اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے والے ممالک مسلمان نہیں ہیں


جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری کا ایک مضمون جو گلوبل اکانمی جرنل میں شائع ہوا اور جس کا عنوان ہے ”اسلامی ممالک کتنے اسلامی ہیں“، کے مطابق زیادہ تر ممالک جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں، وہ مسلمان نہیں۔ جو ممالک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سب سے پہلا نمبر نیوزی لینڈ کا، دوسرا لکسیم برگ، تیسرا آئر لینڈ، چوتھا آئیس لینڈ، پانچواں فِن لینڈ، چھٹا ڈنمارک اور ساتواں کینیڈا کا ہے۔ اب ملاحظہ فرمائیں کچھ اسلامی ممالک، ملائیشیاء 38 نمبر پر، کویت 48، اور بحرین 64 نمبر پر ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ دین اسلام کا مرکز سعودی عرب 131 ویں نمبر پر ہے۔

یہ بات ہمارے لئے حیرانی کا سبب تو بن سکتی ہے مگر ناقابل یقین نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں یقین آجائے گا کہ واقعی یہ ریسرچ بلکل درست ہے۔ اسلام کے جن اصولوں پر ہمیں عمل کرنا چاہیے وہ اصول غیر مسلم ممالک نے اپنا لئے ہیں اور وہی ممالک مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ دن رات محنت و لگن سے کام کرکے وہ لوگ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ چند نمازیں پڑھ کر اور قرآن پاک کی تلاوت کرکے سمجھنے لگتے ہیں کہ بس دنیا میں آنے کا فرض پورا ہوگیا۔ زیادہ سے زیادہ حج کرلیا۔ حاجی بن کر تو ہر مسلمان حود کو اتنا پاک صاف اور سب سے منفرد سمجھنے لگتا ہے جیسے بس اب اس سے نیک اور اچھا کوئی نہیں رہا۔

قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے بجائے، اس کو دم درود اور وظائف کی ایک کتاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ قرآن پاک کے ایک ایک حرف پڑھنے پر جب دس دس نیکیاں مل جاتی ہیں تو محنت کر کے ثواب کمانے کی کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح کتنے حجوں کا ثواب تو گھر بیٹھے ہی مل جاتا ہے۔ ہمیں صرف غرض ہے داڑھی رکھی کہ نہیں، نقاب کیا کہ نہیں، نماز پڑھی کہ نہیں اور روزے تو وہ بھی رکھتے ہیں جنھوں نے کبھی نماز کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی۔ اگر ان سب باتوں پر آپ عمل کرتے ہیں تو پھر آپ سے اچھا کوئی نہیں اور دین کا فرض بھی پورا ہوگیا۔ کوئی ان لوگوں سے یہ پوچھے کیا اللہ نے پورے قرآن پاک میں انھی چند باتوں پر عمل کرنے کو کہا ہے اور وہ بھی وہ باتیں جس کا فائدہ صرف انسان کی اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے، باقی کا قرآن پاک اللہ نے کیا غیر مسلموں کے لئے نازل فرمایا تھا۔ پورے قرآن پاک میں اللہ نے جن باتوں پر بھی عمل کرنے کو کہا ہے وہ سب کی سب فرائض میں آتی ہیں تو پھر ہم یا آپ کون ہوتے ہیں کہ ان میں سے چند اپنی پسند کی باتوں پر عمل کرکے انھی باتوں کو دین کی بنیاد قرار دینے والے۔ اللہ نے خود فرمایا ہے کہ حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد کی پوچھ گچھ ہوگی۔ مگر ہمیں غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم کھانا تو حلال پسند کرتے ہیں مگر کمانا نہیں۔

ایک چینی تاجر کا کہنا ہے کہ ”مسلمان تاجر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے سامان پر جعلی انٹرنیشنل لیبلز اور برانڈز لگا دو اور جب میں انھیں اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دیتا ہوں تو وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم حرام نہیں کھاتے۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا سامان پر جعلی لیبلز لگوانا اور اس کو بیچنا ان کے لئے حلال ہوتا ہے؟ “۔

ایک جاپانی مسلمان کا کہنا ہے کہ ”میں مغرب گیا اور وہاں میں نے اسلام کو ان کی زندگی کے ہر شعبے میں دیکھا، جب کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ پھر میں مشرق میں آیا، میں نے اسلام تو دیکھا مگر مسلمان نہیں۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے اسلام کو جان لیا، اس سے پہلے کہ میں مسلمانوں کے اعمال کو جانتا“۔

مولانا طارق جمیل نے اپنے ایک لیکچر میں بتایا کہ میں ایک غیر ملکی دورے پر گیا۔ جب میں ائرپورٹ سے ہوٹل کی طرف روانہ ہوا تو میں نے غور کیا کہ تمام سڑکیں خالی ہیں۔ میں نے وہیں کے رہنے والے اپنے ساتھی سے جو مجھے ائرپورٹ سے لینے آیا تھا، سے پوچھا کہ کیا بات ہے جناب تمام سڑکیں خالی کیوں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ سر تمام لوگ اپنے اپنے کاموں پر گئے ہوئے ہیں اس لئے تمام سڑکیں خالی ہیں۔ جب مولانا صاحب اپنی میٹنگ سے فارغ ہو کر شام کے وقت واپسی کے لئے ائرپورٹ نکلے تو پھر دیکھا کہ وہی نظارہ تھا یعنی تمام سڑکیں صبح کی طرح ہی خالی تھیں۔ انھوں نے پھر اپنے ساتھی سے سوال کیا کہ اب سڑکیں خالی ہونے کی کیا وجہ ہے؟ کیا ابھی تک لوگ کام سے نہیں لوٹے؟ اس نے جواب دیا کہ مولانا صاحب اس وقت لوگ کام کاج سے فارغ ہو کر گھروں کو لوٹ آتے ہیں اور کھانا کھا کر آرام کرتے ہیں، تھوڑا وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارتے ہیں اور پھر جلدی سو جاتے ہیں تا کہ اگلے دن کے کام کے لئے ترو تازہ ہو کر اٹھیں۔ کام کے دنوں میں یہاں یہی منظر ہوتا ہے۔ یہ تو تھا ایک غیر مسلم ملک کے ماحول کا منظر، اب آجایئے سعودی عرب کی طرف۔

سعودی عرب کے ایک اسکالر کا کہنا ہے کہ تمام ترقی یافتہ اقوام کے لوگ دن میں آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں جب کہ سعودی عرب کے لوگ پورے دن میں صرف 25 منٹ کام کرتے ہیں۔ اب آپ مسلمانوں کے کام کرنے کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔ سعودی عرب کے ہی ایک اور اسکالر کا کہنا ہے یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس اتنا پیسہ ہے کہ ہم دنیا کی مہنگی سے مہنگی چیز خرید سکتے ہیں مگر ہم نے آج تک ایک سوئی بھی ایجاد نہیں کی۔ ہمارے ملک میں ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنٹسٹ اور ورکرز سب دوسرے ممالک سے آکر کام کرتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرتے صرف بیٹھ کر کھاتے ہیں۔

بیٹھ کر کھانے اور چند حقوق اللہ ادا کردینے سے ہمارا دین مکمل نہیں ہوتا۔ جب تک ہم حقوق العباد اور محنت و مشقت کی طرف نہیں آئیں گے، ہم بحیثیت مسلمان دنیا کی نظروں میں کبھی سرخرو نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).