فروٹ بائیکاٹ مہم کی ناکامیوں اور کامیابیوں کا تجزیہ


فروٹ بائیکاٹ مہم ان معنوں میں کامیاب رہی ہے کہ اس سے قیمتیں مختصر مدت کے لئے کم ہوئی ہیں۔ انگریزی اخبار ڈان کے مطابق چالیس سے پچاس فیصد پھلوں کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی۔

پھلوں کی قیمتوں میں کمی کا کیا سبب ہے؟ کیا ہڑتال کے دباؤ میں آ کر ٹھیلے والے پھل فروشوں نے قیمتیں کم کیں؟ ہر گز نہیں۔ وجہ یہ تھی کہ ڈیمانڈ کم ہو گئی تھی کیونکہ لوگوں نے احتجاج کے زیراثر پھل خریدنا کم کر دیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب اتنی ڈیمانڈ دوبارہ سے بحال ہو گی تب کیا ہو گا؟

رمضان المبارک میں صارفین پھلوں کا استعمال ایک مستقل پیٹرن کے مطابق نہیں کرتے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ پہلے عشرے میں صارفین پھلوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں کیونکہ استقبال رمضان کا جوش زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے عشرے میں پھلوں کا استعمال نسبتاً کم ہو جاتا ہے جبکہ آخری عشرے میں پھر بڑھ جاتا ہے کیونکہ افطار پارٹیاں بڑھ جاتی ہیں۔

بائیکاٹ سے قیمتیں کم کروانے کا رجحان صحت مند نہیں اور نہ ہی اس میں مسائل کا کوئی باقاعدہ حل ہے۔ ایک مثال سے مدد لیتے ہیں۔

عید کے دنوں میں وہ لوگ جو اپنے گھر سے دور کہیں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوتے ہیں، گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ جس کے سبب بسوں ویگنوں اور ریل گاڑیوں یہاں تک کہ ہوائی جہازوں پر مسافروں کا رش بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ ڈیمانڈ کے سبب قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اور زیادہ قیمتوں کے سبب ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی پھرتیوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو اپنے گھروں تک پہنچائیں تاکہ زیادہ نفع کمائیں۔

کیا سفر کا بائیکاٹ اس مسئلہ کا حل ہے کہ قیمتیں چونکہ بڑھ گئی ہیں اس لئے سفر نہ کیا جائے؟

ہر گز نہیں۔

عید کے دنوں میں قیمتیں اس لئے بڑھتی ہیں کہ وسائل کم ہیں جب کہ ڈیمانڈ زیادہ۔ یوں کم وسائل کو زیادہ Efficiency سے استعمال میں لانا ضروری ہے ورنہ جتنے بھی لوگ مقررہ وسائل سے زیادہ ہیں وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اب فرض کیا کہ حکومت عید کے دنوں میں قیمتیں مقرر کر دیتی ہے کہ اس سے زیادہ قیمتوں پر کرایہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ اس صورت میں چار بڑے مسائل سامنے آئیں گے۔

اول : بہت بڑی تعداد میں حکومتی مشینری کو کام میں لانا پڑے گا جو اس پالیسی پر عمل درآمد کروائے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ دیگر انتظامی معاملات جیسے امن و امان قائم رکھنا، اس پر حکومت توجہ قائم نہیں رکھ سکے گی۔ جب آپ ایک سیکٹر میں قیمتیوں کو منجمد کر دیں گے تو باقی سیکٹرز کیوں نہیں، یوں پوری معیشت میں اس کا دائرۂ کار پھیل جائے۔ اس طرح زیادہ حکومتی مشینری اور زیادہ وسائل کی ضرورت ہو گی اور ملک بیوروکریٹک ریاست بن جائے گا۔

دوم : ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی پھرتی میں کمی آ جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچایا جائے کیونکہ انہیں اس کا فائدہ ہی نہیں ہو گا۔ یاد رہے کہ معاشی سرگرمیاں انسانی ہمدردی کے تحت نہیں چلتیں معاشی فائدہ کی جستجو کے تحت چلتی ہیں۔

سوم : جب حکومت زیادہ ڈیمانڈ کے دنوں میں صارفین کا تحفظ کرے گی تو کم ڈیمانڈ کے دنوں میں بس و ویگن مالکان حکومت سے اپنی پروٹیکشن مانگیں گے کہ جی کل گاہک زیادہ تھے تو آپ نے کہا تھا کہ قیمتیں نہ بڑھاؤ کیونکہ اس میں صارفین کا نقصان ہے۔ اب سواریاں کم ہیں، ہم نقصان میں ہیں، پلیز آگے بڑھیں اور ہمیں سبسڈی فراہم کریں۔ کیا حکومتوں کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ مارکیٹ کے ہر سیکٹر کو نقصان کے دنوں میں سبسڈی فراہم کر سکے؟ جواب نہیں میں ہے۔ اس سلسلے میں ساری اکنامکس آپ کے سامنے ہے۔ منجمد قیمتوں اور سبسڈی کی معیشت کا ایک بھی کامیاب ماڈل پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ تفصیلاً سٹڈی کے لئے دور حاضر میں وینزویلا کی معیشت ایک اچھا مطالعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال ایک ملک وینزویلا ، قیمتوں کو سرکاری کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی، کم مدت کے لئے تو اچھا رسپانس ملا، جب قیمتیں کنٹرول ہوئیں تو نقصان میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی دینا پڑی اور پھر جلد ہی ساری معیشت سبسڈی پر منتقل ہو گئی۔ سبسڈی کی معیشت کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کا محرک پھر صارف نہیں رہتا بلکہ سبسڈی کی جستجو ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سبسڈی لے کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔

چہارم : کرپشن کے رجحان میں اضافہ ہو گا۔ بس و ویگن مالکان سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے کر یا سفارش سے اپنے لئے زیادہ رعایت یا سہولت طلب کریں گے۔ یوں جو رشوت و سفارش نہیں دے سکیں گے وہ نقصان میں رہیں گے اور جن کی رسائی ہو گی وہ مستفید ہوں گے۔ اس سلسلے میں ان گنت تحقیقات موجود ہیں کہ معاشی عمل میں زیادہ حکومتی مداخلت کرپشن اور rent seeking کے رجحان میں اضافہ لاتی ہے۔

ایک اور مثال سے مدد لیتے ہیں۔ عید الاضحی کے دنوں میں قربانی کے جانوروں کے نرخ بڑھ جائیں گے۔ اس صورت میں ہم کیا کریں گے؟ کیا قربانی کرنا روک دیں گے؟ اگر بالفرض حکومت نے جانوروں کی قیمت متعین کر دی تو اس میں دو بڑے مسائل آئیں گے۔

ایک یہ کہ ہر جانور اپنے کل وزن، عمر ور صحت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر جانور کی قیمت کا تعین کیسے ہو گا؟

دوم یہ کہ آپ کی پوری مویشی بانی کی صنعت تباہ ہو جائے گی کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ قربانی کے دنوں میں بڑے جانوروں کی ڈیمانڈ ہی پورے سال بڑے جانوروں کو پالنے پوسنے کا سبب ہے۔ کم قیمتیں اس رجحان و ترغیب کو کمزور کر دیں گی۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی معاشی سرگرمی کا آغاز کرنے سے پہلے یہ سوال ضرور سوچتا ہے کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا۔ اگر آپ فائدے کا گلا گھونٹ دیں گے تو معاشی سرگرمی ہی کمزور پڑ جائے گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک طرف اگر کسانوں کی آمدن میں کمی آئے گی تو دوسری طرف عید کے دنوں میں جانوروں کی قلت پیدا ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں بھی آپ وینزویلا کی مثال سے مدد لے سکتے ہیں کہ کیسے منجمد قیمتیں قلت (Shortage) کا سبب بنتی ہیں ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کی حرکت کو سمجھنا چاہیے۔ ہم عموماً زیادہ ڈیمانڈ کے دنوں میں جو قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس پر بہت فکر مند ہو جاتے ہیں مگر جب کم ڈیمانڈ کے دنوں قیمتوں میں جو کمی واقع ہوتی ہے اس پر غور نہیں کرتے سوائے اس وقت کے جب خود اس سے متاثر نہ ہو رہے ہوں۔ قیمتوں کا نظام وسائل کی بہترین تفویض کا ضامن ہے اور منجمد یا سرکاری کنٹرول میں قیمتوں کا دنیا میں ایک بھی کامیاب ماڈل نہیں جس سے ہم انسپائریشن لیں۔ ہمیں اکنامکس کو سمجھنا ہو گا اور جب بھی کوئی معاشی مسئلہ آئے ہمیں سنجیدگی اور دانشمندی سے اسے حل کرنا ہو گا۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan