افغان اور ایرانی پاکستان سے لڑائی کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟


ہمارے اکثر ہم وطن اس بات پر گاہے بگاہے حیران ہوتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان پر اتنے زیادہ احسانات ہونے کے باوجود افغان پاکستان سے اتنے ناراض کیوں ہیں؟ خود سوچیں، ہم نے تو پاکستان کو خطرے میں ڈال کر افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ جب سوویت یونین امریکہ جیسی سپر پاور ہوتا تھا تو افغانستان کی خاطر ہم نے اس سے ٹکر لے لی۔ اس سے قبل امریکہ کی خاطر لی تھی۔ بہرحال تیس لاکھ افغان مہاجرین کو ہم نے چالیس سال اپنے کیمپوں میں رکھا اور ان کو ملک کے گوشے گوشے میں پھیل جانے کی کھلی اجازت دی۔ بلکہ وہ اگر پاکستانی شناختی کارڈ وغیرہ بھی بنوانا چاہتے تو ہم آنکھیں بند کر لیتے تھے کہ چلو بنوا لو، ہم نہیں دیکھ رہے۔ ساری دنیا فارن انویسٹمنٹ کو ترستی ہے۔ ہم نے امیر ترین عرب افغانستان پہنچا دیے کہ یہاں رہو اور افغانوں کو ڈالر دو۔ پھر بھی افغان ہم سے ناراض ہیں۔

ایران پر تو ہم صدیوں سے احسانات کر رہے ہیں۔ اگر ایرانی یاد کریں تو ہم نے شہنشاہ ہمایوں کو بارہ برس تک صرف دوستی کرنے اور فارسی سیکھنے کی خاطر ایران میں بھیج رکھا تھا۔ اس کے بعد شہنشاہ جہانگیر کی شادی بھی ایرانی لڑکی نورجہاں سے سے کرا کے پورا ہندوستان اسے سونپ دیا۔ نورجہاں کی وجہ سے ہمارا ملک تو ایرانیوں کے لئے بیٹی کے سسرال جیسا ہونا چاہیے۔ بلکہ ایران کا دل رکھنے کی خاطر تو ہم نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار کی آفیشل زبان تک فارسی قرار دے کر سکھوں سے فارسی بلوا دی تھی۔ آج بھی ہم تمام عربوں کی ناراضگی مول لے رہے ہیں کہ ایران کو خفا نہیں کرنا مگر وہ تو کوئی دید لحاظ ہی نہیں کرتے ہیں۔

پھر افغان اور ایرانی کیوں پاکستان سے اتنے زیادہ ناراض ہیں؟

وجہ سامنے ہی ہے۔ آپ تاریخ پر معمولی سا غور کریں تو دیکھیں گے کہ ہر سو دو سو سال بعد افغانستان یا ایران وغیرہ سے ہندوستان پر حملہ کیا جاتا تھا۔ جب افغانیوں یا ایرانیوں کو غربت و عسرت ستاتی تھی تو وہ لاہور یا دہلی وغیرہ پر حملہ کر کے یہاں کا مال و دولت لوٹ لیتے تھے اور لونڈیوں غلاموں کی ضروریات بھی اس سرزمین سے پوری کر لیتے تھے۔ اب پانی پت کی آخری جنگ، یعنی خیبر پار سے ہندوستان پر آخری بڑے حملے کو کوئی دو ڈھائی سو برس بیت گئے ہیں۔ افغان اور ایرانی فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ بچارے افغانی پوست اگا اگا کر چار پیسے بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور پوستی ہوئے جاتے ہیں،  اور ایرانی مٹی کا تیل سستے داموں بیچ بیچ کر بدحال ہوئے پڑے ہیں۔ ان کا ہندوستان پر حملہ اوور ڈیو ہے۔ لیکن ان کی بدقسمتی کہ درہ خیبر سے واہگہ تک کا پاکستانی علاقہ ایرانیوں اور افغانوں کی پانی پت تک راہ میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ اوپر سے پاکستان افغانوں اور ایرانیوں کو بھارت جانے کے لئے تجارتی راہداری بھی نہیں دے رہا ہے کہ وہ سیدھے خیبر سے پانی پت براستہ واہگہ چلے جائیں اور لال قلعے پر اپنا جھنڈا لہرا دیں۔

تنگ آ کر یہ دونوں ملک اپنی فرسٹریشن پاکستان پر نکال رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان پر حملہ کریں گے۔ دو چار توپیں چلا بھی دیتے ہیں۔ لیکن ہمیں بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ ہمسایوں کو ناراض کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان اور ایران کو اجازت دے دے کہ وہ اپنا لشکر براستہ جی ٹی روڈ سیدھا ہندوستان لے جائیں اور لال قلعے کو جتنا جی چاہیں لوٹیں۔ بس ایک شرط لگا دی جائے کہ ہندوستان سے لوٹے ہوئے مال غنیمت میں سے کم از کم بھی پچیس فیصد مال راہداری کی محصول چونگی کے طور پر پاکستان کو دینا پڑے گا۔

امید ہے کہ اس طریقے سے ہمارے اچھے پیسے بھی بن جائیں گے اور افغان اور ایرانی اپنا لڑنے مرنے اور لوٹ مار کرنے کا شوق بھارت میں پورا کرتے رہیں گے اور بھارت بھی اپنا غصہ ان پر نکالتا رہے گا۔ مناسب ہو گا کہ ہم بھارت کو گاہے بگاہے یاد دلاتے رہا کریں کہ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی وغیرہ افغان نیشنل تھے اور نادر شاہ درانی ایرانی پاسپورٹ ہولڈر تھا۔ بھارت کو بھی پتہ چلنا چاہیے کہ اس کی زمین پر حملے کرنے والے اصل دشمن کون ہیں۔

یہ تینوں پارٹیاں آپس میں اپنے جھگڑے چکا لیں۔ ہمارا کیا ہے۔ ہم تو امن پسند لوگ ہیں۔ ان تینوں پارٹیوں سے مال غنیمت پر پچیس فیصد محصول چونگی وصول کرنے پر قانع رہیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar