‘ناپاک’ عرفان مسیح تھا یا عمر کوٹ کے مسیحا


پاکستان میں وقفے وقفے سے اسلام کا نام لے کر دہشت گردی کرنے والوں کی ہلاکت خیزیوں، مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کی زہر پاشی اور قانون کے تحفظ کے نام پر قانون کی دھجیاں اڑا دینے والے قانون ہی کے محافظوں کے اعلیٰ کردار کی تفصیلات ذرائع ابلاغ میں سرخیوں اور پاکستانی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے لیے شرمندگی کی وجہ بنتی رہتی ہیں۔ لیکن ابھی چند روز قبل صوبہ سندھ میں ایک قابل مذمت واقعہ ایسا بھی پیش آیا، جس کی کوئی بھی وضاحت تسلی بخش نہیں ہو سکتی اور جس کی پاکستان کے تمام مسلمانوں کے علاوہ مسیحیوں، ہندوؤں، سکھوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ تمام سیکولر شہریوں کو بھی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔

جو کچھ دو جون کو سندھ کے شہر عمر کوٹ میں ہوا، اس نے اس بارے میں چند بنیادی سوالات پیدا کر دیے ہیں کہ زیادہ بیزارکن کسی انسان کا وہ جسم ہوتا ہے جس پر کوئی غلاظت لگی ہوئی ہو اور جسے فوری علاج کی ضرورت ہو، یا زیادہ قابل نفرت وہ معالج ہوتے ہیں، جو کسی مریض کا علاج کرنے سے اس لیے انکار کر دیں کہ مریض کا جسم ناپاک ہے اور پہلے اسے پاک کیا جانا چاہیے۔

بات تیس سالہ عرفان مسیح کی ہو رہی ہے، جو جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے پاکستان کی مسیحی اقلیتی آبادی کا ایک شہری تھا اور عمر کوٹ کی بلدیہ کے نکاسئ آب کے شعبے کا ایک کارکن بھی۔ وہ اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ نکاسئ آب کے نظام کے ایک حصے میں کام کر رہا تھا، زیر زمین، کہ وہاں پائی جانے والی گیس کی وجہ سے دم گھٹنے سے بے ہوش ہو گیا تھا۔ چاروں افراد کو علاج کے لیے فوراً عمر کوٹ کے سول ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈیوٹی پر موجود تینوں ڈاکٹر مسلمان تھے اور روزے سے تھے۔

عرفان کی والدہ ارشاد مسیح کے بقول ڈاکٹروں نے بے ہوش عرفان کا علاج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ روزے سے تھے اور مریض ناپاک تھا۔ لہٰذا پہلے اسے صاف کیا جانا لازمی تھا۔ ہسپتال کے امدادی عملے نے عرفان کو ‘پاک’ کیا تو بے ہوشی کی حالت میں اسے آکسیجن ماسک لگانے کی ضرورت تھی لیکن آکسیجن سلنڈر خالی تھا جسے بھروانے کے لیے بھیجا گیا تو عرفان مسیح کا بے ہوش جسم اسے ‘پاک’ کرنے کی ان لازمی مذہبی اور جمالیاتی ترجیحات کے مسلسل تقاضوں کی تاب نہ لا سکا اور زندہ عرفان مسیح آنجہانی عرفان مسیح ہو گیا۔ وہ چند لوگوں کے بقول شاید مرحوم نہیں ہوا ہو گا کیونکہ مرحوم وہ ہوتا ہے، جس پر رحمت ہو گئی ہو۔ عرفان مسیح پر ‘رحمت’ غالباً اس لیے نہیں ہوئی ہو گی کہ وہ تو ‘ناپاک’ تھا۔

اس واقعے کو زیادہ اہم نہ سمجھنے والوں کے مطابق یہ محض ایک کارکن کی موت ہے، جسے بچانا طبی طور پر بھی شاید بہت آسان نہ رہا ہو گا۔ لیکن قانون کے لمبے ہاتھوں، انصاف کے اندھا ہونے اور ہر انسانی زندگی کے مذہب کے لبادے کے بغیر بھی انتہائی قیمتی ہونے پر یقین رکھنے والے پاکستان کے سبھی اکثریتی اور اقلیتی شہریوں کے مطابق یہ ایک ایسا سماجی قتل ہے، جس میں ہر وہ شہری قصور وار ہے، جو اس ملک میں رہتا ہے کیونکہ یہ ہلاکت ہم سب کے مشترکہ ‘گھر’ میں ہوئی ہے۔ عرفان مسیح کے قتل میں اس ملک کے انیس بیس کروڑ سارے شہری ملوث ہیں، کیونکہ وہ اس اجتماعی سوچ کا حصہ ہیں یا اس سوچ کو برداشت کر کے اور اس کے خلاف کچھ نہ کر کے اس کےعملی حمایتی بن چکے ہیں، جس کے مطابق علاج سے پہلے مریض کا ‘پاک’ ہونا ‘اب’ ضروری ہو گیا ہے۔

اب عرفان کی موت کی وجہ بننے والے ان تین مسیحاؤں کے خلاف فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کی بنیاد پر مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد انہوں نے اپنے پیشے سے ایمانداری کا جو حلف اٹھایا ہو گا، وہ انہیں بھول کیسے گیا؟ اگر یہ تینوں ڈاکٹر روزے سے تھے تو چھٹی لے کر گھر بیٹھتے کہ کسی ناپاک مریض کا علاج کرنے سے ان کا روزہ مکروہ نہ ہو جائے۔ یا پھر انہیں اس دن سول ہسپتال عمر کوٹ کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر یہ لکھ کر لگوا دینا چاہیے تھا، “ڈیوٹی ڈاکٹرز روزے سے ہیں۔ کسی ناپاک مریض کو ناپاکی کی حالت میں، چاہے اس کی زندگی کو بہت شدید خطرہ ہی لاحق کیوں نہ ہو، علاج کے لیے اس ہسپتال میں نہ لایا جائے۔”

یہ روزے دار مسیحا کیسے بھول گئے تھے: “جس نے کسی ایک انسان کا قتل کیا، اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔ جس نے ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔”

جس طرح انصاف میں تاخیر بھی انصاف سے محروم کر دیے جانے ہی کا نام ہے، اسی طرح عرفان مسیح کے فوری علاج میں تاخیر بھی، جب کہ وہ بے ہوش اور فوری طبی امداد کا ضرورت مند تھا، اسے قتل کرنے ہی کے مترادف ہے۔ قانوناً ان روزے دار ڈاکٹروں کو شاید عرفان کے دانستہ قتل کا ذمےدار نہ ٹھہرایا جائے، لیکن اس کی موت میں انہی ڈاکٹروں کے ‘پاکیزگی’ سے متعلق تقاضوں کی وجہ سے ہونے والی تاخیر کا کردار ہر قسم کے شبے سے بالاتر ہے۔ ڈاکٹر زندگی یا موت نہیں دیتے لیکن ان کی طرف سے مریض کی فوری اور قطعی غیر مشروط مدد لازمی ہوتی ہے۔ یہی ‘لازمی’ بات اس مرتبہ عمر کوٹ کے سول ہسپتال میں ‘ضروری’ نہیں سمجھی گئی۔

عرفان مسیح کی اگر بروقت طبی مدد کی جاتی تو شاید وہ اب زندہ ہوتا، یا شاید ڈاکٹر اسے پھر بھی بچا نہ پاتے۔ لیکن ان تینوں مسلمان ڈاکٹروں کے اس دن کے روزے تو قبول ہو ہی گئے ہوں گے؟ انہوں نے ‘ناپاکی’ سے پورا اجتناب کیا تو تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).