اجل ان سے مل!


اگلے زمانوں میں حکیم لوگوں کے ہاتھ خدا نے بڑی شفا دے رکھی ہوتی تھی، ذرا نبض پر ہاتھ رکھا اور معدے کے ورم تک پہنچ گئے ۔ بیٹھے بیٹھے شاہجہانی پھوڑے کی وجہ دریافت کر لی، آنکھیں دیکھ کر یرقان کی سٹیج کا بتا دیا، قارورے پر ایک نظر ڈالی اور مرض کی جڑ نکال کر رکھ دی، تو وہ لوگ کچھ تو اپنے فن میں کامل تھے ، کچھ خدا نے ان کے ہاتھ میں برکت دے رکھی تھی۔ حکیم معصوم خاں شاہی دربار میں ہوتے تھے ، شہزادہ محمد اعظم شاہ کو مشورہ دیا کہ صاحب دھیان کیجیے آپ میں استسقا کی بیماری والی ساری علامات ہیں، ابھی سے یہ پرہیز اور فلاں علاج کروا لیجیے ، شہزادے نے سنی ان سنی کر دی۔ حکیم صاحب مرے تو دو برس بعد اسی مرض میں شہزادے صاحب کوچ کر گئے جس کا ذکر حکیم صاحب پہلے کر چکے تھے ۔
یہ لوگ نرے حکیم ہی نہیں ہوتے تھے ان کا شغف تصوف سے بھی رہتا تھا، غریب نواز ہوتے تھے ، جس قدر ممکن ہوتا فی سبیل اللہ بھی دوا دارو کرتے تھے ۔ مغل بادشاہ تک اس فن میں کافی مہارت رکھتے تھے جو بلاشبہ ان کے ذاتی شوق اور درباری حکیموں کی عطا تھی۔
ایک مرتبہ ایک انگریز فوجی افسر کی حاملہ بیوی باتیں کرتے کرتے زمین پر گری اور اچانک بے ہوش ہو گئی۔ موقع پر موجود ڈاکٹر آئے انہوں نے چیک کیا اور اطلاع دے دی کہ جانے والی اب جا چکی ہے اور کفن دفن کا بندوبست کیا جائے ۔ وہ افسر نہیں مانتا تھا، وہ مسلسل کہہ رہا تھا کہ پادریوں کو بلانے کی ابھی کوئی ضرورت نہیں، میں پہلے یونانی طب کے حکیموں کو بلانا چاہتا ہوں۔ ایک حکیم صاحب بلوائے گئے انہوں نے لیڈی کو چیک کیا اور دو بندوق برداروں کو ان کے دائیں بائیں کھڑا کر دیا۔ ان سے کہہ دیا کہ جب میں اشارہ کروں تو خاتون کے کانوں کے پاس بندوقیں اکٹھی چلانی ہیں۔ اشارہ کیا، بندوقیں چلیں اور میم صاحبہ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ فوجی افسر کی تو جان میں جان آئی، دوسرے لوگ بھی بہت حیران ہوئے ۔ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ حکیم صاحب نے سکتہ ڈائیگنوز کیا تھا اور اس کا حل اندر موجود بچے کو ہلانا جلانا تھا۔ یہ بزرگ حکیم اجمل خان کے دادا تھے ۔
حکیم عبدالمجید خاں دہلی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے ، ان کا بڑا ٹیکا ہوا کرتا تھا۔ وہی انگریز سرکار تھی جو منہ سے کوئی بات نکالے تو کوئی اختلاف کی جرأت نہیں کرتا تھا لیکن خاں صاحب خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے تھے ۔ ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی۔ پہلے دستور تھا کہ جسے طاعون ہو گیا اسے فوراً شہری آبادی چھوڑ دینے کا حکم ہوتا تھا۔ حکومت کی خلاف ورزی کون کرے ، ایک تو بیمار ہوتے اوپر سے گھر کا سکھ نہ ہونے کی وجہ سے بیماری سیدھی سیدھی موت کی پیامبر سمجھی جاتی تھی۔ تو اس مرتبہ بھی سفید بادشاہوں نے حکم دیا کہ طاعون کے مریض شہری آبادی خالی کر دیں۔ اب بے چارے غریب فقٹے لوگ، مہتر، شاگرد پیشہ کون ان کو پوچھنے والا تھا، جانے لگے تو حکیم صاحب کا حکم آیا “کوئی شہر سے باہر نہیں جائے گا، میں اس بیماری کا بندوبست شہر کے اندر ہی کر دوں گا” دیکھنے والوں نے دیکھا کہ بھرپور بندوبست ہوا، علاج ہوا، لوگ ٹھیک ہو گئے اور انگریز حکومت کی حکم عدولی بھی ہوئی لیکن مجال ہے خاں صاحب تک کوئی آنچ بھی پہنچی ہو۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ راہ خدا ہوتا تھا۔ نرم دل کے لوگ تھے ، وضع دار تھے ، فرعونیت کے سریے ان کی گردنوں کو چھو کر نہیں گزرے تھے۔ تو وہ زمانے لد گئے، وہ بساط الٹ گئی، کیا وہ جواں گزر گئے؟ ہاں وہ جواں گزر گئے! اب یہاں ان کا راج ہے جو طب کے نام پر کلنک کا ٹیکا ہیں، دوائے دل بیچنے والے دکان بڑھا گئے ۔ ان کے بعد ہی یہاں انگریزی طب نے ڈیرے ڈالے ۔
انسان پیدا ہونے سے مرنے تک روزانہ خوراک ہضم کرنے اور اسے ٹھکانے لگانے کے مراحل میں رہتا ہے ۔ نہاتا دھوتا ہے ، سو طرح کا گند اور ہوتا ہے ، یہ سب گٹر میں جاتا ہے اور جس دن گٹر ابل پڑے تو لگ پتہ جاتا ہے ۔ طبیعت ہری ہو جاتی ہے ، کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ جا کر ایک ڈنڈا ہی نالی یا گٹر میں چلا دیا جائے۔ گاڑیاں نکال کر دوڑیں لگائی جاتی ہیں اور کہیں نہ کہیں سے بے چارہ گٹر صاف کرنے والا آتا ہے ۔ لمبا سا بانس چلا کر یا کبھی کبھی خود اندر اتر کے سب کچھ صاف کرتا ہے ، انسان کی جان میں جان آتی ہے اور اس بے چارے سے بحثم بحثی کے بعد معاوضہ تین سو کے بجائے دو سو روپلی کروا کے اس کی تلی پر رکھے جاتے ہیں اور اسے بھگا دیا جاتا ہے ، پانی مانگ لے تو وہ بھی سب سے گندے برتن میں دیا جاتا ہے ، اس سے ہاتھ واتھ بھی کوئی نہیں ملاتا۔ تو ایسا ہی ایک مرنے والا عرفان مسیح آج مر گیا۔
عرفان لیکن مرا نہیں اسے مارا گیا۔ ڈاکٹروں کا فرمانا تھا کہ ہم روزے سے ہیں، پہلے اسے نہلا کر لاؤ۔ خدا کا خوف کرو یار بندہ مر رہا ہے اور اسے نہلا کر لائیں؟ اس کے بھائی اس کے منہ سے منہ جوڑ کر سانسیں ادھار دے رہے ہیں اور تم لوگ ہاتھ نہیں لگا سکتے ؟ یہ کیسی پاکیزگی ہے جو ایک انسان کو سامنے مرتے دیکھ کر بھی نہیں ٹوٹ رہی؟ ٹھیک ہے روٹین کی بات ہو گی لیکن روزہ تو بابا سکھاتا ہی یہی ہے کہ نفس پر قابو پاؤ اور جتنا ہو سکے دوسروں کی مدد کرو۔ خدا نے ایک راج سنگھاسن پر بٹھا ہی دیا ہے تو روزے میں ایسے نخرے بھی کیے جائیں گے ؟ کہاں گئے وہ انسانیت کی خدمت کے وعدے ، وہ حلف نامے وہ سرکاری نوکریوں کی ایفی ڈیوٹ جن میں ڈیوٹی ہر حال میں سر آنکھوں پر رکھنی ہوتی ہے ؟ انسانیت کے ناتے نہ سہی، اپنی ڈیوٹی سمجھ کر اس بندے کی جان بچا لیتے ۔ اپنے بہن بھائیوں کے سامنے وہ نوجوان تڑپ تڑپ کر مرگیا اور ان کے دامن کو فرشتے نچوڑتے رہے ۔ روزہ بچا کے بندہ مار دیا۔ حد ہے اور بے حد ہے ۔
عرفان گٹر میں اترتا ہے تو اسے سیفٹی کٹ نہیں ملتی، عرفان گٹر سے باہر بے ہوش آتا ہے تو اسے آکسیجن کٹ نہیں ملتی، اسے قدرت سے ڈیتھ کٹ ملتی ہے ! واحد علاج جو گندگی میں لتھڑے عرفان مسیح کو ملتا ہے وہ موت ہے ۔ موت اسے گلے لگاتی ہے ، اس چیز کی پروا کیے بغیر کہ وہ گندا ہے ، وہ کس مذہب کا ہے ، وہ کس علاقے سے ہے ، اس کا پیشہ کیا ہے ، موت فرق نہیں کرتی، موت اسے قبول کرتی ہے ۔ عین ویسے ہی جیسے ان ڈاکٹروں کو کرے گی، عین ویسے ہی جیسے یہ لفظ پڑھنے والے جائیں گے اور عین ایسے ہی جیسے یہ ہفوات لکھنے والا جائے گا۔ موت سب کو گلے لگائے گی!
اجل ان سے مل/ کہ یہ سادہ دل/ نہ اہل صلوٰۃ اور نہ اہل شراب / نہ اہل ادب اور نہ اہل حساب / نہ اہل کتاب اور نہ اہل مشین / نہ اہل خلا اور نہ اہل زمین / فقط بے یقین/ اجل ان سے مت کر حجاب/ اجل ان سے مل!

بشکریہ روز نامہ دنیا 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain