وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے


تھائرائڈ اور مٹاپے پر بھی لکھوں گی۔ سارا دن دس لوگوں کو تھائرائڈ ایکسپلین کرکے دماغ پلپلا ہوگیا ہے۔ ایک خاتون کو ہسپتال سے بھیجا گیا کہ ان کو نئی نئی ذیابیطس ہوئی ہے۔ کاغذ پر تصویریں اور گراف بنا کر ان کو سمجھا رہی تھی کہ کیا مسئلہ ہے اور علاج کیسے کرنا ہے، ان کے شوہر غور سے دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے میں انجینئر ہوں اور مجھے بالکل اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے کہ کیسے انسولین دینی ہے۔ جن کی کسی بھی میدان میں بیک گراونڈ نالج ہو ان کو کچھ سمجھانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

دنیا بہت پیچیدہ ہے اور بہت آگے بھی نکل گئی ہے۔ میری بہت ساری مریض ہیں جن کو ٹائپ ون ذیابیطس ہے۔ ان کو حمل کے دوران اپنی شوگر کو نارمل رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ورنہ دونوں مٹرنل یعنی کہ ماں کے اندر اور فیٹل یعنی کہ بچے کے اندر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر بھی کتاب میں ایک باب ہے ۔جو خواتین تعلیم یافتہ ہوں، خود سے اپنی بیماری اور اپنے بچوں کی بیماری سمجھ سکتی ہوں اور اپنا خیال رکھ سکتی ہوں، وہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بہتر بنا سکتی ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک گھر کبھی بھی اس لیول سے اوپر نہیں اٹھ سکتا جس لیول کی خاتون اس گھر میں رہتی ہو۔ اس لیے صرف اپنے بیٹوں میں ہی نہیں بلکہ بیٹیوں پر بھی انویسٹ کرنے کی ضرورت ہے، ان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا اس سے کسی کو نقصان ہوگا؟ نہیں! اس سے کسی کا نقصان نہیں ہوگا، سب فائدے میں رہیں گے۔

ہمارے خاندان میں سب چشمہ لگاتے ہیں۔ میرے نانا بھی لگاتے تھے، میری امی بھی اور میں بھی۔ میری امی کے پاس دو چشمے ہوتے ہیں تاکہ ایک کھو جائے تو دوسرا لگا کر اس کو ڈھونڈ سکیں۔ ان کے بہن بھائی کہتے تھے کہ آپی چشمہ لگا کر سوتی ہیں تاکہ خواب صاف صاف دکھائی دیں۔ میری امی کی تین بیٹیاں ہیں اور دو بیٹے۔ جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو ہمارے رشتہ دار اور پڑوسی ان سے کہتے تھے کہ آپ کے شوہر مر چکے ہیں اور بیٹیاں اتنی بدصورت، آپ ان کی کیسے شادیاں کریں گی؟ وہ 24 سال کی عمر میںچار بچوں کے ساتھ بیوہ ہوگئی تھیں اور انہوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ اگر میری بیٹیوں کے سامنے ایسا دن آئے تو وہ خود کو اتنا کمزور اور بیچارہ محسوس نہ کریں جیسے میں نے کیا۔ یہ ہمت ہے میری امی کی کہ سب بچوں کو پڑھا دیا۔ منجھلی کے گھر کے آگے ہرا بھرا لان اور پیچھے سوئمنگ پول ہے جو نیلے پانی سے بھرا رہتا ہے۔

زندگی میں تین مرتبہ امی کا چہرہ یاد ہے جب کوئی آنسو روک کر مسکرانے والا چہرہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو کیسے ٹیڑھا میڑھا سا ہوجاتا ہے۔ پہلا وہ دن جب میں سامان پیک کرکے شہر چھوڑ کر میڈیکل کالج گئی، وہ سارا دن روتی رہیں اور نہ کھانا پکایا نہ صفائی کی۔ دوسری مرتبہ جب جہاز میں بیٹھ کر اکیلے پاکستان چلی گئی تھی کہ کالج پورا کرکے چھوڑوں گی اور تیسری بار جب لال کپڑوں میں اپنے بلوچ شوہر کے ساتھ جارہی تھی۔

مدرز ڈے پر اپنی امی کے گھر پہنچی تو وہ وہاں نہیں تھیں۔ وہ میری خالہ کی بیٹی کی شادی میں ڈی سی چلی گئی تھیں۔ ان کے کمپیوٹر کے پاس پیسے رکھ دئیے کہ جب واپس آئیں تو اپنی مرضی کا جو چاہیں لے لیں۔ ان کو کوئی تحفہ پسند نہیں آتا۔ جو بھی دو وہ جاکر واپس کرآتی ہیں اور اگلی بار ان کے پاس دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے کمرے میں سائیڈ ٹیبل پر خواتین ڈائجسٹ رکھے تھے اور دیوار پر کالے مخمل پر گولڈن آیت الکرسی۔ شکر ہے کہ ہمارے بچپن میں وہ جاسوسی اور سسپنس ڈائجسٹ پڑھتی تھیں ورنہ کیا معلوم ہماری زندگی آج مختلف ہوتی۔ یہ خواتین ڈائجسٹ کون چھاپ رہا ہے؟ آپ لوگ پلیز کچھ اصلی دنیا کی اصلی باتیں بھی لکھ دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ کیا اردو کی دنیا میں خواتین کے کردار صرف بارش میں پکوڑے بنانے، پیازی ساڑھی پہننے اور امریکی کزن کے ساتھ محبت میں گرفتار ہوجانے کے گرد ہی گھومتے رہیں گے؟

جب ہم لوگ گلوکومیٹر استعمال کرنا سیکھ رہے تھے تو ایک دن میری امی کی بلڈ شوگر چیک کی۔ وہ 325 ملی گرام فی ڈیزی لیٹر آئی۔ ان سے کہا کہ آپ کو ذیابیطس ہے۔ اس وقت میں وہ لائن دیکھ سکتی تھی جس کے ایک طرف جاو تو پیتھوفزیالوجی، بلڈ ٹیسٹ، دوائیں اور علاج ہیں اور دوسری طرف مبہم سا گول مول سا شوگر ذیابیطس کا آئیڈیا ہے۔ اس دن میں نے محسوس کیا کہ اردو کی دنیا میں اور آج کی جدید دنیا میں ایک گہری خلیج بن چکی ہے۔ جس وقت پنسل اٹھا کر لکھنا شروع کیا تو ایک دم مجھے یہ پتا چلا کہ ایک جملہ تک نہیں لکھ سکتی ہوں۔ اتنے سال اوکلاہوما میں رہ کر اپنی مادری زبان ہی لکھنا بھول جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا۔ اس کے بعد بی بی سی اردو پر خبریں پڑھنا شروع کیں تاکہ جملے جوڑنا پھر سے یاد آ جائے۔ اس کے بعد بھی مسائل رہے اور اب بھی ہیں لیکن امید ہے کہ عدنان کاکڑ کی مدد سے’ ز‘ اور’ ذ‘ ٹھیک جگہوں پر فٹ کرنا آجائے گا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ایک ہی آواز کے لفظ کے لیے دو حروف کی کیا ضرورت ہے؟ ’حرن، کاغض، کلم ‘ پہلے عجیب سے لگیں گے پھر ویسے ہی آگے چل پڑیں گے۔ اس طرح اردو مزید سادہ اور آسان بنائی جا سکتی ہے۔

’وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے‘ کتاب کو لکھنے پر دو سال خرچ کئے اور اس سے سیدھے کاندھے میں درد بیٹھ گیا جو کافی عرصے تک رہا۔ اس کے چیپٹر آپ لوگ خواتین ڈائجسٹ میں چھاپیں۔ اس سے کیا معلوم کتنے پیر، کتنی آنکھیں اور کتنے گردے اور کتنے ہارٹ اٹیک اور اسٹروک بچ جائیں۔ جو لڑکیاں خواتین ڈائجسٹ پڑھیں گی ان کو یہ بھی پتا چلے گا کہ ذیابیطس کیسے دنیا میں بڑھ رہی ہے وہ اپنا بھی خیال کریں اور ذیابیطس ایجوکیٹر بننے کی کوشش بھی کریں کیونکہ اس فیلڈ میں مزید معلومات رکھنے والے افراد کی شدید ضرورت ہے۔ جہاں پر میڈیکل کی سہولیات کم ہوں وہاں پر ’پریوینٹو میڈیسن‘ کی اور بھی زیادہ اہمیت ہے۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ایک چینی کہاوت کے مطابق ڈاکٹرز کی تین اقسام ہیں جن میں سے بہترین وہ ہے جو بیماری پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کو روک سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).