ریاض سمٹ کیسے ‘خلاص’ ہوا؟


سعودی یاتر ا سماپت ہوئی تو واپسی پر وجاہت مسعود صاحب فون پر تھے، انہوں نے ریاض سمٹ کے بارے میں استفسار کیا: اور کیا دیکھا وہاں؟ عرض کی حضور! جو دیکھا، لکھ دیا۔ جو نہیں لکھا وہ فلم ‘دی ڈکٹیٹر’ کا ‘سیکئول ‘تھا۔بلکہ بسا اوقات تو لگا ہم فلم کے  سیٹ پر ہی موجود ہیں۔ کہنے لگے تو بھیا! وہ بھی لکھ دو ناں! اب موصوف اس قدر معصومیت اور اپنائیت سے حکم  صادر فرماتے ہیں  کہ خاکسار’انکاری ‘ہونے سے قاصر رہتا ہے۔ لہذا لکھ رہے ہیں۔۔!

مدعا ‘یک سطری’ تھا:یعنی پچپن اسلامی ممالک بشمول امریکہ پر مبنی بظاہر سنجیدہ نوعیت کے اس سمٹ میں معلومات کا فقدان۔

سمٹ کے فرنٹ ڈیسک پر براجمان عملے سے پوچھا کہ سمٹ کب شروع ہو رہا ہے؟  کون کون تقریر کرے گا؟

جواب ملا: سوری برادر، وی دونت ناو اینی تھنگ۔رونگ پلیس!

دوبارہ انداز اور سوال بدل کر یہی پوچھنے کی کوشش کی۔

جواب ملا: یو کین چیک آن دی انترنیت۔

پوچھا: انٹرنیٹ کی سہولت کہاں دستیاب ہوگی؟

جواب ملا: سوری وی دونت ناو! یو کین آسک دی سکیورتی ! خلاص!

دھمکی آمیز لہجے میں لفظ ‘خلاص’ سنا تو گمان گزرا  جیسےایڈمرل جنرل الہ دین سکیورٹی  سے اشارتاً کہہ رہے ہوں: ‘خلاص’۔۔!  یکدم گھبراہٹ تو ضرو ر ہوئی لیکن شاہ عبدالعزیز کنونشن سنٹر کی محل نما عمارت نے فوراً ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ جا بجا راہداریاں ، طویل قامت فانوس، گولڈن فرنیچر، ریڈ کارپٹ اوربیٹھنے کیلئے دیدہ زیب اور سکون دہ  لابیاں  ہماری منتظر تھیں ۔ ان لابیوں میں رائل فیملی اور امرا کے نوجوان بچے، ہاتھوں میں تسبیح اور ‘گولڈن آئی فون ‘تھامے مخصوص ‘عود’ لگائے بیٹھے تھے۔ قبلہ ٹرمپ کی تقریر سننے کیلئے ایک ٹی وی سیٹ کے قریب بیٹھنے کی کوشش کی تو اجازت نہ مل سکی۔ ہوا یوں کہ اُس لابی میں چار صوفے تھے، ہر صوفے پر دو دو عربی حضرات ‘غُترہ’ باندھے براجمان تھے، ایک صوفے پر البتہ صرف ایک ہی شیخ صاحب ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے۔

ان سے گزارش کی کہ یا شیخ! کیا ہم یہاں آپ کیساتھ بیٹھنے کی جسارت کر سکتے ہیں؟

جواب ملا: سوری برادر۔ یُو  َکانت سِت ہییر۔۔!

پوچھا:  لیکن صوفہ تو خالی ہے، کیا کوئی یہاں بیٹھا ہے؟

جواب ملا: یس! یو کین سی مائی ‘آئی فون’ اِز ستنگ وِد می۔ خلاص۔۔!

موصوف نے بائیں ہاتھ سے چٹکی بجاتے ہوئے ‘خلاص ‘ کہا ہی تھا کہ ہم توازن کھو بیٹھے، قریب کھڑے ایک اور انسان نما مخلوق پر گرنے ہی لگے تھے کہ ہاتھ سائیڈ ٹیبل پر پڑ گئے۔ یوں لگا جیسے ریپبلک آف ‘ودایا’  کے ایڈمرل جنرل  الہ دین نےہمیں دیکھتے ہی گردن اڑانے کا مخصوص اشارہ دیتے ہوئے انکل ‘تامیر’ کو حکم دیا ہو کہ : خلاص۔۔!  بہر حال قدرے  ہوش سنبھلا  تو اپنا سا منہ لے کر ہم دوسری نکڑ میں جا بیٹھے۔ سوچا کوئی کمپیوٹر سسٹم مل جائے کہ وہاں ہیڈ فون لگا کر آن لائن کوئی انگریزی چینل دیکھ لیتے ہیں۔ اسی غرض سے فرنٹ ڈیسک کی ہدایت پر سیکورٹی گارڈز سے میڈیا روم کا پوچھا۔ بھلا ہو اس رحمدل افسر کا کہ اس نے اشارے سے ہمیں ‘سجے کھبے’ کی سمت سمجھا دی اور ہم بلاخر ایک سسٹم پر جا بیٹھے۔ سسٹم چالو کیا تو سکرین نے پاس ورڈ مانگ لیا۔ ساتھ بیٹھے دبئی ٹی وی کے رپورٹر سے پوچھا کہ بھائی کچھ ‘ہیلپ’ کیجئے۔ وہ بولے کہ آپ فرنٹ ڈیسک سے رابطہ کریں، اپنا سسٹم نمبر لکھ کر لے جائیں وہ آپ کو پاس ورڈ فراہم کر دیں گے۔  فرنٹ ڈیسک سے پہلے ہی جواب مل چکا تھا، ہم نے بہر حال ہمت نہ ہاری اور دوبارہ فرنٹ ڈیسک کی خدمت میں جا پہنچے۔

 عرض کیا: جناب یہ ہمارا سسٹم نمبر ہے، پاس ورڈ عنایت کیجئے۔

وہاں بیٹھی اکلوتی خاتون نے جواب دیا: سوری  ہی اِز نات ہیر رائت ناو۔

 پوچھا : کون؟

جواب ملا: دا پاس ورد پرسن!

 پوچھا: لیکن پاسورڈ والا صفحہ تو آپ کے پاس نہیں پڑا؟  اسے دیکھ کر ہمیں پاسورڈ دے دیجئے پلیز!

جواب ملا: سوری آئی کانت۔۔۔!خلاص۔۔!

 ان محترمہ کے منہ سے خلاص سنا تو ہمیں بے اختیار ‘الہ دین ورجن گرلز سکوائڈ ہیڈ’ یاد آگئیں۔واپسی میں ہی عافیت جانی۔ بھلا ہو دبئی ٹی وی کے پترکار کا جنہوں نے بلاخر ہمیں پاس ورڈ دلایا۔

 اپنے ٹی وی چینل کو لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹس فراہم کرتے کرتے ہمارا موبائل فون ‘خلاص’ تر ہونے کے قریب تھا۔ لابی میں واپس جا کر ایک کونے میں چارجر لگایا ہی تھا  کہ  کسی نے ہمیں کندھے سے پکڑ کر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ پلٹ کر دیکھا تو وہی صاحب تھے جن کا  گولڈن آئی فون ان کیساتھ صوفے پر براجمان تھا۔

عرض کی کہ یا شیخ: ہون کی ہویا اے؟

 جواب ملا: بی کوز  آئی ایم چارجنگ مائی فون ۔

عرض کی : لیکن یہ ‘پورٹ’ تو خالی ہے۔ اس لئے ہم یہاں موبائل چارج کرنا چاہتے ہیں۔

جواب ملا: نو! سوری  برادر۔ اِت بیلونگ تو می! یو کانت چارج  ہییر!

ہم نے مزید بحث کی کوشش کی، تو موصوف نے چٹکی بجا کر ‘خلاص’ خلاص’ کی گردان  ‘رپیٹ’ پر لگا دی۔ ترک وزیر خارجہ کے ہمراہ آئے عملے کے ایک  خدا ترس برادر نے ہمیں وہاں سے نکالا اور اپنے ہاں جا ئے پناہ دی۔ تعارف ہوا تو موصوف نےہمیں ‘یک سطری’ انگریزی میں سمجھایا کہ ملنگ صاحب! ایہناں نال پنگا نیں لینا۔۔! تواڈی مہربانی!

سمٹ کے دوران ہم اکثر ویلے بیٹھے رہے، چائے پانی  اور کھابے کا البتہ وافر انتظام تھا، حتی کہ  سگریٹ پینے کی اجازت بھی تھی۔ شیوخ سفید چپلیں پہنے،ٹانگیں پھیلائے، کبھی آئی فون استعمال کرتے تو کبھی دائیں ہاتھ سے چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں خوشبودار قہوہ نوش کرتے، اس دوران یہ حضرات گاہے بگاہے گولڈن ‘سگریٹ کیس’ سے سگریٹ نکالتے، گولڈن ‘زِپو’ لائٹر سے سلگاتے اور گولڈن ‘ایش ٹرے ‘ میں دو چار کش لگا کر بجھا دیتے۔ علاوہ ازیں ان حضرات کی گولڈن شاور والے واش روم جانے کی فریکوئنسی ‘ریپبلک آف وِدایا’ میں ہوئے اولمپکس گیمز  کے ‘سو میٹر سپرنٹر’ کی مانند تھی۔  بوریت کا احساس ہوا تو سوچا باہر نکل کر تازہ ہوا کھا لیں۔ چاروں جانب سخت سکیورٹی تھی۔ بلیک یونیفارم میں رائل گارڈز عمارت کے پہلے حصار پر تعینات تھے۔ عقب میں مشہور ‘رٹز کارلٹن’ ہوٹل تھا جہاں قبلہ ٹرمپ قیام پذیر تھے۔ ٹائی ڈھیلی کی، جیب سے سگریٹ نکالی، لمبا سا کش ابھی ناک میں ہی تھا کہ ایک ہٹا کٹا مگر ڈھیلا ڈھالا رائل گارڈ ہماری جانب آن لپکا۔ کہا: ایکس کیوز می! یو کانت سموک ہییر۔

پوچھا: اندر پی رہے تھے، باہر بھی پی رہے ہیں۔ کیا مسئلہ ہے بھائی؟

جواب ملا: آدر اِز آدر۔ یو کانت سموک ! گو انسائد! خلاص!

ہم سے رہا نہ  گیا، کہا: کی خلاص خلاص لائی اے ماما۔۔! پراں ویکھ دو گارڈز  وی سگریٹ پی رے نیں۔

موصوف نے فوری  وائرلیس کے ذریعے کسی کو غصیلےانداز میں پیغام دیا، ہم سمجھ گئے کہ اب خیر نہیں، لہذا فوری خلاص خلاص کرتے اندر جا دوڑے۔ ایک پورا دن تقریبا ایسے ہی گزرا۔سر شام تو اخیر ہی ہو گئی۔ ہوا یوں کہ سمٹ ختم ہو گیا، لیڈرز چلتے بنے۔ باہر نکل کر ہم’ پینوراما’ کی آپشن’ آن’ فرما کر تصویرکشی کا شغل فرما نے لگے۔ بس کا انتظار طویل ہو گیا تو پاس کھڑے مقامی سعودی شیوخ اور سکیورٹی اہلکاروں سے ہیلو ہائے ہو گئی۔اس دوران  سگریٹ کے طویل کش تھے اور میزبانوں کی’ کرم فرمائیاں’ زیر بحث رہیں۔  اچانک ایک اورگولڈن آئی فون والے عربی نے ہم سے پوچھا کونسا سگریٹ پیتے ہو؟ جواب دیا مارلبرو لائٹ۔ کہنے لگے، ہمیں بھی پلائیے کہ معلوم ہو آپ کے ہاں مارلبرو  کیسا ہے۔ بیڑہ غرق ہو لاہور کے ہمارے مقامی سگریٹ فروش ‘ساحل’  کا کہ جس نے نا جانے کیوں ہماری تھیلی میں مارلبرو لائٹ ایمپورٹڈ تو رکھا ہی ساتھ ایک ڈبی مارلبرو لائٹ فارسی بھی رکھ دی۔ ہم نے فوری بیگ کھولا، ایک سگریٹ پیش کرنے کی بجائے سوچا پوری ڈبی ہی تحفتاً پیش کئے دیتے ہیں۔ شو مئی قسمت! غلطی سے ہاتھ لگنے والی ڈبی مارلبرو لائٹ فارسی ہی تھی۔ ( اس ڈبیا پر جلی حروف میں فارسی زبان میں تمباکو نوشی کے نقصانات درج ہوتے ہیں۔)ہم نے  عقیدتاً   گولڈن آئی فون والے بھائی کو پیش کر دی۔

  ڈبیا تھامتے ہی جیسے حضرت شیخ کے تن من میں بجلی دوڑ گئی۔ ڈبی نیچے پٹخ دی یا گر گئی۔ معلوم نہیں۔

پوچھا: یا شیخ کی ہویا؟

جواب میں انہوں نے پوچھا: آر یو فرام ۔۔۔ایران؟

ہم محض یہی کہہ سکے: او کے۔۔اوکے! پلیز۔۔ خلاص۔ خلاص۔خلاص۔۔!

(نوٹ: فقط وہی قارئین کالم پڑھنے کی زحمت فرمائیں جو دو ہزار بارہ میں بنی فلم ‘دی ڈکٹیٹر’ دیکھ چکے ہیں۔ شکریہ )

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami