ساحر لودھی کی دانش گردی


کیا آپ نے کبھی لفظ ” دانش گردی “ سنا ہے؟ اپنی زندگی میں کہیں آپ نے کسی” دانش گرد“ کو دیکھا ہے؟آپ شائد یہ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھ پر جہالت کا کوئی دورہ پڑا ہے جس کی وجہ سے میں اول فول بک رہا ہوں لیکن یقین کیجئے خاکسار بقائمی ہوش و حواس اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ میں نے لفظ ” دانش گرد “ ہی لکھا ہے۔  شائد آپ کو یاد ہو کہ جب سینما زندہ تھا تو پنجاب پولیس اپنی جیب گرم کرنے کے لئے یا کارروائی ڈالنے کے لئے رات گئے فلم دیکھ کر واپس لوٹنے والوں کو آوارہ گردی کے الزام میں دھر لیتی تھی ، کچھ لوگ پولیس کے اس فعل کو پولیس گردی کا نام بھی دیتے ہیں۔  پھر ہمارے کرتوتوں نے ہمیں یہ دن بھی دکھائے کہ یہی پولیس دہشت گردی کا نشانہ بنی لیکن پھر بھی شیر جوانوں نے پولیس گردی سے توبہ نہ کی۔ پھر ہم نے تھوڑی ترقی کی ،شعور کی چند منازل طے کیں اور جب ایک آمر کو سیلوٹ مار نے کے بعد گھسیٹ گھساٹ کر ایوان صدر سے نکالا (جسے اب کمر درد کے علاج کے لئے دبئی کے ایک گھریلو ہسپتال میں داخل کروایا جا چکا ہے ) تو اس کامیابی کے جشن میں وکلا گردی کو متعارف کرایا گیا۔ الحمد اللہ ! آج ہم علم و عمل کی ایسی ایسی منازل طے کر چکے ہیں کہ ” دانش گردی “ میں بھی خود کفیل ہو گئے ہیں۔  آپ نے اگر کوئی دانش گرد نہیں دیکھا تو پاکستان میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے ٹیلی ویژن چینلز کی رمضان نشریات دیکھئے ،اکثر و بیشتر آپ کو اسی قسم کی مخلوق سے پالا پڑے گا۔ان نشریات کے ہر پروگرام کے نام کے ساتھ ”رمضان “کا سابقہ لاحقہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن چند منٹ دیکھنے کے بعد ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان پروگرامز کے مواد کی رمضان کے فلسفے سے دورکی بھی رشتہ داری نہیں۔

دو تین دن پہلے ایک دوست نے ایک ویڈیو پیغام بھیجا جس میں ایک مشہور و معروف اداکار، میزبان، ماڈل اور معلوم نہیں کن کن خوبیوں کامالک ایک دل کُش (کاف کے اوپر پیش ہی پڑھا جائے ) شخص ایک نوجوان لڑکی کو بھاشن دے رہا تھا۔ سچی بات ہے ویڈیو دیکھنے کے بعد میرے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔  یہ ویڈیو مسلسل میرے دماغ پر ہتھوڑے برساتی رہی لیکن میں اسے نظرا نداز کرتا رہا۔ معاملہ یہ تھا کہ ایک نجی ٹیلی ویژن پر رمضان نشریات کے دوران ایک نوجوان لڑکی کو تقریر کے لئے مدعو کیا گیا۔  اس بدقسمت لڑکی کی شامت کہ اس نے خواتین کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا نوحہ پڑھتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ بانی پاکستان کو ان الفاظ میں پکارا۔

چور لٹیرے قاتل سارے شہر کے چوکیدار ہوئے ہیں

حرس و ہوس کے متوالے بھی دھرتی کے حقدار ہوئے ہیں

کوئی نہیں یہ دیکھنے والا کوئی نہیں یہ پوچھنے والا

کن ہاتھوں میں سونپ گئے تم جان سے پیارا پاکستان

قائد اعظم آؤ ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان۔

بس یہی وہ لمحہ تھا جب پروگرام کے میزبان” مصلح “کی ”رگِ دانش“ پھڑکی اور انہوں نے میزبانی کی تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ محترم دانش گرد کا موقف تھا کہ لڑکی نے بانی پاکستان قائد اعظم کی شان میں گستاخی کی ہے جو ہرگز قابل برداشت نہیں، ذرا ان کے الفاظ ملاحظہ کیجئے جو میں ہو بہونقل کررہا ہوں۔  ”آپ کو یہ ہمت کیسے ہوئی کہ آپ نے قائد اعظم کو للکارا ہے کہ وہ آکر اپنے پاکستان کو دیکھیں؟ آپ میں سے کس میں اتنی ہمت ہے کہ جس شخص نے آپ کو پاکستان بنا کر دیا ، جس نے لاکھوں لوگ شہید کروائے، جب پاکستان بن گیا تو آپ اس کو للکار رہے ہیں۔  “

قارئین ،یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اس قدر پھیلی کہ اب تک آپ بھی اس کو دیکھ چکے ہوں گے۔  اب بتائیے میں موصوف کو ”دانش گرد “نہ کہوں تو کیا کہوں ؟معمولی سوجھ بوجھ والا آدمی بھی یہ شعور رکھتا ہے کہ تقریر کرنے والی لڑکی نے پاکستان کو درپیش مصائب کا نوحہ پڑھتے ہوئے بانی پاکستان کے ساتھ اپنا دکھ بانٹنے کی کوشش کی ہے۔  لیکن پروگرام کے میزبان جو اپنی اسی طرح کی حرکتوں کے سبب ایک رجسٹرڈ دانش گرد کا رتبہ پا چکے ہیں ان کے دماغ پرشائد صرف ریٹنگ سوار تھی، سو جوش خطابت میں منہ سے جھاگ اڑاتے دانش گرد کو یہ بھی خیال نہ رہا کہ تقسیم برصغیر کے ہنگام جو لاکھوں افراد شہید ہوئے اس میں قائد اعظم کا کردار ایک فیصد بھی نہیں تھا بلکہ یہ ہندو قیادت تھی جس نے اس خطے میں سیاسی الاؤ اس قدر بھڑکا دیا کہ پاکستان میں بسنے والے غیر مسلموں اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے اور پھر ہجرت کے ہنگام جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔  اور یہ ”مربوط“ تاریخ دونوں ملکوں کے سکولوں میں انسان کے بچوں کو ابتدائے عمر میں ہی رٹا دی جاتی ہے۔  اب معلوم نہیں محترم دانش گرد نے کس سکول سے تعلیم پائی ہے جس کے نصاب میں لاکھوں شہادتوں کا ثواب بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی روح کو ایصال کیا گیا ہے۔  بہرحال قائداعظم کے ساتھ اپنی بے پایاں محبت کا اظہار کرتے ہوئے دانش گرد کی درجہ چہارم کی اداکاری کمال تھی جس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی ، شائد یہی اداکاری ہے جس کی وجہ سے وہ اب تک ٹی وی کی سکرین پر موجود ہیں۔

ذرا تصور کیجئے اس چینل کے ادارتی بورڈ کا (خوش قسمتی سے اگر اس کا کوئی وجود ہے) کہ اس میں کیسے کیسے عالم فاضل موجود ہوں گے۔  ما شا اللہ !سبحان اللہ !اس قوم پر یہ وقت بھی آنا تھا ، چند قیمتی چہروں پر لاکھوں کا سر خی پاؤڈر لگا کر ٹیلی ویژن سکرین پر خوبصورت جلوے دکھانے کا اہتمام کرنے والوں کو اس بات کا خیال تک نہیں آیا کہ ریٹنگ کے ریموٹ سے چلنے والے ان گوشت پوست کے روبوٹس کے دماغ میں کوئی ایسا آلہ نصب کردیتے جو ان کو ”پکار“ اور ”للکار“ کا فرق تو سمجھا دیتا۔

 کہتے ہیں عذر گناہ بدتر از گناہ ، میں اس موضو ع پر لکھنے سے گریز کر رہا تھا لیکن مذکورہ دانش گرد نے اگلے دن کمال ڈھٹائی سے اپنے اس پروگرام میں فرمایا کہ جذبات کی رو میں میرا لہجہ تلخ ہوگیا تھا جس کی میں نے معافی بھی مانگی تھی لیکن سوشل میڈیا پر اسے دکھایا نہیں گیا۔ یعنی محترم ” دانش گرد“ اتنے معصوم ہیں کہ غالب نے شائد ان کے لئے ہی فرمایا تھا۔۔۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

 معلوم نہیں موصوف اب پیمرا کو کیا جواب دیتے ہیں کیونکہ اس بات کا تو مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی اگلے دن کے پروگرام میں دی گئی وضاحت تو پیمرا کی بدھی میں نہیں سمائے گی ، اگر ایسا ہوتا تو پیمرا اس دانش گردی کا نوٹس ہی کیوں لیتی۔ جن کی کھوپڑی میں اللہ کا دیا کچھ بھی ہے وہ محترم دانش گرد کی اس صفائی پر کان دھرنے کو بالکل بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ بڑی معصومیت کے ساتھ انہوں نے اس سارے معاملے کو” جذباتی ہو گیا تھا “میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے جو ظاہر ہے کامیاب نہیں ہو سکتی۔  لیکن اس دانش گردی سے بچنے کا کوئی طریقہ آپ کے دماغ میں ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا، خاکسار آپ کا شکر گزار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).