پیروں کی بے قدری کا بدنصیب زمانہ


آج صبح جب اخبار دیکھنا شروع کیا تو ایک اشتہار پر نظر پڑی۔ ایک انتہائی جلیل القدر پیر صاحب نے سپریم کورٹ کے ایک معمولی سی روحانیت کے حامل کے جج کے نام ایک معافی نامہ شائع کروایا تھا۔ دیکھ کر آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور گلا رندھ گیا۔ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ مشائخ کرام کی کوئی عزت ہی باقی نہیں رہی۔ ذرا ذرا سی بات پر ان کو رگیدا جاتا ہے اور ان کی بھد اڑائی جاتی ہے۔ کیا ہوا جو صاحبزادہ صاحب نے ذرا سی چھیڑ خانی کرلی۔ اب جن کی خاطر اپنی زندگی تیاگی ہوئی ہے یعنی یہ امہ، اب ان کے ساتھ ذرا سی دل لگی بھی نہں ہو سکتی۔ بجائے اس کے کہ محترم جج صاحب خوش ہوتے کہ صاحبزادہ صاحب نے روحانی دل لگی کے لئے انہیں منتخب کیا ہے جناب نے فوراً ایک ایف آئی آر ٹھوک دی اور حضرت صاحب کو حوالات میں بند کروا دیا۔

جج صاحب کو وہ دن یاد نہیں آئے کہ جب پیر صاحبان کسی گاؤں میں جاتے اور کسی کے گھر میں جا کر اس کو یہ اعزاز بخشتے کہ اس کے گھر والوں میں کسی پر شب بھر تجلی کی بارش کی جائے گی تو وہ سادہ دل متعقد اسے اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی کی دلیل سمجھتا تھا۔ بلکہ پاکستان کے اکثر علاقوں میں تو اب بھی یہی حالات ہے۔ مشائخ اور پیرانِ کرام کے ایک اشارے پر جان چھڑکی جاتی ہے نوٹ لٹائے جاتے ہیں اور عزت داؤ پر لگائی جاتی ہے مگر شہروں میں آ کر اور کچھ فالتو پڑھ لکھ کر لوگ اپنی روایات اور اقدار کو بھول جاتے ہیں اور ان بزرگوں کی پگڑیاں اچھالنے لگتے ہیں

جج صاحب شکر کریں پیر صاحب کو جلال نہیں آ گیا ورنہ مؤکلوں کے ذریعے جلا کر بھسم کر دیتے اور جج صاحب کو خبر بھی نہ ہوتی مگر پیر صاحب نے خود پر قابو پانے کی بے نظیر مثال قائم کردی اور کس کی مجال تھی کہ صاحبزادہ صاحب کو حوالات میں اتنے دن رکھتا۔ وہ جب چاہتے دروازے پر ایک پھونک مارتے اور سارے در و بام پٹاپٹ کھل جاتے مگر عام لوگوں کو قانون کی پاس داری کا درس دینا مقصود تھا اس لئے دونوں یعنی والد اور بیٹا اپنی طاقتوں کے اظہار سے باز رہے اور یہ بھی خیال تھا کہ اسی بہانے چند خیراتی اداروں کی مدد بھی ہو جائے گی۔ اگر جج صاحب کو یہ غلط فہمی ہے کہ انہوں نے پیر صاحب کو کوئی معاشی زک پہنچائی ہے تو خاطر جمع رکھیں جن عقیت مندوں نے صاحبزادہ صاحب کی شادی پر ایک ارب پھونک ڈالا وہ پانچ دس لاکھ کو کس خاطر میں لاتے ہیں۔

ویسے یہ خبر پڑھ کر ایک بات تو پر یقین آ گیا کہ یہ کل یگ اور بد عقیدگی کا دور ہے۔ ورنہ ایک دور تھا ہمارے مشائخ کرام عالمی کابینہ میں بیٹھ کر دینا کی قسمت کے فیصلے کیا کرتے تھے اور افراد و اقوام کی قسمتیں بنایا کرتے تھے۔ حکمرانوں کو خطوط لکھ کر انہیں گائیڈ کرتے تھے۔ اگر کسی بدخواہ کو ہماری باتوں کا یقین نہیں تو ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کے چند دوسرے لکھاریوں کی کتابیں پڑھ لے خود ہی یقین آ جائے گا۔ اور یہ تو چند ہی سال پرانی بات ہے کہ جب ہمارے وزرائے اعظم ایک پیر صاحب سے چھڑیاں کھانے کے شوق میں کوہ پیمائی کرتے تھے اور ہمارے ایک صدر صاحب پورا ایک مہینہ ایوانِ صدر چھوڑ کر کراچی میں میں تشریف فرما رہے تھے کیونکہ ان کے پیر صاحب کا حکم تھاکہ یہ مہینہ سمندر کے پاس گزارا جائے اور ایک یہ دور ہے کہ جب بزرگانِ دین کی یہ قدر رہ گئی کہ عالمی کابینہ میں جگہ ملنا تو درکنار حوالاتوں میں راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔ اور وہ بھی محض چند خوش فعلیوں کے نتیجے میں۔ کوئی بات نہیں جج صاحب یاد رکھیں کہ ہیلی کاپٹر تو ہماری جوتیوں کی پہنچ سے ذرا سے اوپر ہوتے ہیں مگر روحانیت سے بیگانہ افراد کی گاڑیاں تو سڑکوں پر چلتی ہیں۔ کسی دن جوتیوں کے میزائلوں سے اڑا کر رکھ دیں گے۔ دیکھ لینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).