زوال کا دور اور علما کے وضاحت نامے


\"husnainحضور غریب نواز ؒ نے حکایت بیان فرمائی کہ پہلے زمانے میں ایک آدمی تھا کہ جو علما و مشائخ کو دیکھ کر از روئے حسد منہ پھیر لیتا تھا، جب وہ مرگیا تو لوگوں نے اس کا رخ قبلہ کی طرف کرنا چاہا لیکن نہ ہوا۔
غیب سے آواز آئی اس کو کیوں تکلیف دیتے ہو؟ اس نے دنیا میں علما و مشائخ سے روگردانی کی ہے اس لئے ہم اپنی رحمت سے اس کا منہ پھیر دیتے ہیں اور قیامت کے دن ریچھ کی صورت میں اس کا حشر کریں گے۔

دلیل العارفین، ملفوظات حضور غریب نواز (رح)، مرتبہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی (رح)، مجلس نمبر 5، صفحہ 21

شیخ نے یہ حکایت ہم سب کو سنائی اور اپنا روشن چہرہ ہماری جانب موڑ دیا۔

میں نے پوچھا، \”حضرت، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مخلوق کا حشر ریچھ ہی کی صورت کیوں کر ہو گا؟ ریچھ بھی تو بنانے والے کی ایک مخلوق ہے، تو کیا یہ خالق کی ایک تخلیق سے نفرت نہ ہو گی؟\”

نور کا ہالہ لب کشا ہوا، \”اس لیے کہ منافقین کو یہی انجام زیبا ہے، اور ریچھ، ریچھ بے شک اپنی تھوتھنی سمیت ایک بدشکل جانور ہے۔\”

پوچھا، \”منافقین کی نشانیاں کیا ہوں گی\”

جواب آیا، \”ان کے قلوب کی سیاہی ان کے بشرے پر موجود ہو گی\”

پوچھا، \”قلوب کا سیاہ ہونا کیسے عمل میں آئے گا؟\”

\”لوگ علما و عظام کی باتوں کو اہمیت نہ دیں گے، ان کے پند و نصائح ہنسی ٹھٹھے میں اڑائے جاویں گے، یہاں تک کہ ان پر حکومت کافروں کی ہو گی اور وہ اپنے کفر کو طرح طرح کے طریقوں سے گھر گھر پھیلانے کی سعی کریں گے۔\”

\”یا شیخ، ان کے وہ طریقے کیا ہوں گے؟\”

\”وہ منافع پر درہم کمائے جانے کو حلال جانیں گے، ان کے دور میں کافروں کے تیوہاروں کو پاک لوگوں کے تیوہاروں جیسی اہمیت دی جائے گی، وہ لوگ نیک بات کرنے والوں پر اور نیک عمل بجا لانے والوں پر پابندی لگائیں گے، صالحین پر پابندی ہو گی کہ وہ اپنے مقدس اعمال اپنی ذات تک سمیٹے رکھیں، تصویر بنوانا عام ہو جائے گا اور حرکت کرتی ہوئی تصویریں بھی وجود میں آ جائیں گی، پاک مذہب کے بڑے بڑے نام لیوا حرکت کرتی ہوئی تصویر بنوانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں گے اور برائی کو برائی نہ کہا جاوے گا۔\”

سوال کیا، \”یا حضرت، حرکت کرتی ہوئی تصویر میں ہمارے علما کو کیا مرغوب ہو گا؟\”

\”یقیناً وہ لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ حرکت کرتی ہوئی تصویر ان کے واسطے سراسر نقصان کا سودا ہو گا۔ ان میں کا ایک وہ ہو گا جو اپنی ہی زبان کے باعث سخت گرفت میں آئے گا، وہ اپنے مر جانے کا وقت بتائے گا اور اس وقت مر نہیں پائے گا چوں کہ وہ جھوٹ کا پشتارہ ہو گا۔ پھر ان میں کا ایک وہ ہو گا جو مقدس ہستیوں کے بارے میں گستاخی کرے گا، لیکن اسے معاف کر دیا جائے گا کیوں کہ وہ انہی کا حصہ ہو گا جو مقدس ہوں گے۔ پھر ایک نفس ان میں وہ ہو گا کہ جو مختلف مشروبات کے زیر اثر عجیب و غریب مدہوش لہجوں میں بولتا اور مسکراتا ہوا حرکت کرتی تصاویر بنوائے گا، اور باوجود اس سب کے، مخلوق اس سے محبت کرتی رہے گی کہ وہ دور زوال کا دور ہو گا\”

پوچھا \”یا شیخ، زوال کا دور کیسا ہو گا؟\”

مجھے جواب ملا، \”زوال کے دور میں بہت کچھ ایسا ہو گا جسے تم اب، یہاں بیٹھ کر محیر العقول اور خوارق الاعادات جانو گے۔ مگر یہ سب ہماری کتابوں میں موجود ہو گا۔ جب زوال کا دور آئے گا تو بہ ظاہر ہر چیز اپنے کمال پر ہو گی۔ انسان کی بنائی ہوئی مخلوق اس لال ستارے تک پہنچ جائے گی، مگر یہ سب ہماری کتابوں میں پہلے سے موجود ہو گا۔ سفر کرنے کے واسطے ہوا میں اڑنے والی تیز تر سواریاں موجود ہوں گی، اگرچہ یہ سواریاں بنانے میں ہمارا کچھ ہاتھ نہ ہو گا مگر یہ بھی ہماری کتابوں میں موجود ہو گا۔ کائنات کا آغاز جاننے کی کوششیں شروع کر دی جائیں گی، زمین جو تمہیں تھامے ہوئے ہے، اور اپنی جانب کھینچتی ہے، اس کھینچنے کی قوت پر کام کیا جائے گا اور اس طرح کے نہ جانے اور کتنے واقعات ہوں گے، جو سب کتابوں میں ضرور ہوں گے، اور سب سے زیادہ قرب زوال تب ہو گا جب ان سب واقعوں میں عورتیں شامل ہوں گی۔\”

مجھے سخت تعجب ہوا، پوچھا، \”اعلی حضرت، یہ آدھی مخلوق، یہ کم زور تخلیق، یہ بات بات پر رو اٹھنے والا نادان وجود، ہر ماہ ناپاکی میں مبتلا رہنے والی یہ عورتیں، جو مستقل عبادت تک نہیں کر سکتیں، یہ عورتیں ایسے کام کریں گی؟\”

مرشد گویا ہوئے، \”یہی تو اصل دور زوال ہو گا۔ ابتدا اس کی یوں ہو گی کہ ایک عورت کہ جس کا نام \”محمدی بیگم\” ہو گا، وہ ایسی تمام عورتوں کی سرخیل ہو گی اور وہ تہذیب نسواں نام کی ایک ماہانہ کتاب شائع کرے گی، پھر وہ اس میں ایک نظم لکھے گی جو ہمارے بھائی بند اپنی کتابوں تک میں چھاپیں گے، وہ اس کلام کو اپنی مقدس کتابوں میں شامل بھی کریں گے اور اس عورت کا نام بھی نہیں دیں گے۔\”

\”یا شیخ، وہ کتاب کون سی ہو گی اور ایسا کیا کلام ہو گا کہ جس کو علما اس میں چھاپیں گے؟\”

\”اس کتاب کا نام بہشتی زیور ہو گا اور وہ نظم \”اصلی انسانی زیور\” نام کی ہو گی\”

\”پھر کیا ہو گا اے میرے مرشد؟\”

\”بس اس کے بعد دنیا میں بڑی لڑائیاں ہوں گی، تباہ کن ہتھیار بنیں گے، اسی دوران ایک ہوا ایسی چلے گی کہ جس کا رنگ سرخ ہو گا اور وہ سرخی آخر کار ایک جگہ جا کر ختم ہو جائے گی مگر لوگ تب تک گم راہ ہو چکے ہوں گے، عورتوں کو ہر کام میں شراکت کا حق دے چکے ہوں گے اور پھر وہ دور آئے گا کہ جس میں قلوب کا سیاہ ہونا عمل میں آئے گا۔\”

\”یا شیخ، ایسا کرنے والوں کے ہاتھ خاک آلودہ ہوں اور ان کی ماں ان کا غم منائے، تو ہم میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا کہ جو ان کو روکے گا؟ کوئی ایک بھی حق کا علم اٹھانے والا باقی نہ رہے گا؟ کوئی ایک نیک شخص اس دنیا میں باقی نہ رہے گا؟\”

شیخ کا پرجلال چہرہ عین میرے سامنے تھا، انہوں نے کہا، \”بے شک وہ لوگ اس وقت بھی کثیر تعداد میں ہوں گے جنہوں نے اپنے خیال میں سچائی کا علم تھاما ہو گا، لیکن ان کی بات سننے والا کوئی نہ ہو گا۔ وہ بات کریں گے اور لوگ ان کے گریبان کو آئیں گے۔ جب ایسے لوگوں کی حکومت آئے گی کہ ٹیڑھی پسلی کی پیداوار عورتوں کو سیدھا کرنے کے واسطے مارنا بھی گناہ ٹھیرایا جاوے گا اور مرد ذات عورت کو مارنے کے جرم میں کوتوالی جانے پر مجبور ہو گی، اور قانون سب الٹ جاویں گے، اس دور میں وہ لوگ موجود ہوں گے، اپنے اپنے سچائی کے علم کے ساتھ۔ مگر وہ لوگ بے شک انہی میں سے ہوں گے کہ جو نقصان میں ہیں۔ وہ حرکت کرتی ہوئی اور بولتی ہوئی تصویر بنوائیں گے اور الٹ دئیے گئے قانون کے خلاف پورے غیظ و غضب میں بات کریں گے، مگر چوں کہ ہر طرح کی تصویر حرام ہے، اور ایک حرام قانون کی مخالفت کے واسطے وہ دوسری حرام شے کا سہارا لیں گے تو اس کی نحوست ان پر پڑے گی اور ان کا داﺅ الٹ جائے گا۔ انہی پر جا پڑے گا۔ اور پھر وہ اپنی بات کی وضاحت کے واسطے کاغذ قلم کا سہارا لینے پر مجبور ہوں گے اور دنیا ان کے حال سے سبق سیکھے گی۔

اور تم سب جان لو کہ تولنا وہی اچھا ہے کہ جو بولنے سے پہلے ہو اور جب زوال قریب آ جائے گا تو لوگ بولنا پہلے شروع کر دیں گے اور تولنا بہت بعد میں، اتنا بعد کہ جب پرندے کھیتیاں صاف کر چکے ہوں گے۔

پس نوشت؛محمدی بیگم کی نظم \”اصلی انسانی زیور\” ملاحظہ کیجیے کہ جو بہشتی زیور میں ان کے نام کے بغیر شامل ہے۔ اس عقدہ کشائی کے لیے ہم سی ایم نعیم صاحب کے شکر گزار ہیں۔

ایک لڑکی نے یہ پوچھا اپنی اماں جان سے
آپ زیور کی کریں تعریف مجھ انجان سے
کون سے زیور ہیں اچھے یہ جتا دیجیئے مجھے
اور جو بدزیب ہیں وہ بھی بتا دیجیئے مجھے
تاکہ اچھے اور برے میں مجھ کو بھی ہو امتیاز
اور مجھ پر آپ کی برکت سے کھل جائے یہ راز
یوں کہا ماں نے محبت سے کہ اے بیٹی مری
گوش دل سے بات سن لو زیوروں کی تم ذری
سیم و زر کے زیوروں کو لوگ کہتے ہیں بھلا
پر نہ میری جان ہونا تم کبھی ان پر فدا
سونے چاندی کی چمک بس دیکھنے کی بات ہے
چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے
تم کو لازم ہے کرو مرغوب ایسے زیورات
دین و دنیا کی بھلائی جس سے اے جاں آئے ہاتھ
سر پہ جھومر عقل کا رکھنا تم اے بیٹی مدام
چلتے ہیں جسکے ذریعہ سے ہی سب انساں کے کام
بالیاں ہوں کان میں اے جان گوش ہوش کی
اور نصیحت لاکھ تیرے جھومکوں میں ہو بھری
اور آویزے نصائح ہوں کہ دل آویز ہوں
گر کرے ان پر عمل تیرے نصیبے تیز ہوں
کان کے پتے دیا کرتے ہیں کانوں کو عذاب
کان میں رکھو نصیحت دیں جو اوراق کتاب
اور زیور گر گلے کے کچھ تجھے درکارہوں
نیکیاں پیاری مری تیرے گلے کا ہار ہوں
قوت بازو کا حاصل تجھ کو بازو بند ہو
کامیابی سے سدا تو خرم و خر سند ہو
ہیں جو سب بازو کے زیور سب کے سب بیکار ہیں
ہمتیں بازو کی اے بیٹی تری درکار ہیں
ہاتھ کے زیور سے پیاری دستکاری خوب ہے
دستکاری وہ ہنر ہے سب کو جو مرغوب ہے
کیا کروگی اے مری جاں زیور خلخال کو
پھینک دینا چاہیئے بیٹی بس اس جنجال کو
سب سے اچھا پاو¿ں کا زیور یہ ہے نور بصر
تم رہو ثابت قدم ہر وقت راہ نیک پر
سیم و زر کا پاوں میں زیور نہ ہو تو ڈر نہیں
راستی سے پاوں پھسلے گر نہ میری جاں کہیں

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments