نکاح ایک معاہدہ ہی تو ہے


شادی بیاہ کے موقع پر لین دین کے جھگڑے اور تنازعات عموما دیکھنے میں آتے ہیں۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ نہ تو تمام لڑکی والے مظلوم ہوتے ہیں اور نہ ہی لڑکے والے بے چارے، مگر پھر بھی ہمارے معاشرے میں زیادہ تر رسم و رواج لڑکے والوں کو ہی زیادہ سہولت دیتے ہیں۔

جہاں جہیز لیا جاتا ہے وہاں بھی اس میں سو عیب نکالے جاتے ہیں اور جو لوگ جہیز لینے سے انکار کرتے ہیں وہ بھی بعض اوقات صرف اوپر سے اپنا بڑا پن دکھا رہے ہوتے ہیں اور چاہ یہی رہے ہوتے ہیں کی لڑکی کے گھر والے خود ہی بہترین چیزیں بھجوا دیں انہیں۔

میری ایک دوست کی شادی ایسی جگہ ہوئی جہاں سسرال والوں نے جہیز لینے سے انکار کیا۔ اس کے والدین نے تھوڑا بہت سامان اس کے بیڈ روم کے لئے دیا۔ اس پر بھی اس کو برا بھلا کہا گیا کہ جب ہم نے اپ کے والدین کو منع کیا تھا تو انہوں نے آپ کو جہیز کیوں دیا۔ اور ساتھ ہی جو چیزیں انہوں نے دیں تھیں ان کی برائیاں کہ آپ کے تو ٹی وی کی آواز بھی بے کار ہے اور تصویر کی کوالٹی بھی بالکل ناقص۔

جہیز کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ لڑکی کے استعمال کی بنیادی چیزیں دینا تو لڑکی والوں کی ذمہ داری ہے ہی۔ اس کے علاوہ ہر علاقے کی اپنی رسومات ہیں جن میں لڑکے کی پھوپھیوں، خالاوں ، اور سب چاچوں، چاچیوں کے جوڑے اور لڑکے ماں اور بہنوں وغیرہ کے لئے سونے کی اشیا دی جاتی ہیں اور مطالبہ ہو یا نہ ہو، لڑکی کے گھر والوں کی استطاعت کے مطابق ایک توقع ضرور باندھ لی جاتی ہے۔

آج سوشل میڈیا پر ایک تصویر نظر سے گزری جس میں لڑکی والوں کی طرف سے شرائط درج تھیں کہ حق مہر ایک لاکھ ہو جو پیشگی ادا کیا جائے، لڑکی کے دوا دارو وغیرہ کا خرچ لڑکے والے اٹھائیں گے اور اس کے علاوہ پچیس کلو پھل اور مٹھائی لڑکی والوں کو بھجوائی جائے۔ اس پر بہت سے منفی جذبات دیکھنے میں آئے کہ آخر لڑکی والوں نے یہ شرائط رکھی ہی کیوں؟ کیا وہ شادی کو ایک معاہدہ سمجھتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ

مجھے تو یہ لگا کہ زیادہ تر لوگوں کو اعتراض سے زیادہ ایک صدمہ تھا۔ اس بات کا کہ لڑکی والوں کی یہ جرات اور ہمت کہ وہ دلہا والوں سے مطالبہ کریں اور اس بات کا بھی کہ مطالبہ بھی کیا اور احاطہ تحریر میں بھی لے آئے؟ آخر یہ ہو کیسے گیا؟ اس لئے لڑکی والوں کو لالچی، اپنی بیٹی کا سودا کرنے والے اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا گیا۔

اس سے پہلے صرف حق مہر کے مطالبے پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ میرا اس بات پر تو مکمل یقین ہے کہ معاہدے اور شرائط کسی رشتے کی مضبوطی کے ضامن نہیں ہوتے، مگر اگر شادی سے پہلے کچھ شرائط کی صورت میں والدین یہ سمجھتے ہیں کہ رشتہ ٹوٹنے کی صورت میں ان کی بیٹی کو تحفظ مل سکتا ہے تو اس پر اتنا شور اور اعتراض کیوں؟

ایک مرتبہ میں نے حق مہر کے بارے میں رائے جاننے کے لئے اپنے جاننے والے چند لوگوں سے سوالات کئے تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حق مہر کی زیادہ رقم کا مطالبہ لوگوں کو مرعوب کرنے کے لئےکیا جاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اگر حق مہر مناسب ہو تو طلاق کی صورت میں لڑکی اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہے یا کوئی کاروبار شروع کر سکتی ہے۔ اس لئے وہ ایک تحفظ کے لئے یہ مطالبہ کرتے ہیں۔ میں مذہب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی اور تحقیق نہیں رکھتی مگر ظاہری سی بات ہے کہ مذہب نے بھی یہ حق عورت کے تحفظ کے لئے ہی دیا ہے۔

بھئی شادی کا نکاح نامہ آخر ایک معاہدہ ہی تو ہے۔ ہمارے نکاح نامے میں معجل اور غیر معجل حق مہر سے لے کر دیگر شرائط تک متعین کی جا سکتی ہیں جس میں دلہن کا حق طلاق تک شامل ہے۔ ان شرائط والے حصے کو عموما کاٹ دیا جاتا ہے۔ مگر یہ شرائط مقرر کرنا کسی بھی رو سے صائب اور جائز ہے اور ان پر عمل کرنے کی صورت میں ناچاقی کی صورت میں لڑکی کو بہت زیادہ قانونی تحفظ مل سکتا ہے۔

ہاں یہ اور بات ہے کہ مہر کی رقم بڑھا لینے پر بعض صورتوں میں لڑکے والے برا سلوک کرتے ہیں اور طلاق بھی نہیں دیتے اور مہر کی رقم چھوڑ کر خلع ہی لینا پڑتی ہے۔ اس صورت میں بھی پہلے ادا ہو جانے والا مہر بہتر ہے۔ یہ وہ آسانیاں ہیں جو مذہب اور قانون دیتا ہے۔

مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، بعض اوقات لڑکی والے بھی زیادتی کر دیتے ہیں جیسے کچھ روز قبل ایک ٹی وی چینل کی خبر نگاہ سے گزری جس میں ایک غریب گھرانے کا لڑکا بارات لے کر پہنچا تو بارات پہنچنے کے بعد لڑکی والوں نے ایک لاکھ حق مہر کا مطالبہ کر دیا جو لڑکے والوں کی بساط سے بڑھ کر تھا۔ دلہا بے چارہ مایوس ہو کر روتا ہوا واپس لوٹ گیا۔ نیوز چینل نے تو اس کے بہتے ہوئے آنسو تک دکھائے۔

بھئی بات یہ ہے کہ ہاں یہ سچ ہے کہ شادی سے پہلے شرائط طے کر لینا ایک حق ہے اور بہتر بھی۔ عین شادی والے دن کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا ہر لحاظ سے ناجائز ہے۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کی آسانیوں کے لئے نکاح نامے کی ہر شق کو سوچ سمجھ کر طے کر لینا چاہیے۔ جہیز کی اشیا کو اگر احاطہ تحریر میں لے آیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ رشتہ ٹوٹنے کی صورت میں بھی عموما جہیز کی اشیا واپس نہیں کی جاتیں۔ مگر شادی کے نکاح نامے میں لڑکی والوں کے مطالبات بھی ہر رو سے جائز ہیں۔

 البتہ سب سے بہتر تو یہی ہے کہ جہیز کی بجائے سب لوگ حسب استطاعت اور حسب رشتہ و محبت تحائف دے دیں جو ایک نیا گھر بسانے میں نئے جوڑے کے لئے مددگار ثابت ہوں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim