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرنی چاہئیں کہ انتقالِ اقتدار کا یہ مرحلہ مؤثر اور پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔

میری تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں سے مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم رکھیں۔ ہمیں اس منصوبے کی روح کو سمجھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔

میں اس فیصلہ کن مرحلے پر خدا کی رہنمائی طلب کرتا ہوں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری منصوبے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے سمجھداری سے اور معتبرانہ انداز میں پوری کر سکیں۔

یہ تو واضح ہے کہ یہ منصوبہ کئی اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ اور اس میں کچھ ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ یا محسوس نہیں کر سکتے کہ ہم ان سے مطمئن ہیں یا اتفاق کرتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہز میجسٹی کی حکومت کی طرف جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے ہم نے اس سے سمجھوتے کے طور پر قبول کرنا ہے یا سیٹلمنٹ۔ میں یہ فیصلہ نہیں کروں گا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل ہی اس پر ہمارے آئین اور روایات کے مطابق حتمی فیصلہ کر سکتی ہے، جس کا اجلاس پیر نو جون کو طلب کیا گیا ہے ۔ لیکن اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں دلی میں مسلم لیگ کے حلقے پرامید ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی حتمی فیصلے سے پہلے اس منصوبے کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور کیا جانا چاہیے۔

میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے خیال میں وائسرائے نے کئی قوتوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔ اور میرا ان کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ انصاف اور غیر جانبداری کے جذبے سے کام کر رہے تھے اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کام آسان بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).