ہوئے مر کے جو ہم رسوا (3)۔


مجھے چہلم میں بھی شرکت کا اتفاق ہوا۔ لیکن سوائے ایک نیک طینت مولوی صاحب کے جو پلاو ٔکے چاولوں کی لمبائی اور گلاوٹ کو مرحوم کےٹھیٹ جنتی ہونےکی نشانی قرار دے رہے تھے، بقیہ حضرات کی گل افشانی گفتار کا وہی انداز تھا۔ وہی جگ جگے تھے، وہی چہچہے!

ایک بزرگوار جو نان قورمے کے ہر آتشیں لقمے کے بعد آدھا آدھا گلاس پانی پی کر قبل از وقت سیر بلکہ سیراب ہوگئے تھے، منہ لال کر کے بولے کہ مرحوم کی اولاد نہایت ناخلف نکلی۔ مرحوم و مغفور شدومد سے وصیت فرما گئے تھے، کہ میری مٹی بغداد لے جائی جائے۔ لیکن نافرمان اولاد نے ان کی آخری خواہش کا ذرا پاس نہ کیا۔

اس پرایک منہ پھٹ پڑوسی بول اٹھے’’صاحب! یہ مرحوم کی سراسر زیادتی تھی کہ انہوں نے خود تو تادم مرگ میونسپل حدود سے قدم باہر نہیں نکالا۔ حد یہ کہ پاسپورٹ تک نہیں بنوایا اور۔ ‘‘
ایک وکیل صاحب نے قانونی موشگافی کی’’بین الاقوامی قانون کے بموجب پاسپورٹ کی شرط صرف زندوں کے لیے ہے۔ مردے پاسپورٹ کے بغیر بھی جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ ‘‘

’’لے جائے جاسکتے ہیں‘‘ مرزا پھر لقمہ دے گئے۔

’’میں کہہ رہا تھا کہ یوں تو ہر مرنے والے کے سینے میں یہ خواہش سلگتی رہتی ہے کہ میرا کانسی کا مجسمہ(جسے قد آدم بنانے کےلیے بسا اوقات اپنی طرف سے پورے ایک فٹ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے) میونسپل پارک کے بیچوں بیچ استادہ کیا جائے اور۔ ‘‘

’’اور جملہ نازنینان شہر چار مہینے دس دن تک میرے لاشے کو گود میں لیے، بال بکھرائے بیٹھی رہیں‘‘ مرزا نے دوسرا مصرع لگایا۔

’’مگر صاحب! وصیتوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ چھٹپن کا قصہ ہے۔ پیپل والی حویلی کے پاس ایک جھونپڑی میں 39ء تک ایک افیمی رہتا تھا۔ ہمارے محتاط اندازے کے مطابق عمر 66 سال سے کسی طرح کم نہ ہوگی، اس لیے کہ خود کہتا تھا کہ پینسٹھ سال سے تو افیم کھا رہاہوں۔ چوبیس گھنٹے انٹاغفیل رہتا تھا۔ ذرانشہ ٹوٹتا تو مغموم ہوجاتا۔ غم یہ تھا کہ دنیا سے بے اولادا جارہا ہوں۔ اللہ نے کوئی اولاد نرینہ نہ دی جو اس کی بان کی چارپائی کی جائز وارث بن سکے! اس کے متعلق محلے میں مشہور تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے نہیں نہایا ہے۔ اس کو اتنا تو ہم نے بھی کہتے سنا کہ خدا نے پانی صرف پینے کے لیے بنایا تھا مگر انسان بڑا ظالم ہے

راحتیں اوربھی ہیں غسل کی راحت کے سوا

ہاں تو صاحب! جب اس کا دم آخر ہونے لگا تو محلے کی مسجد کے امام کا ہاتھ اپنے ڈوبتے دل پر رکھ کر یہ قول و قرار کیا کہ میری میت کو غسل نہ دیا جائے۔ بس پولے پولے ہاتھوں سے تیمم کرا کے کفنا دیا جائے ورنہ حشر میں دامن گر ہوں گا۔ ‘‘

وکیل صاحب نے تائید کرتے ہوئے فرمایا ’’اکثر مرنے والے اپنے کرنے کے کام پسماند گان کو سونپ کرٹھنڈے ٹھنڈے سدھارجاتے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں دیوانی عدالتیں بند ہونے سے چند یوم قبل ایک مقامی شاعر کا انتقال ہوا۔ واقعہ ہے کہ ان کے جیتے جی کسی فلمی رسالے نے بھی ان کی عریاں نظموں کو شمندۂ طباعت نہ کیا۔ لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ مرحوم اپنے بھتیجے کو ایصال ثواب کی یہ راہ سجھا گئے کہ بعد مردن میرا کلام حنائی کاغذ پر چھپوا کر سال کے سال میری برسی پر فقیروں اور مدیروں کو بلا ہدیہ تقسیم کیا جائے۔

پڑوسی کی ہمت اور بڑھی ’’اب مرحوم ہی کو دیکھیے۔ زندگی میں ہی ایک قطعۂ اراضی اپنی قبر کے لیے بڑے ارمانوں سے رجسٹری کرا لیا تھا گو کہ بچارےاس کا قبضہ پورے بارہ سال بعد لے پائے۔ نصیحتوں اور وصیتوں کا یہ عالم تھا کہ موت سے دس سال پیشتر اپنے نواسوں کے ایک فہرست حوالے کردی تھی، جس میں نام بنام لکھا تھا کہ فلاں ولد فلاں کو میرا منہ نہ دکھایا جائے۔ (جن حضرات سے زیادہ آزردہ خاطر تھے، ان کے نام کے آگے ولدیت نہیں لکھی تھی۔ )تیسری شادی کے بعد انہیں اس کا طویل ضمیمہ مرتب کرنا پڑا، جس میں تمام جوان پڑوسیوں کے نام شامل تھے۔ ‘‘

’’ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ مرحوم نہ صرف اپنے جنازے میں شرکا کی تعداد متعین کرگئے بلکہ آج کے چہلم کا ’مینو‘ بھی خود ہی طے فرما گئے تھے۔ ‘‘ وکیل نے خاکے میں شوخ رنگ بھرا۔

اس نازک مرحلے پرخشخشی داڑھی والے بزرگ نے پلاؤ سے سیر ہو کر اپنے شکم پرہاتھ پھیرا اور ’مینو‘ کی تائید و توصیف میں ایک مسلسل ڈکار داغی، جس کے اختتام پر اس معصوم حسرت کا اظہار فرمایا کہ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تو یہ انتظامات دیکھ کر کتنے خوش ہوتے!

اب پڑوسی نے تیغ زبان کو بے نیام کیا ’’مرحوم سدا سے سوء ہضم کے مریض تھے۔ غذا تو غذا، بچارے کے پیٹ میں بات تک نہیں ٹھیرتی تھی۔ چٹ پٹی چیزوں کو ترستے ہی مرے۔ میرے گھر میں سے بتا رہی تھیں کہ ایک دفعہ ملیریا میں سرسام ہو گیا اور لگے بہکنے۔ بار بار اپنا سر منجھلی کے زانو پر پٹختے اور سہاگ کی قسم دلا کر یہ وصیت کرتے تھے کہ ہر جمعرات کو میری فاتحہ، چاٹ اور کنواری بکری کی سری پر دلوائی جائے۔ ‘‘

مرزا پھڑک ہی توگئے۔ ہونٹ پرزبان پھیرتے ہوئے بولے ’’صاحب! وصیتوں کی کوئی حد نہیں۔ ہمارے محلے میں ڈیڑھ پونے دو سال پہلے ایک اسکول ماسٹر کا انتقال ہوا، جنھیں میں نے عید بقرید پر بھی سالم و ثابت پاجامہ پہنے نہیں دیکھا۔ مگر مرنے سے پہلے وہ بھی اپنے لڑکے کو ہدایت کر گئے کہ

پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا!

لیکن حضور ابا کی آخری وصیت کے مطابق فیض کے اسباب بنانے میں لڑکے کی مفلسی کے علاوہ ملک کا قانون بھی مزاحم ہوا۔ ‘‘

’’یعنی کیا؟ ‘‘ وکیل صاحب کے کان کھڑے ہوئے۔

’’یعنی یہ کہ آج کل پل بنانے کی اجازت صرف پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کو ہے۔ اور بالفرض محال کراچی میں چار فٹ گہرا کنواں کھود بھی لیا تو پولیس اس کا کھاری کیچڑ پینے والوں کا چالان اقدام خودکشی میں کردے گی۔ یوں بھی پھٹیچر سے پھٹیچر قصبے میں آج کل کنویں صرف ایسے ویسے موقعوں پر ڈوب مرنے کے لیے کام آتے ہیں۔ رہے تالاب، توحضور! لے دے کے ان کا یہ مصرف رہ گیا ہے کہ دن بھر ان میں گاؤں کی بھینسیں نہائیں اورصبح جیسی آئی تھیں، اس سے کہیں زیادہ گندی ہو کر چراغ جلے باڑے میں پہنچیں۔ ‘‘

خدا خدا کرکے یہ مکالمہ ختم ہوا تو پٹاخوں کا سلسلہ شروع ہوگیا:

’’مرحوم نے کچھ چھوڑا بھی؟ ‘‘
’’بچے چھوڑے ہیں!‘‘
’’مگر دوسرا مکان بھی تو ہے۔ ‘‘

’’اس کے کرایے کو اپنے مرزا کی سالانہ مرمت سفیدی کے لیے وقت کرگئے ہیں۔ ‘‘

’’پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ بیاہتا بیوی کے لیے ایک انگوٹھی بھی چھوڑی ہے۔ اگر اس کا نگینہ اصلی ہوتا تو کسی طرح بیس ہزار سے کم کی نہیں تھی۔ ‘‘
’’توکیا نگینہ جھوٹا ہے؟ ‘‘
’’جی نہیں۔ اصلی امی ٹیشن ہے!‘‘
’’اوروہ پچاس ہزارکی انشورنس پالیسی کیا ہوئی؟ ‘‘
’’وہ پہلے ہی منجھلی کے مہر میں لکھ چکے تھے۔ ‘‘

’’اس کے بارے میں یار لوگوں نے لطیفہ گھڑرکھا ہے کہ منجھلی بیوہ کہتی ہے کہ سرتاج کے بغیر زندگی اجیرن ہے۔ اگر کوئی ان کو دوبارہ زندہ کردے تو میں بخوشی دس ہزار لوٹانے پر تیارہوں۔ ‘‘
’’مرحوم اگرایسا کرتے ہیں تو بالکل ٹھیک کرتے ہیں۔ ابھی توان کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا۔ مگر سننے میں آیا ہے کہ منجھلی نے رنگے چنے دوپٹے اوڑھنا شروع کردیا ہے۔ ‘‘

’’اگر منجھلی ایسا کرتی ہے تو بالکل ٹھیک کرتی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک زمانے میں لکھنؤ کے نچلے طبقے میں یہ رواج تھا کہ چالیسویں پر نہ صرف انواع و اقسام کے پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا، بلکہ بیوہ بھی سولہ سنگھارکرکے بیٹھتی تھی تاکہ مرحوم کی ترسی ہوئی روح کماحقہ، متمتع ہوسکے۔ ‘‘ مرزا نے ’ح‘ اور ’ع‘ صحیح مخرج سے ادا کرتے ہوئے مَرے پر آخری درہ لگایا۔

واپسی پر راستے میں میں نے مرزا کو آڑے ہاتھوں لیا ’’جمعہ کو تم نے وعظ نہیں سنا؟ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ مَرے ہوؤں کا ذکر کرو تو اچھائی کے ساتھ۔ موت کو نہ بھولو کہ ایک نہ ایک دن سب کو آنی ہے۔ ‘‘

سڑک پار کرتے کرتے ایک دم بیچ میں اکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا ’’اگر کوئی مولوی یہ ذمہ لے لے کہ مرنے کے بعد میرے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ لکھا جائے گا تو آج ہی۔ اسی وقت، اسی جگہ مرنے کے لیے تیارہوں۔ تمہاری جان کی قسم!‘‘

آخری فقرہ مرزا نے ایک بے صبری کار کے بمپر پر تقریباً اکڑوں بیٹھ کر جاتے ہوئے ادا کیا۔

(جولائی 1961ء) ​

ختم شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).