جب لینہ حاشر پر مولوی صاحب نے بہیمانہ تشدد کیا


کچھ واقعات آپ کے دل و دماغ میں ایسے جم جاتے ہیں کہ لاکھ جھٹکنے کے بعد بھی آپ ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ان یادوں سے جتنا باہر آنے کی کوشش کی جاتی ہے آپ دلدل کی طرح اس کے اندر ہی دھنستے چلے جاتے ہیں۔ کچھ لمحوں کے بھنور میں آپ اپنی عمر گزار دیتے ہے۔ میرے دماغ میں بھی کچھ ایسی ہی بھیانک یادیں نقش ہیں۔ ان میں سے ایک کا ذکر کرتی چلوں۔

یہ قصہ ہے ان دنوں کا جب آپ کے دل میں چھوٹی چھوٹی خواہشات پنپتی ہیں۔ بڑی سے بڑی ناراضگی پیار کی ایک مسکان پر ختم ہو جاتی ہے۔ جب چاند چندا ماما کہلاتا ہے۔ جب بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ زبان کچھ توتلے انداز میں بات سمجھانے کے فن سے واقف ہو چکی ہوتی ہے۔ نت نئے الفاظ کی آشنائی کا لطف لینے کی کوشش میں جملے منہ میں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ ایک غصے بھری نگاہ سے دل سہم جاتا ہے اور ماں کے سینے سے لگے بغیر نیند نہیں آتی۔ میں بھی اسی عمر سے گزر رہی تھی۔ تب میرا نام لینہ مسعود ہوا کرتا تھا۔

میں نے اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ میرے بہن بھائی مسجد سپارہ پڑھنے جاتے تھے۔ شاہ جی ہمارے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب تھے۔ جو بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ دل میں خواہش تھی کہ میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ شاہ جی سے پڑھنے جایا کروں۔ روز امی سے ضد کرتی پر روز یہ ہی جواب ملتا کہ ابھی نہیں۔ پھر ایک دن دادی جان سے سفارش کروا کے امی سے اپنی بات منوا لی۔ اجازت ملتے ہی سب گھر والے میری مسجد میں پہلی بار جانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ دادی جان نے میرے لیے سپارہ اور ایک چھوٹی سی نئی رحل منگوائی۔ چاچو بھاگے بھاگے جوس لے کر آئے۔ پھپھو نے پچاس پیسے میرے ہاتھ پر دھر دیے۔ اماں دودھ سے بھرا گلاس میرے آگے رکھ کر بولیں کہ ایک گھونٹ میں پی جاؤ۔ میرے بالوں کی چوٹی بنا دی گئی۔ دادی نے کہا جاؤ اب جلدی سے دوپٹہ لے آؤ۔ میں بھاگتے ہوئے کمرے میں گی اور دادی جان کی نماز کا دوپٹہ اٹھا لائی۔ دوپٹہ ہاتھ میں تھامے کمرے سے باہر آ رہی تھی کہ سب گھر والوں کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ گھر میں دادی کی جانماز اور دوپٹے کو کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ سفید رنگ کا وہ خوبصورت دوپٹہ جس کو پہن کر دادی کا چہرہ اور نورانی لگنے لگتا تھا میرے ہاتھوں کی زد میں تھا۔ میں دادی کی طرف لپک رہی تھی اور سب گھر والے میری طرف۔ دادی ان سب کے درمیان بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔ اماں اور پھپھو دوپٹہ لینے کی کوشش میں تھے کہ اتنی دیر میں دادی کی آواز آئی

“رہنے دو“۔

سب گھر والے جانتے تھے کہ میں دادی کی لاڈلی ہوں اس لیے میں دادی کی ہر چیز پر اپنا حق جتاتی تھی۔ میری کسی بھی قسم کی ضد ہو دادی اسے فرض لازم کی طرح گھر والوں سے پورا کروا کر ہی دم لیتی تھیں۔ دوسرے گھر والوں کا مجھ سے حسد کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ ہر شرارت پر دادی یہ ہی کہتی تھیں

“ چھوٹی ہے بچی ہے چلو اس بار چھوڑ دو“

دادی کا چادر نما دوپٹہ اوڑھ کر میں اس میں چھپ گئی تھی۔

میں دادی پر اور دادی مجھ پر واری واری جا رہی تھیں۔ ادھر دادی کا دوپٹہ اوڑھا ادھر میں نے سب گھر والوں کو زبان نکال کر چڑا دی۔ اور پھر یہ کہتے ہوئے دادی سے لپٹ گی کہ ”دادی تو صرف میری ہیں“

مسجد جانے کی تیاری تک دادی جان کا دوپٹہ سر سے کتنی ہی بار اترا۔ دوپٹہ ہر بار سر سے ہوتا ہوا پیروں تک آن پہنچتا۔ کبھی اس میں دایاں پاوں پھنس جاتا اور کبھی بایاں۔ سب نے کہا کہ چھوٹا دوپٹہ لے لو پر ضد یہ ہی کہ یہ ہی لینا ہے۔ پہلا دن تھا اس لیے دادی جان نے خاص طور پر بھائی کو ہدایت کی کہ اپنی چھوٹی بہن کا بہت خیال رکھنا۔ اس تاکید کے ساتھ ہی میری چھوٹی سی ہتھیلی کو دادی نے ٹافیوں سے بھر دیا۔ دادی بولیں ”بیٹا جب آپ کو مولوی صاحب پہلا سبق پڑھا دیں تو اپنا منہ میٹھا کر لینا“ بس پھر کیا تھا دل کیا کہ اڑ کر مولوی صاحب سے سبق لوں اور اپنا منہ جلدی سے میٹھا کر لوں۔ اس دن میں پہلی بار کسی درس گاہ کی طرف اپنی بڑی بہن کا ہاتھ تھامے قدم بڑھا رہی تھی۔ میں پڑھنے کے شوق میں کبھی بھاگتی، کبھی رکتی، کبھی سر پر دوپٹہ لینے کی کوشش کرتی۔

پانچ منٹ کا رستہ میرے دوپٹہ کی بدولت پندرہ منٹ میں طے ہوا۔ راستے میں نجانے کتنی بار منہ میں ٹافیوں کا ذائقہ محسوس ہوا جو میری مٹھی میں بند تھیں۔

اللہ اللہ کر کے مسجد میں قدم رکھا تو سارے بچے قرآن کو اونچی آواز میں پڑھنے میں مصروف تھے۔ ایک طرف لڑکوں کی لائن بنی تھی اور دوسری طرف سب لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ میں اپنی بہن کے ساتھ لڑکیوں کی قطار میں شامل ہو گئی۔ بہن نے آہستہ سے میرے کان میں بتایا کہ آج کوئی نئے مولوی صاحب ہیں یہ شاہ جی نہیں ہیں۔ اتنی دیر میں اڑتا ہوا چابیوں کا ایک گچھا میرے ساتھ والی لڑکی کے سر پر لگا جو باتوں میں مشغول تھی۔ مسجد میں یک دم سناٹا چھا گیا۔

میں منہ میں دوپٹہ ڈالے اس کو تکنے لگی۔ مولوی صاحب اپنے جاہ و جلال کے ساتھ اپنی جگہ سے اٹھے اور اس لڑکی کو ایک دو تھپڑ رسید کرنے کے بعد اپنی نشست پر تشریف لے گئے۔ جاتے جاتے دو چار بچوں کو مار کر باور کروایا کہ اب تم میں سے کسی نے بھی بات کی تو تمہارا بھی یہی حشر ہو گا۔ میں منہ میں دوپٹہ ڈالے خوف سے اپنی بڑی بہن کے ساتھ چپک گئی۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ تمہارا آج پہلا دن ہے اس لیے مولوی صاحب تم کو کچھ نہیں کہیں گے۔ میں سہمی بیٹھی تھی کہ اتنی دیر میں مولوی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے مجھے بلایا۔ میں ڈرتی ڈرتی دوپٹہ میں گرتی پڑتی مولوی صاحب کے پاس پہنچی۔ میں نورانی قاعدے کا پہلا صحفہ نکال کر اس بات کی منتظر تھی کہ مولوی صاحب مجھے پڑھائیں گے۔ میں جلدی سے سبق لے کر اپنی بند مٹھی کھول کر ٹافیوں کا مزا لینا چاہتی تھی۔ میری تمام تر توجہ ٹافیوں پر مرکوز تھیں۔ کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ ایک گرج دار آواز آئی ”پڑھ“

میں پڑھتی کیا میرا تو پہلا دن تھا اور شاید ان مولوی صاحب کا بھی۔ میں مزید سہم چکی تھی۔ میرے ہونٹ باہر کی طرف آ چکے تھے۔ کہ پھر آواز آئی

“ پڑھ“

بس اس بار کی خاموشی مولوی صاحب کو بہت ہی ناگوار گزری۔ انہوں نے پھر اپنے دائیں ہاتھ سے میرے بال پکڑے اور بائیں ہاتھ سے منہ پر ایک زور دار تمانچہ رسید کیا۔ پھر ایک زور دار آواز آئی
”پڑھ“

میری جانب سے صرف رونے کی آواز ہی مولوی صاحب کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ مولوی صاحب نے اپنی چابیوں سے بھرا گچھا میری طرف اچھال دیا۔ میرے سر پر لگتے ہی مجھے دن میں تارے نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے ڈنڈا پکڑا اور کپڑوں کی طرح میری دھنائی شروع کر دی۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی صفوں کے درمیان مجھے لاتوں مکوں اور ڈنڈے سے پیٹا جا رہا تھا۔

اس ہی مار پیٹ کے دوران میں تڑپتی بلکتی ہوئی کبھی صف کی ایک جانب بھاگتی تو کبھی دوسری جانب۔ جب بھاگنے کی ہمت جواب دے گئی تو بس میں ایک مچھلی کی طرح فرش پر تڑپتی رہی۔ ماتھے سے خون نکل رہا تھا، جسم میں تکلیف اتنی کہ ہلنے کی سکت نہ تھی۔ سانسیں رک رک کر آ رہی تھیں۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ منہ سے بولے جانے والے الفاظ آواز سے خالی تھے۔ بھائی نے ہمت کر کے مولوی صاحب کا ہاتھ پکڑا تو اس کو بھی مارا گیا۔ کب یہ قیامت تھمی مجھے آج تک صحیح طرح یاد نہیں۔

ادھر گھر میں دادی پلاسٹک کی ایک گڑیا تھامے میری منتظر تھیں۔ وہ اس بات سے بےخبر تھیں جو مجھ پر گزر چکی تھی۔ مجھے نیم بےہوشی کے عالم میں گھر لایا گیا۔ دادی نے مجھے دیکھتے ہی پلاسٹک کی گڑیا کو پھینک کر اپنی گڑیا کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ ڈاکٹر، دوائی ہسپتال۔ ٹھنڈے پانی کی پٹی کی کچھ آوازیں میرے کانوں سے ٹکرائی تھیں۔ وہ ننھی سی لینہ جو دل میں پڑھنے کا شوق لیے ہر روز اپنی اماں سے مسجد جانے کی ضد کرتی تھی، روتی کرلاتی چارپائی پر لیٹی خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ میرے بالوں کی چوٹی جو بڑے پیار سے بنائی گی تھی بکھری ہوئی تھی۔ آنکھوں میں رو رو کر لالی بھر چکی تھی۔ ایک پاوں میں چپل تھی دوسرے میں سوجن اتنی تھی کہ چپل آنے کا سوال ہی نہ تھا۔ ماتھے سے رستا ہوا خون دادی کے سفید دوپٹہ کو جگہ جگہ سے رنگ گیا تھا۔

تیز بخار سے جسم تپ رہا تھا۔ میں جسم پر نیل لیے اپنی پہلی تعلیم حاصل کر کے لوٹی تھی۔
پہلے ہی دن میرے شوق کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل اک درسگاہ میں ایک معلم کے ہاتھوں ہوا تھا۔
دادی نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔
نیم بے ہوشی میں روتی رہی چیختی رہی۔ ایک جملہ دوہرائے چلی جا تی تھی۔
کہ ”اب میں کبھی مسجد نہیں جاؤں گی“
میں اپنے شوق کو ان ٹافیوں کے ساتھ روتے بلکتے مسجد کی صفوں پر ہی گرا آئی تھی۔ مجھے اس دن منہ میٹھا کرنے کا موقع تو نہ مل سکا پر کچھ کڑوی کسیلی یادیں اپنے ساتھ لے آئی تھی۔ جس کی کڑواہٹ آج بھی میرے منہ کو بد مزا کر دیتی ہیں۔

(والد صاحب نے اسی دن ان مولوی صاحب کی سخت سرزنش کر کے ان کو مسجد سے نکلوا دیا تھا پر بہت سے بچوں کے والدین کو کبھی یہ موقع نہیں مل پاتا)

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).