برانڈ والے کپڑوں کا بائیکاٹ کریں یا برانڈ والے پھلوں کا؟


مہنگے پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم کا آج آخری دن ہے۔ اس بائیکاٹ کے خلاف مہم چلانے والوں کی دلیل تھی کہ برانڈڈ کپڑوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہم نے بہت غور و فکر کیا ہے کہ عام کھانے کی چیزوں کا تقابل مہنگے برانڈز سے کرنے کی کیا منطق ہے؟ کیا اشیائے تعیش بھی خوراک کی مانند ایک لازمی انسانی ضرورت ہوتی ہے؟ لیکن ہم نے اس معاملے پر مزید غور کیا تو معاملہ سمجھ آ گیا۔ غالباً مہنگے آئی فون پر بنے ایپل کی وجہ سے مہنگے پھلوں کے ساتھ ساتھ مہنگے برانڈز کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ آخر آئی فون بھی تو فروٹ ہی ہے۔ مطالبہ جائز ہے کہ مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کرنا ہے تو ایپل کے آئی فون کا بھی کریں۔

بہرحال ایپل کے بائیکاٹ کے مطالبے پر غور کرتے کرتے اچانک ہمیں برانڈڈ پھلوں کا خیال آ گیا جو اکثر ہیں ہائپر سٹار، میٹرو یا ایسے دوسرے بڑے سپر سٹورز پر نظر آتے ہیں۔ وہاں پھلوں سبزیوں کے سیکشن میں ایک وسیع علاقے میں دیسی پھل دکھائی دیتے ہیں۔ سو ڈیڑھ سو روپے کا سیب، بیس روپے کا تربوز، پچاس روپے کے امرود وغیرہ۔ پاس ہی کچھ ٹوکریوں میں نیوزی لینڈ کے چمکیلے سیب پڑے ہوتے ہیں جو تین چار سو روپے کلو ہوتے ہیں۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ نیوزی لینڈ کے یہ سیب اور دوسرے پھل برانڈڈ ہوتے ہیں اس لئے دگنے مہنگے ہوتے ہیں۔ نہیں جناب۔ ایسی بات نہیں ہے۔

برانڈڈ پھل تو ایک کونے میں لگے فریزر میں سلیقے سے سجے ہوتے ہیں۔ ایسے رنگ برنگ کہ ہم میں سے بیشتر لوگوں نے پہلی بار انہیں وہیں دیکھا ہوتا ہے۔ قیمت دیکھیں تو مناسب یہی لگتا ہے کہ ان پھلوں کو بس وہیں سجا رہنے دیں اور ونڈو شاپنگ پر ہی قانع ہونا مناسب ہے۔ کوئی ہزار روپے کلو کے مول ہوتا ہے اور کوئی دو ہزار روپے کلو کے۔ ان برانڈ والے پھلوں کو چھوڑ کر بیشتر افراد سامنے لگے سستے موسمی اور مقامی پھلوں کو خریدتے ہیں۔ رمضان کے علاوہ عام دنوں میں ان کے پاس آپشن ہوتی ہے کہ مہنگے برانڈ والے پھل کی بجائے سستا موسمی پھل خرید لیں۔

کپڑوں کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ کچھ کپڑے اچھرے اور انارکلی سے ملتے ہیں۔ قیمت میں سستے بھی ہوتے ہیں اور درمیانے بھی۔ کچھ بڑی دکانوں پر مہنگے برانڈڈ بھی مل جاتے ہیں۔ آپ کو چھے سو کا سوٹ بھی مل سکتا ہے اور چھے ہزار کا بھی۔ پھر شہر کے متوسط اور پوش علاقوں میں لباس کی ایسی دکانیں بھی ہوتی ہیں جو صرف مہنگے برانڈز ہی رکھتی ہیں۔ وہاں دس بیس ہزار کا سوٹ عام بات ہے۔ لیکن سب سے غریب پرور مارکیٹ تو لنڈا بازار ہے۔ لنڈے بازار سے سب سے بہتر ولایتی برانڈ آپ کو سو روپے کا بھی مل سکتا ہے اور ہزار پندرہ سو کا بھی۔

اب ہم فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اتوار بازار کے پھل کا تقابل لنڈے اور انارکلی کے کپڑے سے کریں یا پھر مہنگے برانڈ کے کپڑوں سے۔ کیا برانڈڈ کپڑوں کا تقابل سپر مارکیٹ کے الگ سے فریزر میں لگے برانڈڈ پھل سے کرنا مناسب ہے یا عام دیسی امرود سے؟ جیسے ایک متوسط طبقے کا فرد برانڈ والے پھل سے دور رہتا ہے، ویسے ہی وہ برانڈ والی دکانوں کے بھِی مستقل بائیکاٹ پر ہی ہوتا ہے۔ لیکن کیا وہ موسمی پھل سبزی کا بھی مستقل بائیکاٹ کر دے؟

خوراک ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ حکومتیں یہ لازم بناتی ہیں کہ کھانا عوام کی قوت خرید میں رہے۔ پھلوں کے معاملے میں آپ سیب نہ سہی، امرود اور خربوزہ تو اس قیمت پر فراہم کرنا لازم بنائیں کہ غریب بھی مہینے میں ایک دو بار خرید سکے۔ عام موسمی پھل کا ریٹ تو ایسا ہو کہ وہ کم آمدنی والوں کی پہنچ میں ہو۔ سپلائی اور ڈیمانڈ اپنی جگہ، مگر قیمت میں کارٹل کی پرائس فکسنگ کے ذریعے مصنوعی اضافہ تو نہ کیا جائے۔ اگر حکومت اس معاملے میں بے بسی ظاہر کرتی ہے تو پھر یہ عوامی مہم ہی ہوتی ہے جو ایسی چیزوں کے بائیکاٹ کی مہم چلا کر قیمتوں کو اعتدال پر واپس لاتی ہے۔

جیسے ہمارے پاس لباس کے معاملے میں یہ سہولت موجود ہوتی ہے کہ ہم سستا بھی خرید سکتے ہیں اور مہنگا بھی، ویسے ہی خوراک کے معاملے میں بھی یہی سہولت لازم ہے۔ غریب کو لباس تو پھر بھی پرانا یا استعمال شدہ کہیں نہ کہیں سے مل جاتا ہے، وہ پرانی یا استعمال شدہ خوراک خریدنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسے کھانے سے بہتر ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کا کوئی آسان طریقہ استعمال کر لے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar