نرگس دت: بھارتی فلم انڈسٹری کی دیوی ماں


ناظم حکمت نے ایک مرتبہ نرگس کے بارے میں کہا تھا، “اتنی حسین عورت سنیما سکرین پر کبھی نہیں آئی۔” یہ سچ ہے بس اتنی گنجائش کے ساتھ کہ مدھو بالا کو دیکھ کر بھی دل سے بے اختیار یہی آواز اٹھتی ہے لیکن ہر کوئی ناظم حکمت نہیں ہوتا، ہر اداکار نرگس دت نہیں ہوتی۔

نرگس شروع سے ایک پرکشش شخصیت کی مالک تھیں۔ اس کشش میں بڑا حصہ اس تہذیبی رچاؤ اور ماحول کا تھا جس میں ان کی پرورش ہوئی۔ جس گھر میں جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، سجاد ظہیر، سردار جعفری ایسے بڑے نابغوں کا آنا جانا ہو وہاں بچے میں ادب آداب بعید از قیاس نہیں ہوتے۔ نرگس کی اماں گانا گاتی تھیں لیکن بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔ سوشل سٹیٹس بھی مینٹین رکھتی تھیں اور ٹھیک ٹھاک ادب دوست تھیں۔

نرگس بچپن میں اپنی ماں کے ساتھ ایک فلم پریمئیر میں گئیں۔ وہاں نہرو جی بھی آئے ہوئے تھے، انہوں نے بہت شفقت سے ملاقات کی، تھوڑا وقت دیا اور تب سے نرگس پنڈت نہرو کے مداحوں میں شمار ہوتی تھیں۔ نہرو خود نرگس اور ان کی والدہ کے فن کو سمجھتے تھے اور بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جب سن باسٹھ میں نرگس سنیل دت کے ہمراہ سرحدوں پر گئیں، کلچرل ٹورز کیے، فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کی تو پنڈت جی بہت متاثر ہوئے کیوں کہ انہیں دنوں چین بالکل آسام کی سرحدوں پر پہنچ چکا تھا اور یہ ایک بہت بڑا رسک تھا۔ تو نرگس نری فلمسٹار نہیں تھیں، وہ ایک پیدائشی انٹیلیکچوئل تھیں، ہاں زندگی سے مہلت کم ملی مگر اس میں بھی انہوں نے ٹھیک ٹھاک کام کیا۔ اپاہج بچوں کے لیے ایک ادارہ بنایا، راجیہ سبھا کی ممبر منتخب ہوئیں اور جب خود کینسر کی آخری سٹیج پر تھیں تو سنیل دت سے کہہ کر اس مرض کے متاثرین کے لیے بھی ایک ادارہ بنوایا۔ یہ تمام ادارے اس وقت فعال ہیں۔ نرگس حسین ہونے کے ساتھ ساتھ درد دل رکھنے والی عورت تھیں، ناظم حکمت صرف چہرہ دیکھ پائے۔

نرگس کی ماں جدن بائی اور موہن بابو کی شادی کے بعد بھی عین ویسے ہنگامے ہوئے تھے جیسے نرگس اور سنیل دت کی شادی کے بعد ہوا یا کسی بھی ہندو مسلم شادی پر ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سب عارضی تھا۔ دت صاحب کے گھر والوں نے انہیں دل و جان سے قبول کیا تھا اور نرگس نے بارہا خود کو اس کا اہل بھی ثابت کیا۔ تو نرگس کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور اس کی وجہ ان کی من موہنی طبیعت تھی۔ سنیل دت بعض مواقع پر یہ بھی کہتے سنے گئے کہ یہ سب تو مجھے جہیز میں ملے ہیں۔

نرگس کا ہر انداز مستانہ تھا۔ انہوں نے کبھی مذہب، ذات پات اور دوسری چیزوں کی پرواہ نہیں کی تھی۔ ایک تقریر میں کہا، “میرے والد پنجاب کے ہندو تھے اور میری ماں یو پی کی مسلمان تھیں اور اب، میرا گھر، مہاراشٹر ہے۔ لیکن میں ہندو یا مسلمان، ہنجابی یا مراٹھی بعد میں ہوں اور سب سے پہلے میں ہندوستانی ہوں۔” تو ہندوستان کی سیکیولر بنیادوں میں ایک اہم نام اس خاندان کا تھا جس کے سبھی رکن اپنی جگہ مشہور تھے، موہن بابو، جدن بائی، نرگس، سنیل دت، سنجے دت ۔۔۔ سنجے تو آج تک اس چلن کا نتیجہ بھگتتے چلے آ رہے ہیں۔

سنیل دت سے ان کی شادی کا قصہ بھی اپنی جگہ ایک داستان ہے۔ اس سے پہلے ان کے مراسم راج کپور سے رہے لیکن وہ فلمی دنیا کے ایک روائتی گلیمر بوائے تھے۔ معاملات آگے بڑھے تو گھر والوں کے پریشر سے گھبرا کر وہ صاف نکل گئے۔ نرگس مایوس تھیں اور انہیں دنوں انہوں نے مدر انڈیا سائن کی تھی۔ کہاں ایک سیزنڈ مشہور اداکار نرگس اور کہاں ایک نئے آنے والے جھینپو سے سنیل دت جو اس فلم میں نرگس کے بیٹے بنے تھے۔ فلم کی شوٹنگ اور ان کی دوستی ساتھ ساتھ چلتی رہی، دونوں کے تعلقات گھریلو سطح تک پہنچ گئے۔ ایک مرتبہ سنیل دت کی بہن کو ٹی بی ہوا تو نرگس نے انہیں بتائے بغیر مکمل علاج کروایا اور بہت زیادہ تیمار داری بھی کرتی رہیں۔ سنیل کے علم میں جب یہ معاملات آئے تو انہوں نے اس دوستی کو شادی میں بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔ نرگس بھی اس دوران جان چکیں تھیں کہ سنیل ایک مکمل گھریلو اور ٹھیک جینٹلمین ٹائپ آدمی ہیں تو انہوں نے ہاں کہنے میں دیر نہیں لگائی۔ اب ایک مرحلہ اور تھا، ہندو مسلم شادی کا، تو نرگس گھر سے کسی کام کا کہہ کر نکلیں اور سات بجے شام انہوں نے سنیل سے ملنا تھا۔ ان دنوں پوپ ہندوستان پہنچے ہوئے تھے تو اس چکر میں پورا بمبئی ایکدم پیک تھا۔ خیر کسی طرح دس بجے کے بعد نرگس پہنچیں تو وسوسوں میں گھرے سنیل دت کو منتظر پایا اور اللہ اللہ کر کے یہ مرحلہ طے ہوا۔

اس کے بعد فتوؤں کی ایک طویل برسات تھی جو ان دونوں نے جھیلی۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا کہ نرگس کو اپنے بیٹے سے شادی نہیں کرنی چاہئیے تھی کہ مدر انڈیا میں دونوں ماں بیٹے کا رول کر چکے تھے۔ تو بس وقت جیسے تیسے گزر گیا۔ نرگس فلم سے کنارہ کر چکی تھیں اور مکمل گرہستن بن گئیں۔

نرگس کے بارے میں ایک مزے کی بات یہ تھی کہ وہ عورتوں اور مردوں میں یکساں مقبول تھیں۔ منٹو نے جو کہانی نما خاکہ لکھا اس میں بھی نرگس کے اندر چھپی ایک گھر دار لڑکی کو باہر نکالا جو ٹیلی فون پر ان کی سالیوں کی دوست بن گئی تھی، یہ جانے بغیر کہ یہ لڑکیاں کون ہیں کہاں کی ہیں۔ اسی طرح خواجہ احمد عباس نے بھی لکھا کہ روس میں جب وہ نرگس کے ساتھ اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے گئے تو سکول کی ایک بچی بلاناغہ ہوٹل کی سیڑھیوں پر آ کے نرگس کو گلاب کا پھول دیا کرتی تھی۔ گلاب ان دنوں ماسکو میں بہت مہنگے ہوتے تھے اور غالباً بہت مشکل سے ملتے تھے، تو یہ سب کچھ تھا، کچھ عجیب سی کشش ان میں خواتین کے لیے بھی تھی۔ اور تو اور اسی دورہ روس میں خواجہ صاحب نے کہا کہ ایک دن یہ لفٹ میں گئیں تو آگے چھ لڑکیاں موجود تھیں، جب تک لفٹ اٹھارہویں منزل پر پہنچتی، سب نے انہیں چوم چوم کر ان کا منہ لپ سٹک کے نشانوں سے بھر دیا تھا۔ وہ سب لڑکیاں روسی تھیں اور یہ جادو فلم “آوارہ” کا تھا۔ بعد میں جب خواجہ صاحب نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ اس میں ایسی کیا بات ہے جو تم لوگ اس قدر دیوانی ہوئی پھرتی ہو تو ان کا جواب صرف ایک لفظ تھا، “کاگ بوگینا” دیویوں جیسی۔ اور پھر مدر انڈیا کے بعد نرگس واقعی میں دیوی ماں کے جیسی ہو گئی تھیں۔

“کیا نرگس واقعی دیوی ہے۔ نیکی کا مرمریں بت جس نام ہے؟ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ نیکی، شرافت، رکھ رکھاؤ کی تہوں کے نیچے ایک انسان کا دل دھڑک رہا ہے۔ وہ ہنسنا ہنسانا بھی جانتی ہے، چھیڑنا اور چٹکیاں بھرنا بھی۔ خوش مزاجی اور زندہ دلی کے چھپے ہوئے تار ہمیشہ جھنجھناتے رہتے ہیں لیکن رکھ رکھاؤ کی وجہ سے وہ ظاہر نہیں ہونے دیتی۔” – خواجہ احمد عباس۔

سردار جعفری صاحب کے مطابق نرگس اکثر جدن بائی کے ساتھ ان کے سوشلسٹ جلسوں میں شریک ہوتی تھیں اور چندہ بھی دیا کرتی تھیں۔ یوم اقبال میں بھی ان دونوں کی شرکت باقاعدگی سے ہوا کرتی۔ شاید یہ ادبی ذوق کی آنچ ہی تھی کہ انتظار حسین بھی نرگس کے پرستار ہوئے بلکہ جوگن والے رول کا تو ایک خط میں ذکر بھی کیا (بقول ڈاکٹر سلیم اختر جوگن کا اسکرپٹ دس برس تک محفوظ پڑا رہا کہ فلم ساز کو ایسی کوئی ہیروئین نہ ملتی تھی جو اس کردار کے لیے موزوں ہو)۔ پروفیسر عمر میمن نے تعزیتی خط میں لکھا کہ نرگس انہیں بہت پسند رہیں بلکہ خواب دیکھنا انہیں نرگس نے ہی سکھایا، احمد فراز بھی نرگس کو پسند کرنے والوں میں تھے۔ فیض صاحب جب راولپنڈی سازش کیس کے بعد ہندوستان گئے تو نرگس نے ان کی وہاں بہت خاطر مدارات کیں، آج بھی سنجے دت کے ساتھ ان کی اور نرگس کی تصویر موجود ہے۔ اور ہاں، وہ ناظم حکمت والی بات بھی سردار جعفری صاحب نے ہی اپنے مضمون میں لکھی تھی۔

“اگر ہم سفرنگ کو ختم نہیں کر سکتے تو ہم ان لوگوں کے لیے سفر (انگریزی والا) تو کر سکتے ہیں جو سفر کر رہے ہیں؟” اس سوچ کے ساتھ سپیشل بچوں کی فلاح و بہبود کا ادارہ چلانے والی نرگس خود بھی انتہا کی سفرنگ اٹھا کر بہت جلد گزر گئیں۔ راجیہ سبھا کا رکن بننے کے بعد انہیں کینسر تشخیص ہوا، علاج کے لیے امریکہ لے جایا گیا، سنیل دت نے دن رات ایک کر دئیے، جو ہو سکا انہوں نے کیا لیکن نرگس بچ نہ سکیں۔

سفید لباس، سفید پرس، سفید جوتے، سفید دستانے، سفید چھتری، سفید ساریاں پسند کرنے والی نرگس سفید کفن کی ہو گئیں۔ نرگس کی موت کا بہت زیادہ صدمہ سنیل دت اور سنجے کو ہوا۔

ان کی وفات کے چوتھے پانچویں دن سنجے دت کی پہلی فلم راکی کا پریمئیر تھا۔ نرگس کی بہت سخت تاکید تھی کہ سنیل مجھے چاہے سٹریچر پر وہاں جانا پڑے لیکن مجھے ایک بار سنجو کے پریمئیر پر لے جانا۔ ان کی یاد میں سامنے کی ایک کرسی خالی رکھی گئی۔ سنجے کی فلم سپرہٹ تھی لیکن وہ خود ٹوٹ چکے تھے اور نشے میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور تھے۔ سنیل دت نرگس کے بعد اپنے بیڈ روم میں نہیں سو پائے، ان کا اور نرگس کا آپس میں وہ رشتہ تھا جو امرتا پریتم اور امروز کا تھا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain