تحفظ خواتین قانون سے عدم تحفظ کس کو ہے؟


\"abdul-Majeed-487x400\" ، ملک دشمنی اور غداری کے طعنے سہہ رہے ہیں۔ کچھ روز قبل ایک بھارتی سیاست دان کا بیان سامنے آیا کہ اس معروف درس گاہ سے روز لگ بھگ تین ہزار کونڈم دریافت ہوتے ہیں۔ سرحد کے اس پار جامعہ پنجاب میں اسلامی جمیعت کے ایک ناظم یہ بیان دے چکے ہیں کہ جمیعت نہ ہوتی تو یونیورسٹی میں پڑھنے والی ہر لڑکی ڈگری کے ساتھ ایک ناجائز بچہ لے کر نکلتی۔ گئے دنوں میں این سی اے کو فحاشی و عریانی کا اڈہ بھی اسی تنظیم کے افراد قرار دیتے تھے۔ قیاس ہے کہ مذہبی تعصب رکھنے والے سرحد کے جس طرف بھی ہوں، عورت کی آزادی سے یکساں طور پر خوف زدہ ہیں۔

پنجاب اسمبلی نے حال ہی میں تحفظ خواتین بل منظور کیا ہے جس کے بعد مذکورہ بالا حلقوں میں کہرام برپا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اسمبلی میں جب بل منظور ہو رہا تھا تو تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے افراد ایوان چھوڑ کر جا چکے تھے۔ پارلیمانی جمہوریت کے شاہسوار، مولانا فضل الرحمان کی اس ضمن میں بیان بازی مسلسل جاری ہے۔ حیدرآباد سے مولانا نے بیان داغا کہ انہیں پنجاب کے مردوں پر ترس آرہا ہے۔ انہوں نے پنجاب کے بل کو آئین اور شریعت سے متصادم بھی قرار دیا۔ ان کے مطابق ہمارا مثالی ’خاندانی نظام‘ان اقدام کے باعث تباہ ہو جائے گا۔ مولانا یہ گرہ لگانا بھول گئے کہ اسلام نے چودہ سو سال قبل خواتین کو و ہ حقوق فراہم کئے تھے جو اکیسویں صدی میں مغربی ممالک بھی نہیں دے سکے۔ اس موضوع پر مفتی نعیم کے خیالات حوصلہ افزا نہیں۔ منبرو محراب کے وارث عورت پر تشدد کی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ’غیرت‘ کے قتل پر پابندی لگانے کو مخرب الاخلاق سمجھتے ہیں۔ یہ رویے صرف علما میں ہی عام نہیں بلکہ معاشرے کی رگ وپے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ سال قبل سپین میں مقیم ایک دوست سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میں وہاں شادی نہیں کر سکتا، وہاں کی عورت بہت آزاد ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی گروہ در گروہ اپنے صاحب زادوں کے رشتے ڈھونڈنے پاکستان اسی وجہ سے آتے ہیں۔ ’ غیرت ‘ کے نام پر قتل کی بات کریں تو صاحب آج تک ایسے کسی قاتل کو سزا نہیں سنائی گئی کیونکہ رشتے دار معاف کر دیتے ہیں۔ ویسے یہ غیرت ہوتی کیا ہے؟ اپنے خاندان کی عورتوں پر پہرے داری کا بہانہ؟ مردانہ انا کی تسکین کا ذریعہ؟ یہ بھارت اور پاکستان میں ہی اتنی عام کیوں ہے؟

استاد محترم نے اپنے مضمون ’ہمارے خاندانی نظام میں تبدیلی کی ضرورت‘ میں لکھا تھا:’ گزشتہ سو سال سے ہمارا واحد مسئلہ مروجہ خاندانی ڈھانچوں کا تحفظ ہے۔ سماجی تبدیلی کی کوئی کروٹ ہو، انسانی فکر کسی نئی علمی جہت کا سراغ لگائے یا میدان سیاست میں کوئی نیا مرحلہ درپیش ہو، ہمارا رد عمل ایک سا رہتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے شور مچانا کہ ہمارا خاندانی نظام، معاشرتی ڈھانچہ اور اخلاقی اقدار خطرے سے دوچار ہیں۔‘ اس ہنگامے میں یار لوگ تحفظ نسواں بل پڑھنا بھول گئے جس میں بہت سے ایسے سقم موجود ہیں جن کے باعث مروجہ نظام جاری و ساری رہے گا۔
خاطر جمع رکھیے ۔ ابھی اس ملک کی سیاست اور معاشرت میں عورت اور مرد کی مساوات کا کوئی امکان نہیں ۔ ابھی عورت کے تحفظ کا کوئی خدشہ نہیں ۔ ابھی انسان کی تکریم کی منزل بہت دور ہے۔ ٓ آئیے اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور معلوم کرتے ہیں کہ اقبال نے عورت کی آزادی، مرد و زن کی مساوات اور دیگر متعلقہ موضوعات پر کیا لکھا تھا:

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
…. ….
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار و زن تہی آغوش!
…. ….
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ ، آئنہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خودگیر ، و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر
…. ….
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
…. ….
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند
کیا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!
…. ….
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
…. ….
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
…. ….
جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتہ شوق
آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکہ بود و نبود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشود!

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments