ہماری کرکٹ ٹیم تھرڈ کلاس تو نہیں ہے


کرکٹ کبھی ہمارا جنون ہوتا تھا۔ جون جولائی کی دوپہروں میں روزہ رکھ کر ہم کرکٹ کھیلا کرتے۔ کھلاڑیوں کی پرفارمنس کے اعدادوشمار زبانی یاد ہوا کرتے تھے۔ پاکستان ٹی ٹوینٹی کا جو فائنل بھارت سے ہارا تھا وہ دیکھا تھا۔ اس کے بعد جب فائنل ہم جیتے تھے ٹی ٹوینٹی کا تو وہ یاد ہے۔ اس کے علاوہ کوئی میچ کم ہی دیکھا۔

ہماری ٹیم پھر بھارت سے ہار گئی۔ لمبے مارجن سے ہاری ہے۔ میچ دیکھے بغیر یہ سن سنا کر ہی پتہ ہے۔

یورپ کے چین کے کئی دوست ہیں جنہیں کرکٹ کے ک کا نہیں پتہ۔ دوستی کیسے بناتے ہیں یہ انہیں معلوم ہے۔ وہ اپنے تعلق کو دوستی میں بدلنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ہماری خوشی غمی سے آگاہ رہتے ہیں۔ پاکستان کی ہار پر ان کے اظہار افسوس کے میسج آئے ہیں۔ یہ البتہ انہیں اب بھی نہیں پتہ کہ کرکٹ میں کتنے گول کریں تو جیتا جا سکتا۔ پر تعلق ہے نبھانا ہے اس رمضان پر ایک چینی دوست نے عید مبارک کا پیغام بھی بھیجا۔ یہ سب لوگ ہم پاکستانیوں کے نزدیک آنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ ہمیں جان رہے ہیں ہماری عادتیں کیا ہیں یہ سیکھ رہے ہیں۔

آج کل چین یورپ اور امریکہ کے ساتھ دلچسپ مذاکرات کر رہا ہے۔ ان مذاکرات بارے ایک خبر پڑھی تھی۔ مذاکرات مشترکہ سٹینڈرڈ مقرر کرنے پر ہو رہے ہیں۔ یہ طے کرنا چاہا جا رہا کہ اشیا کا ایک معیار مقرر کر لیا جائے۔ اس کی ایک مثال ایسے سمجھیں کہ اگر ہزار سی سی کی گاڑی ہے تو اس کے انجن کی مختلف پرفارمنس پر سمجھوتہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی ہزار سی سی گاڑی کے مختلف پرزوں کی کم از کم پرفارمنس کیا ہونی چاہیے۔ یہ ایک دلچسپ رپورٹ تھی اس پر ہونے والی بحث بھی پڑھنے لائق تھی۔

معیار ایک طے شدہ بات ہوتی کوالٹی کلاس اس معیار کے بعد کی باتیں ہیں۔

واپس کرکٹ پر آتے ہیں ہماری ٹیم کا معیار ہی طے شدہ نہیں ہے۔ کوئی کرکٹ ماہر یقین سے نہیں بتا سکتا کہ ہماری ٹیم دوسری بیٹنگ کرتے ہوئے کتنے سکور کا ٹارگٹ لازمی حاصل کر لے گی۔ ایک برا دن یا کچھ ہفتوں کا برا دور ہر ٹیم پر آ جاتا ہے آ سکتا ہے۔ لیکن ایک کم از کم معیار برقرار رہتا ہے۔ ہماری ٹیم کے کتنے فاسٹ بالر اپنی ایوریج رفتار سے دس اوور کرا سکتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنا آخری اوور کراتے ہوئے اپنے معیار کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

ہماری فیلڈنگ ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کھلاڑی کھیل کی ابتدائی جانکاری گلی محلوں میں کھیل کر حاصل کرتے ہیں۔ گلیوں میں کھیلتے ہوئے ڈائیو مار کے بال کو روکنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی عادت لے کر وہ گراؤنڈ پہنچتے ہیں۔

بیٹنگ کے حوالے سے غیر ملکی ماہرین نے نشاندہی کی ہمارے بیٹسمین میچیور نہیں ہوتے۔ جو پختگی غیر ملکی کھلاڑیوں میں بیس بائیس سال کی عمر میں پائی جاتی ہے وہ پاکستانی کھلاڑیوں میں تیس سال سے پہلے دیکھنے میں نہیں آتی۔ ہمارے کرکٹ بورڈ نے بڑی عمر کے بیٹسمینوں کو کھلانے کا تجربہ کیا تو وہ اس لیے بھی ناکام رہا کہ پختگی اگر موجود بھی تھی تو غلط تکنیک بھی پختہ ہو چکی تھی۔

ہمیں اب لوٹ کر اپنے مقامی میدانوں میں واپس آنا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سپورٹس یونیورسٹی بھی نہیں ہے، خیر۔ ہم پھر بھی ماہرین کو اکٹھا کر سکتے ہیں انہیں بٹھا کر ایک پروگرام فائنل کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے مقامی ڈھانچے کو ترقی دینی ہے اس کو عالمی معیار کے مطابق لانا ہے۔

ہمارے سامنے ایک مثال موجود ہے ساؤتھ افریقہ کی۔ دہائیوں تک اس ملک پر کھیلوں کے دروازے بند رکھے گئے۔ جب پابندیاں ہٹیں تو ساؤتھ افریقہ کئی کھیلوں میں پہلے نمبروں پر کھڑا پایا گیا۔ پابندی کے اس دور میں بھی وہاں کھیلوں کا نظام عالمی معیار کے مطابق چلایا گیا۔

ہمیں اس وقت اپنے کھیلوں کو مقامی سطح پر عالمی معیار کے مطابق لانا ہے۔ کلاس معیار سے بہت آگے کی بات ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم تھرڈ کلاس تو نہیں ہے۔  ہماری کرکٹ ٹیم اس وقت تھرڈ کلاس بھی نہیں ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi