بجٹ 2017-18اور حکمران طبقات اور اعوام


میکسم گورکی نے شہرہ آفاق ناول “ماں “میں لکھا کہ اگر لومڑی کو پرندوں کا سرداربنا دیا جائے تو آسمان پر آپ کو پرندوں کی بجائے پر ہی اڑتے نظر آئیں گے۔اگر اس جملے کا اطلاق دنیا کے سب سے بڑے معاشی ماہر اقتصادیات کے پانچ سالہ دورے اقتدار پر کریں تو یہ 100% ثابت ہو گا ۔

موجودہ حکومت نے جب 47.52ارب ڈالر کا بجٹ پیش کیا تو زمین آسمان کے قلابے ملانے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ پانامہ کا جن بوتل کے اندر بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اگر موجودہ حکومت کی چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کی حکمت عملی کو دیکھا جائے تو حکومتی اہلکار دعوے کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ 45ارب ڈالر کا منصوبہ اس خطے کی تقدیر تبدیل کر دے گا ۔لا محالہ تقدیر تبدیل کرنے کے لیے بہت ساری قوتیں پہلے سے ہی سر گرم عمل ہیں تاکہ ان کی تقدیر بھی تدبیر سے بدلنے کا موقع ہاتھ آجائے۔اگر 45 ارب ڈالر کے منصوبے کا بغور جائزہ لیا جائے تو 2030 کے خاتمے تک ہر سال (CPEC) پر اوسطً اخراجات 2.64ارب ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔

اگر ہم وقتی طور پر موجودہ حکومت کے پچھلے پانچ سالوںکے دفاع پر اٹھنے والے 38.88ارب ڈالر اور سرکاری خدمات کے عوض پنشن پر 11.26 ارب ڈالر سے صرف نظر بھی کر لیں تو بھی پچھلے پانچ سالوں میں 64.82 ارب ڈالر ان قرضوں کی قسطوں میں گے ہیںجنھیں ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے 1960سے لینا شروع کیا اور ابھی تک لے رہے ہیں۔تو جناب آپ لیتے رہے ہم دیتے رہے۔ہمارے ووٹ بھی اور ہمارے پیسے بھی۔

 پچھلے پانچ سالوں میں لیے گیے قرض پر اقساط کی ادائیگی کیسے اعوام پر بوجھ ڈالتی ہے، یہ جدول اس کی ایک جھلک ہے۔

مارکس نے بالکل درست کہا تھا کہ بیورو کریسی حکمران طبقات کی کمیٹی ہوتی ہے ۔اس کمیٹی نے یقیناً آپ کو اور آپ کے مزاج کو دیکھتے ہوئے پوری تقریر تیار کر کے دی ہو گی کہ کہاں پر علامہ اقبال کا شعر پوری تقریر کا احاطہ کرے گا لیکن وہ علامہ اقبال کے اس شعر کا ذکر آپ سے کبھی نہیں کرے گا جس میں سرمایہ دار کے لوٹنے والے کردار کا احاطہ ہوتا ہووہ کیسے آپ کے گوش گزار کرے کہ :

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

ہمارے وزیر خزانہ تو مسلسل پچھلے پانچ سال اپنی بجٹ تقاریر کا اختتام تو علامہ اقبال کے شعروں کے بغیر ادھورا سمجھتے رہے۔مجال ہے کہ انھوں نے کبھی بھی کہا ہو کہ :

                                                                کھائے کیوں مزدور کی روزی کاحق سرمایہ دار

قرض لینے والے سیاسی عمل سے آئے ہوں یا پھر فوجی عمل سے۔ بہرحال اس کا ازالہ عام آدمی کو ہی کرنا پڑتا ہے خواہ وہ ریڑھی لگاتا ہو یا پھر نائب اللہ فی الارض ہو (یعنی کسان ہو)۔ اس کا فائدہ ریاستی ڈھانچے میں بیٹھی ہوئی اسی طاقت کو ہوتا ہے جس کے بارے میں گورکی نے کہا تھا کہ وہ اس چیز کی حفاظت نہیں کرتے جو ان کے دل میں ہے۔ وہ اس چیز کی حفاظت کرتے ہیں جو باہر پڑی ہے۔ ظاہر ہے تمام ٹھیکے باہر پڑے ہوتے ہیں تمام کمیشن باہر پڑے ہوتے ہیں تمام نوازشات جو اس دودھ دینے والی گائے نے پیدا کی ہیں وہ جابجا پانامہ کی صورت میں، ڈی۔ ایچ ۔اے کی شکل میں اور پلاٹوں اور مربعوں کی صورت میں سب کچھ باہر ہی ہے دل میں اس کو سمایا نہیں جاسکتا ۔تو پھر اس پے ہاتھ صاف کرنے کا حق اپنے اپنے طریقے سے سارے ہی جتائیں گےکوئی دانشور بن کر کوئی مشیر بن کر کوئی وزیر بن کر اورکوئی دفاعی تجزیہ نگار بن کر غالباً وہ یہ سوچتے ہوں گے کہ فیض صاحب نے اِنھی کے لیے کہا تھا کہ :

                     یہ سارا خزانہ ہمارا ہے

                    ہم ساری دنیا مانگیں گے

تو جناب عالی ہر سال 12.65ارب ڈالر عام لوگوں کی جیبوں سے نکال کر بین القوامی اداروں کے قرض کی مد میں قسطیں بھرنے سے ترقی تو آنے سے رہی اورنہ ترقی بھاشا ڈیم کا چوتھی مرتبہ افتتاح کرنے سے ہو گی۔اور نہ ہی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی کے محاورے رٹنے سے ہو گی ۔البتہ ماﺅزے تنگ والی پارٹی تشکیل دے کے پارٹی کو انھی خطوط پر منظم کر کے ترقی کے عمل کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس قسم کی ترقی میں آپ کا بہت کچھ نہیں بلکہ سب کچھ جا سکتا ہے۔

اگر ووٹ بھی ہمارا ہے پیسہ بھی ہمارا ہے اور قرض کی اقساط بھی ہم نے ہی اپنی تعلیم اپنی صحت تاریک بنا کر ہی کرنی ہے تو پھر فیصلہ صرف ایک ہی رہ جاتا ہے کہ قیادت بھی میری ہونی چائیے یہ جو  1857 سے لے کر2017 تک وائرس کی طرح شکلیں بدل کے ہمارے سروں پر سوار ہیں ان کا بوجھ ہی تو اتارنا ہے ۔جس دن واقعی لوگوں نے ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری سوچ کا مظاہرہ کیا تو پھر آپ تاریخ کے عجائب گھر میں ہی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).