کرکٹ کے میدان میں ہماری عزت کیسے بحال ہو گی


پاکستان کرکٹ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تجزیہ کار اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ تاہم پی سی بی کے نقار خانے میں کان دھرنے کا رواج نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ کے اکثر مسائل کا حل ایک طویل المدتی منصوبے میں پوشیدہ ہے لیکن بہت سے ایسے فوری اقدامات بھی ممکن ہیں جس سے حالات کے بہتر ہونے کی شنید ہو سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قلیل المدت حربے بھی آزمائے جائیں اور دوررس نتائج کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بھی وضع کی جائے۔ یہ اقدامات کیا ہو سکتے ہیں آئیے ایک ایک کر کے جائزہ لے لیتے ہیں۔

1۔ دورہ ویسٹ انڈیز اور چیمپئنز ٹرافی کے ایک میچ کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ ٹیم کا کوچنگ سٹاف یا تو منصوبہ بندی کرنے میں مکمل ناکام رہا یا پھر فیلڈ میں موجود ٹیم نے کسی منصوبے کو گھاس نہیں ڈالی۔ دونوں صورتوں میں کوچنگ سٹاف ناکام نظر آیا۔ چیف کوچ کو ٹیم کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا پر جو وقت بھی انہوں نے گزارا ہے اس میں وہ کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ فیلڈنگ کوچ مدت سے ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن اس کا کچھ بگاڑ نہیں پائے۔ اظہر محمود بالنگ کوچ کے طور پر کوئی بہت عمدہ انتخاب ثابت نہیں ہوئے۔ ہمیں اس پورے کوچنگ سٹاف کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ابلاغ کوچنگ کا بہت اہم جزو ہے اور غیر ملکی کوچ اور ٹیم کے درمیان زبان کی ایک نادیدہ دیوار موجود رہتی ہے۔ ہمیں ملکی کوچز کی ایک ٹیم تیار کرنی ہے تاہم اس ٹیم میں بڑے نام والے کھلاڑی اگر نہ ہوں تو مناسب ہو گا۔ ملکی پروفیشنل کوچ ڈھونڈیے اور انہیں کم ازکم ایک سال کے لیے مکمل مختار بنا دیں۔ سیاست سے انہیں بچانے کا طریقہ انہیں اتنا طاقتور بنانا ہے کہ کوئی ان کے خلاف بغاوت کا نہ سوچے۔

2۔ کپتانی کے لیے سرفراز ایک غیر مناسب انتخاب ہیں۔ وہ جلدی گھبرا جاتے ہیں۔ بنے بنائے پلان سے ہٹ کر سوچنا ان کے بس کی بات نظر نہیں آتی اور ان کی بدن بولی میں اعتماد اور سکون کا فقدان ہے۔ کپتان کے لیے موجودہ کھلاڑیوں میں سے شعیب ملک شاید واحد مناسب شخص ہیں لیکن ان پر بھی اندرونی سیاست کو فروغ دینے کے الزامات کا ایک انبار ہے۔ ہمیں شاید اس ضمن میں جنوبی افریقہ اور گریم سمتھ کی مثال سامنے رکھنی چاہیے اور ایک نئے مگر ذہنی طور پر مضبوط کھلاڑی کو تمام فارمیٹس میں کل وقتی کپتان مقرر کر دینا چاہیے۔ اس کا انتخاب سلیکٹرز سے زیادہ ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم کو کرنا چاہیے۔ ہمیں ایک ایسا کپتان چاہیے جو بدلتی صورت حال میں اپنی سوچ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مضبوط شخصیت، جارحانہ مزاج اور دباؤ کو ہینڈل کرنے والا یہ شخص کون ہو سکتا ہے۔ اس کا ابھی میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ایک چیک لسٹ بنا کر سلیکٹرز اور ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم ہمارے قومی سرکٹ کے کھلاڑیوں کا جائزہ لے تو کوئی تو مل ہی جائے گا۔

3۔ انضمام الحق کی شہرت ہمیشہ ایک ایسے کپتان کی رہی جو کھیل سے زیادہ مذہبی حوالوں سے انتخاب کے قائل تھے۔ مصباح کا بہت عرصے تک ٹیم میں جگہ نہ بنا پانا بھی انضمام کے تعصب کی وجہ سے تھا۔ میری ناقص رائے میں انہیں سلیکشن کمیٹی کا انچارج بنانا ایک غلط فیصلہ تھا۔ ڈومیسٹک سرکٹ میں ان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کی ٹیم سلیکشن کا معیار سب کے سامنے ہے۔ ہمیں ایک بہتر کل وقتی تنخواہ دار سلیکشن پینل درکار ہے جو ادھر ادھر اپنا کاروبار نہ کرتا پھر رہا ہو۔ اس پینل میں کم ازکم ایک تیکنیکی تجزیہ کار شامل ہونا چاہیے۔ اس پینل میں بھی بہت بڑے نام شامل نہ ہوں تو بہتر ہے۔ سلیکشن پینل کیمپس کی نگرانی کرے۔ تمام ڈومیسٹک میچز میں اپنی حاضری یقینی بنائے اور ایک مستقل ڈیٹا بیس کو مانیٹر کرے تو بہتر سلیکشن کی توقع ہے۔ جہاں اینٹی کرپشن یونٹ کھلاڑیوں پر نظر رکھتا ہے وہاں اسے سلیکٹرز پر بھی خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے

4۔ ٹیم کا بھی ایک جائزہ لے لیتے ہیں۔ بہت سے کھلاڑیوں کو بہت سے مواقع دیے گئے ہیں لیکن ان کی کارکردگی کا گراف کسی طور بہتر نہیں ہو سکا۔ بار بار ایسے کھلاڑیوں کو آزمانا صرف نئے خون کی حق تلفی کے زمرے میں آئے گا۔ بالنگ میں وہاب ریاض، ذوالفقار بابر، سہیل تنویر، راحت علی اور سہیل خان کو مستقل الوداع کہہ دینا چاہیے۔ بیٹنگ یونٹ میں یہی سلوک احمد شہزاد، عمر اکمل، کامران اکمل، صہیب مقصود اور محمد حفیظ کے ساتھ روا ہونا چاہیے۔ یاسر شاہ شماریاتی اعتبار سے ایک میچ ونر ہیں لیکن مجھے کبھی متاثر نہیں کر پائے۔ ان کی استعداد محدود ہے اور ان کا مستقبل مجھے کم ازکم روشن نظر نہیں آتا۔ ہمیں ایک ایسا فرنٹ لائن سپنر چاہیے جو غیر موافق کنڈیشنز میں کمال دکھانے کے بھی قابل ہو۔ شاداب خان میں وہ گن نظر آتے ہیں لیکن ابھی ان پر بہت محنت ہونا باقی ہے۔ سعید اجمل اور عبدالرحمان کا کیرئیر ختم ہو چکا ہے۔ عماد وسیم کی جگہ کسی بھی ٹیم میں نہیں بنتی لیکن ان پر ڈومیسٹک سرکٹ میں محنت کی جائے اور ان کے سر سے فیشن کا بھوت اتار دیا جائے تو شاید سال ڈیڑھ سال میں وہ ٹیم میں پھر جگہ بنا سکیں مگر اس وقت ان سے چھٹکارا پا لینا بہتر ہو گا۔ نئے خون کو موقع دیں اور ایک سال تک ان کی پرفارمنس کو برداشت کریں۔ ہماری بینچ اسٹرینتھ نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے یہ قیاس آرائی کہ ان کی جگہ کس کو ٹیم میں ہونا چاہیے، کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ یہ کام ہم ایک اچھی سلیکشن کمیٹی پر چھوڑ دیتے ہیں۔

5۔ ٹیم کی فٹنس اور فیلڈنگ پر زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی جائے۔ نیشنل کرکٹ اکیڈیمی کی باگ ڈور کرکٹر کے بجائے ہائی پرفارمنس کوچز کے سپرد کی جائے

6۔ ایسے تمام کرکٹرز جن کی شہرت سیاست، مذہب یا سٹے بازی سے جڑی ہو، انہیں پی سی بی سے دور رکھا جائے۔ کسی آفیشل پوزیشن پر کسی ایسے صاحب کی تقرری نہ کی جائے جو اس پوزیشن کے لیے درکار صلاحیتوں کے علاوہ کسی اور حوالے سے جانے جاتے ہوں۔

7۔ کرکٹ ٹیکنیک اور فٹنس کا کھیل ہے، باقی تمام باتیں ثانوی ہیں۔ یہ بات محض ایک مفروضہ ہے کہ ہمارے ملک میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے۔ میرے خیال سے ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی شدید کمی ہے اس لیے ہمیں ٹیلنٹ کے لیے آسمان کی طرف دیکھنے کے بجائے اسے خود تراشنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔ سکول، کالج اور کلب میں کھلاڑیوں کو بنانے اور سنوارنے پر سرمایہ لگانا پڑے گا۔ پی ایس ایل کے علاوہ بھی ایسے مقابلوں کا انعقاد کرانا ضروری ہے جہاں عوامی شرکت اور کارپوریٹ سپانسرشپ دونوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ چھوٹے بچوں کو ٹیپ بال کلچر اور شاہد آفریدی ہیرو شپ سےباہر نکالنا ہو گا اور کرکٹ کی اصل روح سے آشنا کرنا پڑے گا۔

8۔ فی زمانہ کرکٹ بورڈ ایک کارپوریشن کی طرح کام کرتے ہیں۔ اس لیے اس مفروضے کی بھی جان چھوڑ دینی چاہیے کہ اس کو چلانے کےلیے کرکٹر ایک اچھا انتخاب ہیں۔ کرکٹ بورڈ کو ایک کمپنی کی مانند چلانا ہو گا۔ مارکیٹنگ، فنانس اور ایچ آر کے ماہرین کو اس کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کی سربراہی سونپی جانی چاہیے۔ کرکٹ بورڈ کو ایک نسبتا جوان رہنما کی ضرورت ہے جو کاروباری معاملات کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کرکٹ بورڈ کو خودمختار بنا کر سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا پڑے گا ورنہ باقی تمام مشورے بس دیوانے کی بڑ ہی ہیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad