عورت کی تذلیل کرنے والے غیرت مند نہیں، محض ریا کار، منافق اور تماش بین ہیں۔۔۔


بات بہت چھوٹی تھی مگر تذلیل بہت بڑی کی گئی۔

بات اتنی ہی تھی کہ تپتی دھوپ اور سخت گرمی  میں بس کے انتظار میں روڈ پر کھڑی ایک غریب عورت کو سواری کے طور پر اٹھانے  کے لیئے کو ئی بس والا بس نھیں روک رہا تھا۔ شاید اس کے کپڑوں سے بس والوں کواس کی غربت کا  اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ عورت کرایہ دے  بھی سکے گی کہ نہیں۔

 تنگ آمد بجنگ آمد، عورت نے بیزار ہوکر پتھر اٹھایا اور گذرتی ہوئی بس پر دے مارا۔ ہم اس عورت کے اس عمل کی بھی حمایت نھیں کرتے۔ مگر جواب میں جو اس عورت کے ساتھ  مقدس ماہ رمضان میں لوگوں کے ہجوم نے کیا وہ اس عورت کی حرکت سے کہیں زیادہ سنگین اور بھیانک تھا۔

کچھ لوگوں نے عورت کو پکڑا اور بجلی کے پول سے ایسے باندھ دیا جیسے بکری کو باندھا جا تا ہے۔

بات یہاں پر ختم نھیں ہوئی، تذلیل، قہقہے، جملے، پہر قہقہے، موبائیل فون پر رکارڈنگ،  جیسے کوئی فلمی سین ہو سب کافی دیر تک جاری رہا۔ مجمع بھی کافی بڑا تھا اور عورت کی تذلیل کا مزہ لیتا رہا۔ منسلک تصویر عین اس واقعے کی ہے ۔

 یہ واقعہ کسی دور افتادہ گائوں یا پسماندہ علاقے میں پیش نھیں آیا۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے علائقے سائیٹ ایریا میں نارا جیل کے نزدیک یہ واقعہ کل  (5 جون) پیش آیا ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہجوم میں کسی ایک نے بھی اس عورت کو چھڑانے کی زحمت نہیں کی۔ سرکس کی طرح شو دیکھتے رہے۔ کافی دیر بعد جب اس شو سے ہجوم کا دل بھر گیا تو علاقے کے نیک مرد سامنے آئے، اس عورت کو بجلی کے پول سے کھولا ، کرایہ دیا اور اس کو ٹنڈو محمد خان روانہ کردیا ، جہاں جانے کے لیئے وہ بس والوں سے  بس روکنے کی منتیں کر رہی تھی،

عورت کا نام شکیلا بتایا گیا ہے۔ غربت اور افلاس کی ماری شکیلا زکوٰۃ اور خیرات مانگ کر گزارہ کرتی ہے۔

شکیلا کو تو نیک مردوں  نے کرایہ دیکر  ٹنڈو محمد خان روانہ کر دیا مگر پولیس ، دیر ہی سے سہی، پر حرکت میں آگئی۔ ایس ایس پی حیدرآباد عرفان بلوچ نے واقعے کا نوٹس لیا اور ان کے حکم پر  شکیلا کو بھرے مجمعے میں دن دہاڑے بجلی کے پول کے ساتھ جانوروں کی طرح باندھ کر رکھنے والے شاھجہان  اور اس کے پانچ ساتھیوں کو پولیس نے واقعے کی وڈیو کی مدد سے شناخت کر کے گرفتار کر لیا ہے۔

سوال پھر وہی ہے۔ ہم جا کہاں رہے ہیں ؟ نہ عورت کا خیال ، نہ انسان کا احترام، نہ اس کی مفلسی کا لحاظ، نہ اس کی غربت کا خیال، نہ رمضاں کے مقدس مہینے کا احترام ، نہ خوف خدا، نہ قانون کا ڈر۔ پھر بھی ہم اخباروں میں اور سوشل میڈیا پر خود کو غیرت مند کہتے ہیں۔ شاید اب ہمین مان لینا چاہیے کہ ہم غیرت مند نہیں، محض ریا کار، منافق اور تماش بین ہیں۔ ہم انسان کہلانے کے مستحق نہیں، محض جانور ہیں اور ایک دوسرے کو بھیڑ بکریوں کی طرح باندھ کر دوسروں کی بے بسی اور غربت سے مزہ لینا ہماری تہذیب کی معراج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).