ربا… ہمیں من و سلویٰ نہیں چاہیے


 پھلوں کا بائیکاٹ ہوا تو اقبال کا شعر یاد آ گیا

کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!مایوسی کے اس دور میں جب ٹھوکروں تلے انسان روندا جاتا ہو اور سرکار نامدار سے لے کر کروڑوں کے انبوہ تک ساکت تماشبین ہو، پھلوں کے بائیکاٹ جیسا جہاد بلنفس کرنا اس قوم کے ابھی زندہ ہونے کا ثبوت ہے.

ویسے بھی ہمیں اب پھلوں کے بائیکاٹ کی پریکٹس کرتے رہنا چاہیے، کیونکہ اب ہمارے اجتماعی گناہوں کی فہرست اتنی طویل تر ہوتی جا رہی ہے کہ…. میرے منہ میں خاک … پر لگتا ہے کہ بہشت کے دروازے ہم پر مشکل سے ہی وا ہوں گے!

اور حسب عادت پچھلی تنگ گلی سے اگر ہم بہشت میں داخل ہو بھی گئے تو بہشت کے سرونٹ کواٹرز تک بمشکل رسائی حاصل کر پائیں گے. جبکہ پھل وہاں صاحب لوگ کھائیں گے جن کے اعمال نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر اے اور اے پلس گریڈ کے ساتھ پاس ہو چکے ہوں گے.

ہم بہشت کے سرونٹ کوارٹرز میں پھلوں کے چھلکے ہی حاصل کر پائیں تو بھی بہت ہے.

ایک محفل میں ایک صاحب لطیفہ سنا رہے تھے کہ قیامت ہوئی، حساب کتاب ہو چکا، اب سخت بھوک لگی ہوئی تھی اور کھانے کا انتظار تھا بہشت والوں کو. سامنے لاتعداد دیگیں پک رہی تھیں اور خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں مگر کھانا تھا کہ بہشت والوں کی طرف آ ہی نہ رہا تھا. بالآخر بہشت والوں نے تھک کر بھوک کی صدا لگائی تو اگلے لمحے فرشتے چائے پاپے لیے حاضر ہوئے اور بہشت والوں کے سامنے لا کر پٹخ دیے. بہشت والوں نے احتجاج کیا کہ یہ کیا زیادتی ہے صاحب! سامنے دیگیں چڑھی ہوئی ہیں اور خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں اور ہم نے مانگا تو چائے پاپے لے آئے؟ فرشتوں نے گھوُر کر ان کا بھولپن دیکھا اور کہا ابے وہ دوزخیوں کے لیے ہیں. تم مٹھی بھر بہشت والوں کے لیے دیگیں تو نہیں پکیں گی نا! چائے پاپے پر ہی گزارا کرو.

اب یہ لطیفہ یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ چائے پاپے والے جنتی ہم ہی ہوں گے!

ویسے بھی ہم پاکستانیوں نے مزاج قومِ موسیٰ والا پایا ہے.

من و سلویٰ ہمیں بھاتا نہیں ہے. ہمیں لہسن، ادرک اور پیاز چاہیے جو ڈھیروں ڈھیر سحری کے لیے بنے سری پائے اور افطار کے لیے بنی نہاری وغیرہ کا لازم جُز ہیں.

فروٹ یعنی میوہ یعنی پھل وغیرہ کے جب ہم قابل ہی نہیں رہے تو پھر کیوں نہ بائیکاٹ کریں!

صبر ہمارے مزاج میں نہیں، اس لیے صبر کا پھل قطعی ہمارا نصیب نہیں!

انگور اکثر ہمیں کھٹے لگتے ہیں!

ہمارے گیارہ مہینے سال کے ویسے بھی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوُ تھوُ میں گزرتے ہیں. بلکہ صرف ہپ ہپ اور تھوُ تھوُ میں گزرتے ہیں. ہپ ہپ کرتے ہیں تو حقوق نگلتے ہیں اور تھوُ تھوُ کرتے ہیں تو براہِ راست ایک دوسرے کے منہ کا نشانہ لیتے ہیں.

اس لیے جب آخرت میں ہمارے اجتماعی اعمال کے باعث حورانِ بہشت ہمارے سامنے انار و انجیر تک پیش کرنے سے انکار کر دیں گی تو یقیناﹰہمیں جھٹکا نہ لگے گا. ہم عادی ہوں گے فروٹ کے بائیکاٹ کے. بڑے اطمنان سے کہہ سکیں گے کہ کوئی بات نہیں بی بی …. چائے پاپے ہی لے آؤ …..

ہمارے اندر اب بہشت کی تمنا بھی شاید پھیکی پڑ گئی ہے! پے در پے بدنما مناظر نے ہم سے حُسنِ تصور چھین لیا ہے!

ورنہ ہم جس دل جمعی سے فروٹ کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اس دل جمعی سے اگر قانون ہاتھ میں لے کر چوراہوں پر مقتل لگانے والے لوگوں کا بائیکاٹ کرتے، انسانوں کو ٹھوکروں میں کچلنے والوں کا بائیکاٹ کرتے، مسلمانوں کی اکثریت والے سماج میں غیر مسلموں کی اقلیت پر زندگی تنگ کرنے والوں کا بائیکاٹ کرتے، اپنے حلقہِ احباب اور گھروں میں موجود رشوت خوروں، منافع خوروں، جھوٹوں اور حقوق غصب کرنے والوں کا بائیکاٹ کرتے کہ جاؤ بھئی کم سے کم تین دن تک ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں.

تین دن تک کے لیے ہی سہی مگر اپنے اطراف میں، اپنے گھروں اور خاندانوں میں منفی سوچ رکھنے والوں کا بائیکاٹ کرتے یا ان کے بائیکاٹ کی ترغیب دیتے.

جمع کے جمع، مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز پر چنگھاڑتے ان تمام مولویوں کے واعظ کا بائیکاٹ کرتے جو جھوٹے اور من گھڑت فتوے دے کر اس قوم کے نوجوانو‍ں کو تشدد پر اکساتے ہیں اور خوفِ خدا اور حقوق العباد کا درس دینے کے بجائے حوروں کی کشش و پیمائش کی ترغیب دیتے ہیں.

چلیے کچھ نہیں، کچھ نہیں تو اپنے بھوکے نفس کا ہی بائیکاٹ کر لیتے رمضان کے اس متبرک مہینے میں!

ہمارا بھوکا، ہانپتا ہوا نفس جو شام ہوتے ہی بپھرے ہوئے ہجوم کی صورت دندناتا ہوا پکوڑوں، سموسوں، دہی بڑوں، فروٹ چاٹ اور چھولوں کو پانے کے لیے سڑکوں پر امڈ پڑتا ہے اور ایک دوسرے کو دھکیلتا ہوا، راہ میں جو بھی آئے اسے کچلتا ہوا، چیختا چنگھاڑتا ہوا جلد از جلد گھروں کو پہنچنا چاہتا ہے، جہاں اس شعلہ بار گرمی میں بیویاں، بیٹیاں، بہنیں اور بہوئیں پسینے میں شرابور، روزے کی حالت میں چولہے کے الاؤ پر کڑکڑاتے تیل کی کڑھایاں چڑھائے، تپتی دوپہر سے جانے کیا کیا کچھ تلے جا رہی ہوتی ہیں اور مسلسل تلے جا رہی ہوتی ہیں کہ فروٹ کے ٹھیلے والوں کا بائیکاٹ کرنے والے روزہ دار گبھرو گھر لوٹیں گے اور روزہ کشائی کریں گے.

زرا تین دن کے لیے دوزخ جیسے باورچی خانوں کا بائیکاٹ کر لیجیے اور عین سنتِ نبوی کے مطابق صرف کھجور اور پانی سے روزہ افطار کرکے دیکھیے تو سہی.

اس کی لذت چکھیے تو سہی.

تھوڑا سا مکہ اور مدینہ کی گرمی کا تصور تو کر لیجیے جو روزے کے حکمِ نزول کی جگہ تھی.

اُف زبان تالوُ سے لگ جاتی ہے اُس گرمی میں. گرمی کے روزوں میں مجھے کبھی کبھی اپنے بچپن میں مکہ میں میرا پہلا روزہ یاد آیا کرتا ہے. تب ابھی رمضان میں مسلمانوں کا ہجوم مکہ مدینہ کی طرف نہیں امڈ امڈ آتا تھا. آخری عشرہ اور شبِ قدر وہاں گزارنے کا ایسا رواج نہیں پڑا تھا. سعودی عرب میں پیسہ تو آ چکا تھا مگر فلک بوس فائیو، فور اور تھری اسٹار ہوٹلز کا وجود ہی نہ تھا. نہایت سادہ سی رہائشی عمارتوں میں پرانے شور مچاتے ائر کولرز لگے ہوتے تھے جو بمشکل کمرہ ٹھنڈا کرتے تھے. مسجد نبوی اور مسجدالحرام میں چھوٹے چھوٹے پنکھے چلتے تھے.

ہم بھی پہلی بار رمضان کرنے گئے تھے اور مکہ میں وہ ہمارا پہلا روزہ تھا.

اُف چار پانچ بجے تک زبان تالوُ سے لگ چکی تھی.

ہمارے ساتھ آئی ہوئی ایک محترمہ، کھلے منہ والے بوسیدہ ائر کوُلر کے سامنے منہ کھول کر بیٹھ گئیں. اماں کی ایک ہم عمر بھانجی بھی تھیں ہمارے ساتھ جن کی آواز بہت ہی سُریلی ہوا کرتی تھی. سورج ابھی سر پر ہی کھڑا تھا کہ انہوں نے دیگچہ بھر شربت بنایا اور اس کے آگے بیٹھ کر نعتیں پڑھتی جاتیں اور شربت میں برف گھولتی جاتی تھیں.

میں نے اس امید پر کہ لاڈلا اور اکلوتا بچہ ہونے کی وجہ سے مجھے تو روزہ توڑنے کی اجازت مل ہی جائے گی، اماں کو اپنا منہ کھول کر دکھایا تھا کہ دیکھیں اماں! میری زبان سے ٹک ٹک کی آواز نکل رہی ہے! جواب میں اماں نے ڈانٹ دیا کہ اب اس وقت روزہ توڑو گی! سو جاؤ.

جو سونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے انہوں نے بھیگے تولیے منہ پر ڈال رکھے تھے.

اسی دوران بابا مسجدالحرام سے عصر نماز پڑھ کر آ گئے.

سب نے دہائی دی کہ ہماری توبہ …. ہم سفر میں ہیں…. ہم روزہ نہیں رکھیں گے.

بابا مسکرائے اور کہا ….. تم لوگ تو آرام دہ کمروں میں بیٹھے ہو. یہ سوچا ہے کہ جب یہاں روزے کا حکم ہوا تھا تو کیا زمانہ تھا! مگر حکم ماننے والوں نے نہیں کہا کہ ہم سے یہ کام نہ ہوگا.

مجھے مکہ کی گرمی میں اپنی تالوُ سے لگی زبان کی وہ ٹک ٹک ابھی بھی کبھی کبھی یاد پڑتی ہے. وہ طویل روزہ ہم نے سرِ شام بنے شربت اور کھجور کے ساتھ کھولا تھا. مجھے اس کی لذت بھی کبھی کبھی یاد آیا کرتی ہے، جب میرے سامنے ٹیبل پر برتھ ڈے پارٹی جیسی افطار لگی ہوتی ہے.

 ایسی ہی تالوُ میں چبھتی گرمی برستی ہے آجکل باورچی خانوں میں.

آپ جو پھل کی مہنگائی کے سامنے آج سینہ سپر کھڑے ہیں، لگے ہاتھوں اپنی روزہ دار بیویوں، بیٹیوں، بہوؤں اور بہنوں کی خاطر صرف تین دن کا بائیکاٹ کر کے دیکھیے باورچی خانے کی اس مشقت کا جو رمضان کے نام پر وہ بلکل اسی طرح کرتی ہیں جس طرح بھٹی پر اینٹیں پکاتے ہیں مزدور!

آخر فروٹ جیسی نعمت کے بغیر بھی تو آپ تین دن زندہ رہیں گے ہی! گو کہ الامان الحفیظ… اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تین دن جب فروٹ چاٹ آپ کے دسترخوان پر نہ ہوگی تو آپ کے تزکیہِ نفس پر یقیناﹰ فرشتے بھی سلیوٹ کریں گے کہ الٰہی یہ دیکھ تیرے غازی اور پراسرار بندے! ….. تین دن سے فروٹ چاٹ نہیں کھائی انہوں نے….ایسی بڑی قربانی!

تین دن سے یہ قوم محض من و سلویٰ پر زندہ ہے!

مگر جب تین دن پکوڑے، سموسے، دہی بلے، چاٹ، سری پائے، نہاری، قیمہ پراٹھے وغیرہ وغیرہ کا بائیکاٹ کریں گے تو سوچیے مارکیٹ تو آپ کے بھوکے نفس کے سامنے سرنگوں ہوگی ہی مگر اپنے گھر کی خواتین پر آپ کا رحم، محبت کا وہ بہشت بو دے گا آپ کے گھروں میں جس کی نرم زمین میں وہ پھل اُگیں گے کہ جن کی لذت سے آپ کا حلق نہ سہی مگر آپ کی روح ضرور سیراب ہوگی.

لیکن یہ ممکن نہیں بہرحال….. ممکن ہوتا تو قومِ موسیٰ کیوں من و سلویٰ ٹھکراتی!

اس لیے صد شکر کہ تزکیہِ نفس کے اس جہاد کو اسلامی جماعتوں کی تائید بھی حاصل ہے، ورنہ تزکیہِ نفس کا یہ جہاد غیر اسلامی ہو جاتا اور ماہِ رمضان میں ایک گناہِ عظیم قرار پاتا بلکہ کفر کا فتویٰ آجاتا کہ ماہِ رمضان میں کفار کی رسمِ بائیکاٹ ادا کی جا رہی ہے.

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah