کتاب کی روشنی ہی میں آگے بڑھنا ہو گا


 جارج مارٹن نے کہا تھا کہ ” مطالعہ سے شغف رکھنے والا شخص مرنے سے پہلے ہزار زندگیاں جیتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں مطالعہ نہ کرنے والا شخص محض ایک زندگی جیتا ہے”۔ مطالعہ انسان میں وسعت نظری پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ویژن دیتا ہے اور اس کی فکری صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔ کسی قوم کی ذہنی ترقی ، سنجیدگی اور رویوں کا اندازہ اس قوم کے لوگوں میں مطالعے کے رجحان، فروخت ہونے والی کتابوں کی شرح اور وہاں لائبریریوں کے آباد یا ویران ہونے کی کیفیت سے کیا جاسکتا ہے۔ جہاں کتابیں نہیں ہوتیں وہاں علم نہیں ہوتا اور جہاں علم نہیں ہوتا وہاں افراتفری، عدم برداشت اور الزام تراشی کا کلچر پنپتا ہے۔ شائدکئی حوالوں سے یہ حقیقت پاکستان میں باقی دنیا کے مقابلے میں کچھ زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے طالبعلموں خاص کر طالبات میں مطالعہ کی عادت نہ ہونے کے برابر ہے اوران کی توجہ بھی محض ڈگری کے حصول پر ہوتی ہے۔ اس میں والدین کا بھی بہت قصور ہے جو بچوںکو کتابیں خریدنے کی عادت نہیںڈالتے۔ ہماری اکثریت میں اگر پڑھنے کا رجحان کچھ ہے تو وہ مذہبی کتابو ں یا وظائف کے گرد گھومتا ہے۔ تحقیق کے شعبے کا یہ حال کہ ہماری مستند تاریخ کا احوال صرف یورپی مصنفین کی کتابوں سے ملتا ہے جبکہ ہمارے پروفیسر حضرات اپنے اپنے تعلیمی اداروںکی سیاست میں مشغول رہتے ہیں یا پھر مزید پیسہ کمانے کیلئے پرائیویٹ اداروں میں اضافی لیکچر دینا پسند کرتے ہیںجبکہ تحقیق میں زیادہ تر’ کٹ، کاپی، پیسٹ ‘کے قائل ہیں۔

کہتے ہیںجس گھر میں تعلیم اور نیک ماں ہو وہ گھر تہذیب اور انسانیت کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔ تعلیم اور تربیت میں سب سے زیادہ کردار ماں کا ہوتا ہے لیکن آج ان پڑھ تو کجا ہماری نام نہاد پڑھی لکھی خواتین کا رویہ بھی انتہائی علم دشمن ہوتا ہے جس کی جھلک ہم نئی نسل کے خطرناک حدوں کو چھوتے ہوئے مادّی رویوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ مطالعے کی عادت منفی رویوں کو لگام دیتی ہے سو والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو پابند کریں کہ وہ اپنے ماہانہ جیب خرچ میں سے ایک معمولی حصہ کتابوں کی خرید پر صرف کریں گے۔ جہاں ہم انھیں ہزاروں روپے کے جوتے اور کپڑے لے کر دے رہے ہوتے ہیں وہاں دو یا تین سو روپے کی کتاب خریدکر دینے سے ان کے رویے میں بہت مثبت تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ باعث شرم بات ہے کہ ہمارے شاپنگ سنٹرز ، کھانے پینے کی جگہیں اور سینما ہاو ¿سز تو آباد نظر آتے ہیں لیکن ہماری لائبریریوں میں اُلّو بول رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ نہیں تو دس روپے میں ملنے والا اخبار تو تقریباً ہر آدمی افورڈ کر سکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی کل( اکیس کروڑ )آبادی میں سے محض ایک کروڑ کے قریب افراد ہی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان میں سے بھی اکثر دوسروں سے مانگ کر پڑھتے ہیں۔

جس دین کی ابتداءہی لفظ اقراءسے ہوئی اس دین کے ماننے والے آج سب سے زیادہ مطالعے اور تحقیق سے بیزار نظر آتے ہیں۔ ہم صحیح یا غلط کی جانچ کئے بغیر سنی سنائی باتوں پر اعتبار کر لیتے ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ڈس انفارمیشن کے سیلاب نے ہماری قوم میں بہت تفریق پیدا کر دی ہے۔ ہمارے بزرگ ،بچے اور نوجوان بھی سوشل میڈیا پر سنجیدہ تحریروں کو پڑھنے اور شیئر کرنے کی بجائے فضول تصویریں، ویڈیوز اور دیگر تخریبی مواد پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے طالبعلم ڈگری کے حصول کے بعد اپنی صلاحیتوں میں مطالعے اور تحقیق سے مزید نکھارپیدا کرنے کی بجائے نوکری نہ ملنے کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ مادیت پسندی اور پیسے کی ہوس نے ہماری تمام اخلاقی اقدار کو روند ڈالا ہے جس سے کتاب دوستی کا کلچر ماند پڑ گیا ہے۔ بے پناہ وسائل کے باوجود اگر مسلمان پوری دنیا میں مار کھا رہے ہیں تو اس کی وجہ علم سے ہماری رغبت نہ ہونا ہے۔ آج بھی اسلامی ملکوں کا تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ شرمناک ہے جبکہ دفاعی بجٹ کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن پھربھی کم و بیش ساری اسلامی دنیا بد امنی کا شکار ہے۔ مہذب قوموں کے افراد اپنے فارغ اوقات خاص کر دوران سفر مطالعہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک عام آدمی کی نسبت کسی حکومتی عہدیدار کیلئے مطالعہ کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ ہزاروں سال پہلے افلاطون نے ریاست کے معاملات چلانے کیلئے فلاسفر کنگ (Philospher King)کا نظریہ پیش کیا جس میں اس نے حکومتی عہدیداروں کیلئے تعلیمی مہارتوں کے حصول کو اولیت دی۔ افلاطون کے اس نظریے کے مطابق ایک ریاستی عہدیدار کیلئے جن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے ان میں اس کی علم سے محبت، ذہانت ، لوگوں کیلئے قابل بھروسہ ہونا اور ایک سادہ زندگی بسر کرنے کیلئے آمادگی بہت ضروری چیزیں ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے کی وجہ سے اب نظریاتی اور ویژنری قیادت کا فقدان دیکھنے میں آرہا ہے۔ اب صحیح معنوں میں پڑھی لکھے، اہل اور سمجھدار قیادت کی بجائے صرف سرمایہ دار یا ان کے بچے یا جن کے سر پر سرمایہ داروں کا ہاتھ ہو وہی سیاسی میدان میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

دنیا بھر میں عوامی مسائل حل کرنے والی قیادت کا فقدان نظر آرہا ہے اس کی بجائے اقتدار کو ذاتی اور کاروباری مقاصدکیلئے استعمال کرنے والے لوگ سرمائے کے بل بوتے پر سیاسی عہدوں پر براجمان ہیں۔ زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کے بقول “ہم آنے والی نسلوںکو کیسے یقین دلا سکتے ہیں کہ علم ہی کامیابی کی کنجی ہے جبکہ ہم پر مشکل سے ڈگریاں لینے والے کند ذہن اور جرائم پیشہ امیر لوگ حکومت کر رہے ہوں۔ ” پاکستان میں ایسے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو انگلیاں پر گنا جا سکتا ہے جو پڑھنے لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ مجھے حیرت انگیز طور پربڑی خوشی ہوئی جب ایک ملاقات میں ایم ڈی بیت المال بیرسٹر عابد وحید شیخ نے بتایا کہ وہ فارغ اوقات میں کتابوں کا مطالعہ پسند کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اشرافیہ کی پہچان ان کی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جبکہ اب ان کی پہچان ناجائز دولت کے انبار ، چیک بکس اور اکاو ¿نٹس ہیں۔ ہمارے معیارتعلیم پر بھی بہت سے سوالیہ نشان اٹھتے ہیں کیونکہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے اور تحقیق طلب موضوعات پر بھی ہم نے مذہب کی چھاپ لگا کر تحقیق کا راستہ بند کر دیاہے۔ خاص طور پر ضیاءدور کی تعلیمی پالیسیوںکا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ چلیں معیاری تعلیم کی بات تو چھوڑتے ہیں آزادی کے ستر سال گزرنے کے بعد بھی دیگر ممالک سے ہمارا لٹریسی ریٹ بہت کم ہے۔ دنیا میں ہم شرح خواندگی کے حساب سے144ویں نمبر پر ہیں۔ ہمارا لٹریسی ریٹ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب بھی ساٹھ فیصد ہے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ محض 56% ہے۔ یاد رہے اس وقت دنیا کا مجموعی لٹریسی ریٹ 86.3فیصد ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں اس وقت انڈیا میں شرح خواندگی72، ایران میں 87،ترکی 95، چین 97، سری لنکا 93، بنگلہ دیش 62، افغانستان 39، مالدیپ سو فیصد، نیپال 65اور بھوٹان میں 65فیصدہے۔ یعنی خطے میں صرف کئی دہائیوں سے شورش کے شکار افغانستان کے علاوہ باقی تمام ممالک ہم سے آگے ہیں۔ تعلیم خاص طور پر فنی تربیت معیشت کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

غنیمت ہے کہ ذوالفقار چیمہ جیسے نابغہ روزگارنیوٹک جیسے فنی تربیت کے ادارے سربراہ ہیں جس سے اس شعبے میں پہلی بار منظم طریقے سے اس شعبے کو فروغ دینے پر کام ہو رہا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے اور تعلیمی بجٹ پانچ فیصد تک بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچے رہ جائیں گے۔ میری رائے میںآج سب سے زیادہ عظیم وہ لوگ اور ادارے ہیں جنھوں نے کتاب اور مطالعے کے کلچر کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ آج کے دور میں تعلیمی اداروں کو ترقی دینے ، لائبریریاں بنانے اور انھیں آباد کرنے ، کتاب میلے سجانے ، کسی کو کتاب کا تحفہ دینے ، کتابیں پڑھنے اور لکھنے والے لوگ میری نظر میں انسانیت کے محسن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).