کافرستان کی کالاش قوم کے رسم و رواج


کالاشی قوم اپنی ثقافت اور روایات کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی تگ ودو میں مصروف ہیں، جس میں انہیں پاکستانی حکومت کے ساتھ ساتھ غیر ملکی امداد بھی شامل ہے، لواری ٹنل کھلنے کے بعد کالاش تک عام افراد کی رسائی آسان ہوجائے گی، جس کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنے والے بیس سے تیس سالوں میں کالاشہ مذہب اور وادی کافرستان ایک خواب بن جائے گا کالاش پاکستان کے برفیلے علاقے چترال شہر سے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر کافرستان واقع ہے جو بنیادی طور پر تین دروں بمبوریت، رمبور اور بریر پر مشتمل ہے۔ جن کی کل آبادی بقول ان کے چار ہزار ہے۔ اور یہ کالاشہ نامی مذہب کے پیروکار ہیں۔ کئی خداؤں پر یقین رکھنے والے کالاشی لوگوں کی زبان اور رسم و روایات بالکل الگ ہیں۔ یہاں کے سادہ لوح افرادآج بھی صدیوں پرانی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانی روایات کو مذہب کی طرح اپنایا ہواہے۔ اسی سبب سیاحوں کے لئے ان کی شادیاں، اموات، مہمان نوازی، میل جول، محبت مذہبی رسومات اور سالانہ تقاریب وغیرہ انتہائی دلچسی کا باعث ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو سیاحوں کو چترال اور خاص کر وادی کالاش کی سیر کی دعوت دیتی ہیں۔ اور لوگ ان تہواروں میں جوق درجوق شرکت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ جن میں ”چلم جوش“ کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔

موسم بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوش کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ چلم جوش جشن بہار اں کی تقریب ہے۔ مقامی افراد اس تہوار کے لئے کافی پہلے سے اوربہت سی تیاریاں کرکے رکھتے ہیں۔ مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہوتے یہاں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور چار سو خوشبوں کا ڈیرہ پڑجاتا ہے۔ ندیوں اور دریاؤں میں پگھلتی ہوئی برف کا شفاف پانی موجزن ہوتا ہے جبکہ پہاڑوں پر سبز جنگلات کے بیچوں بیچ برفانی شیشوں سے روشنی منعکس ہوتی ہے۔

کالاش مذہب میں خدا کا تصور تو ہے مگر کسی پیغمبر یا کتاب کا کوئی تصور نہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ سکندر کے لشکر سے اس علاقے میں رہ گئے تھے لھذا نسلاً وہ یونانی ہیں، کالاش مذہب کی خواتین کے لئے مخصوص احاطہ بشالینی کہلاتا ہے جہاں کالاش عورتیں مخصوص ایام گھر کے بجائے اس چار دیواری میں گزارتی ہیں اور وہ یہاں پر سلائی کڑھائی کا کام کرتی ہیں۔ خواتین اسے بد شگون قرارد یتی ہیں، کہ اگر وہ ان مخصوص ایام میں مردوں کے درمیان رہیں گی تو اس سے ان کے رزق سے برکت جاتی رہے گی، چاہے کڑاکے کی سردی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ مخصوص ایام میں اپنا گھر چھوڑ لیتی ہیں۔ اور بشالینی میں ان لئے گھر سے کھانا آتا ہے اور انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اس احاطے کی دیوار کو مردوں کے لئے چھونا بھی منع ہے، کسی خاتون کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ چالیس دن تک گھر کے ایک کمرے میں مقید ہوکر کسی سے بات نہیں کرتی۔

انکے مذہب میں خوشی ہی سب کچھ ہے، وہ کہتے ہیں جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ہے اسی طرح مرنا بھی خوشی کا موقع ہے، چنانچہ جب کوئی مرتا ہے تو کافرستان کی تینوں وادیوں میں واقع ہر گاؤں کو اس کی خبر کی جاتی ہے، مردہ اگر مرد ہو تو اسے دو دن اور اگر عورت ہو تو ایک دن کے لئے کمیونٹی ہال میں رکھدیا جاتا ہے، ہر گاؤں سے لوگ آتے ہیں جو ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں، ان مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آٹھ سے دس بیل ذبح کیے جاتے ہیں اور شراب کا انتظام کیا جاتا ہے، تیار ہونے والا کھانا خالص دیسی ہوتا ہے، جس کے اجزا دیسی گھی سمیت خالص ہوتے ہیں، آخری رسومات کی تقریبات کا جشن منایا جاتا ہے، جس میں شراب کباب، اور ڈانس ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے، آج کل اسے دفنانے کا رواج ہے۔

فوتگی کی طرح ان کے ہاں شادی اور پیدائش بھی حیران کن ہے، شادی کا طریقہ یہ ہے وہ ارینج نہیں ہوتی بلکہ لڑکا لڑکی کو خود ایک دوسرے کو پسند کرکے عملی قدم اٹھانا پڑتا ہے، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لے جانی ہوتی ہے، والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں، جو لڑکے کے ہاں آکر لڑکی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ہے، یوں رشتہ ہو جاتا ہے، اس کے بعد دعوت کا اہتمام ہوتا ہے جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ہیں، شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ہے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ہیں، اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ پیار ہونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ہے، اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ہو تو اس کے سابقہ شوہر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں، البتہ پہلا خاوند اپنی شادی کا خرچہ وصول کرسکتا ہے۔

پہلا بچہ پیدا ہونے پربڑی دعوت کی جاتی ہے، جس میں بکرے اور بیل ذبح ہوتے ہیں، یہ دعوت لڑکی والوں کے ہاں کی جاتی ہے۔ مگر اخراجات لڑکے والوں کو کرنے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ لڑکے والوں کو لڑکی کے ہر رشتہ دار کو ہزار یا دو ہزار روپے فی کس بھی دینے ہوتے ہیں، اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اسی جنس کا ہوا تو یہ سب کچھ اس موقع پر بھی ہوگا، یہاں تک کہ اگر مسلسل صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہوتی رہیں تو یہ رسم برقرار رہے گی، اس سے جان تب ہی چھوٹ سکتی ہے جب مخالف جنس کا بچہ پیدا ہو، اگر کالاش لڑکے یا لڑکی کو کسی مسلمان سے پیار ہو جائے تو شادی کی واحد صورت یہی ہے کہ کالاش کو اسلام قبول کرنا ہوگا، خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔

آگست کے مہینے میں کالاشی قوم اپنا سالانہ مذہبی تہوار پھور مناتی ہے۔ اس تہوار منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کالاش قبیلے کے لوگ اپنا پھل یعنی انگور اور اخروٹ اتار کر اسے موسم سرما کے لئے سٹاک کرتے ہیں اس سے پہلے ان کو میوہ اتارنے کی اجازت نہیں ہوتی اگر کسی نے چوری چھپے یہ میوہ اتارا تو اسے جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اس تہوار کے دوران کالاش قبیلے کے بزرگ لوگ ان لڑکیوں کے سروں پر پھولوں سے ڈھکی ہوئی ٹوپی رکھتے ہیں جو سن بلوغ کو پہنچ جاتے ہیں یا بلوغت کے قریب ہوتے ہیں اور یہ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ یہ لڑکیاں اب جوان ہوئے ہیں یا ہونے والے ہیں جو حصوصی ایام میں گھر کے اندر نہیں رہ سکتی اور انہیں بشالینی کو منتقلکیے جاتی ہیں۔ اس تہوار میں بڑے عمر کے لڑکیوں کے سروں پر ٹوپی رکھی جاتی ہے اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ لڑکیاں اب جوان ہیں اوریہ لوگ اپنا پھل اتار کر انہیں موسم سرما کے لئے رکھتے ہیں۔ تہوار کے آخری دن شام کے قریب کالاش قبیلے کے خواتین ہاتھوں میں پھول پکڑ کر ایک مخصوص جگہ سے آتی ہیں جن کی قیادت ایک ایسی کالاش کرتی ہے جس نے چوغہ سے منہ چھپایا ہوا ہوتا ہے اور ان کی سربراہی میں خواتین کا یہ جلوس ایک مخصوص راستے سے گزر کر ہاتھوں میں پھول ہلاتی ہیں اور گیت گاتے ہوئے اس جگہ بڑھتی ہیں جہاں کالاش خواتین و حضرات رقص کرتی ہیں جسے چرسو کہا جاتا ہے اور یہ خواتین جب وہاں پہنچ جاتی ہیں تو اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پھول ان لوگوں پر نچاور کرتی ہیں جو چرسو میں رقص کرتی ہیں۔ اس تہوار میں بزرگ خواتین بھی پھولوں سے سجی ہوئی ٹوپی سر پر رکھتی ہے اور بوڑھے جوان یکساں طور پر اس میں حصہ لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).