رمضان یا گھمسان


گزشتہ کچھ سالوں سے رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی ملک بھر کے چینلز پرعوام کو متوجہ کرنے کے لئے رمضان نشریات کے بارے میں بلند وبانگ دعووں کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ کوئی ملک کی سب سے بڑی نشریات کا دعوی کرتا ہے تو کوئی دنیا بھر میں سب سے بڑی نشریات کی نوید سناتا ہے اور پھر رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر ٹی وی چینل کی سکرین پر حسب توفیق ایسے رنگا رنگ اور پرتعیش سیٹ لگائے جاتے ہیں جو بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی کسی فلم کے سیٹ کو بھی مات دے دیں۔ رمضان نشریات کے نام پر ایسا گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ خدا کی پناہ۔

رمضان نشریات کے نام پر ہونے والے ان ٹی وی پروگرامز میں کوئی د و تولہ، پانچ تولہ، دس تولہ اور بیس تولہ سونا بانٹتا نظر آتاہے تو کوئی بیش قیمت تحائف کے بھاری بھر کم پیکٹس کے ساتھ شہریوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کوئی عمرے کے ٹکٹ بانٹتا ہے تو کوئی موٹرسائیکل لے لو کار لے لو کی آوازیں لگاتا ہے۔ پروگرام میں عوامی دل چسپی پیدا کرنے کے لئے کوئز پروگرام کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے لیکن مجال ہے جو اس کوئز پروگرام میں دین یا روزے سے متعلق کوئی سوال شامل ہو، کبھی کوئی غلطی سرزدہوجائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بعض پروگرامز کا مواد اس قدر بے موقع اور مضحکہ خیز ہوتا ہے کہ مسخرے پن کا گمان ہوتا ہے۔

رمضان سے ایک دن پہلے فلم اور ٹی وی ڈراموں کی جوا دکارائیں اپنے جلووں سے شہریوں کو اپنا دیوانہ بناتی ہیں وہ پروگرام کے دوران وقفے وقفے سے بڑے اہتمام کے ساتھ چادر اوڑھے عوام الناس کو روزے کی فضیلت بتانے کی سعادت حاصل کرتی ہیں یہ الگ بات ہے نصف شب کے قریب شروع ہونے والی ان نشریات میں شریک ان اداکاراؤں یا اداکاروں کو سحری تک کھانا نصیب نہیں ہوتی بیچاروں کو مجبورا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے بعد میں کوئی اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ روزہ رکھنا یا نہ رکھنا ہر کسی کا ذاتی فعل ہے لیکن کسی دوسرے فرد کو ایک ایسے کام کی طرف کیسے مائل کیا جاسکتا ہے جب آپ خود اس پر عمل پیرا نہ ہوں۔ ویسے بھی اس طرف کس کا دھیان جاتا ہے اور پھر روزے یا دین کے متعلق بات کرنے کا وقت بھی پروگرام کے دوران نہ ہونے کے برابر ہی ہوتاہے۔ غرض رمضان کے نام پر ہونے والی نشریات میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن رمضان کے سوا۔

سب سے دلچسپ مرحلہ تب ہوتا ہے جب ان پروگرامز کے بیچ وقفے میں اچانک کسی کمپنی کے اشتہار میں کوئی حسینہ اپنے جلوے دکھا کر روزہ داروں کے ایمان تازہ کرتی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد انعامات کے لالچ میں ان پروگرامز میں شرکت کی متمنی ہوتی ہے اور جو اس سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں وہ ان نشریات کے دوران تمام تر مصروفیات منقطع کر کے ٹی وی سکرینوں کے سامنے براجمان ہوجاتے ہیں۔ اس ساری دھماچوکڑی میں رمضان بے چارہ بے بسی سے سوچتا تو ہو گا کہ یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ میں جب بھی کسی ٹیلی ویژن سکرین پر رمضان نشریات کے نام پر ہونے والا ہلا گلا دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بچپن کا رمضان بہت یادآتا ہے۔ فیصل آباد کا طارق روڈ، جس پر میرا بچپن گزرا وہاں حیدری مسجد آج بھی موجود ہے۔ خدا غریق رحمت کرے چٹی سفید داڑھی، کندھوں کو چھوتی زلفوں اور سرخ و سپید رنگت کا بابا عبدااللہ، جو مسجد کا خادم تھا سحری کا اعلان مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر نعت پڑھنے سے کیا کرتا۔

؂نی میں بلبل باغ مدینے دی آں اگ لاواں میں گلزاراں نوں

بابے عبدااللہ کی آواز سن کر محلے کے کچھ لڑکے بستر چھوڑتے اور مسجد پہنچ جاتے، ہر کوئی اپنے شوق سے باری باری مسجد میں نعت خوانی کرتا اور وقفے وقفے سے محلے داروں کو باخبر کیا جاتا کہ سحری کا وقت ختم ہونے میں کتنی دیر باقی ہے۔ نیا ز احمد عرف نیاجا سحری کے وقت ڈیک میں رحمت گراموفون والے کی کیسٹ لگاتا جس میں نصرت فتح علی عزیز میاں اور صابری برادران کی قوالی چلائی جاتی۔ چار چار فٹ بلند سپیکروں سے نکلنے والے آواز پورے محلے میں پھیل جاتی اور ماحول پر ایک عجیب سحر طاری ہوجاتا۔ میں آج بھی سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ تب اس قوالی کی بلند آواز سماعتوں پر گراں نہیں گزرتی تھی۔ اسی دوران محلے کے کسی گھر سے بابا عبدااللہ اور امام مسجد کے لئے کھانا پہنچ جاتا اور پھر سحری کا وقت ختم ہوتے ہی مسجد نمازیوں سے ایسے بھرتی کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی۔

ہمارے لڑکپن تک بازار راتوں کو دیر تک نہیں کھلتے تھے، مجھے یاد ہے ابو کچہری بازار میں اپنی کپڑے کی دکان عصر کی نماز پڑھنے کے بعد بند کر دیتے تھے اور یہی حال دوسرے بازاروں کا بھی تھا۔ خواتین افطاری کا اہتمام گھر میں کرتیں جبکہ مرد افطار کے لئے مشروب اور کھانا لے کر مسجد میں پہنچ جاتے۔ کیا خوبصورت دن تھے کسی کو یہ فکر نہیں ستاتی تھی کہ افطار میں سموسے، پکوڑے یا دس قسم کے پھل نہ ہوں تو افطار مکروہ ہو جائے گی۔ مسجد میں افطار کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ جو محلے دار اپنی سفید پوشی یا غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ان کوکسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا تھا، مسجد کے باہر نیم کے درخت تلے جوتے گانٹھنے والا پالمبڑ بھی افطاری مسجد میں ہی کرتا۔ پا لمبڑ کے پاس اگر کوئی چمڑے کا تعویذ بنوانے جاتا تو وہ بڑے پیار سے کہتا کہ ’’پتر تعویذ بنوان سویرے سویرے آیا کرو، جتی والے ہتھ پاک کلام نوں نئی لائی دے ‘‘(بیٹا تعویذ بنوانے صبح صبح آیا کرو، جوتوں والے ہاتھ االلہ کے پاک کلام کو نہیں لگائے جاسکتے۔ )۔ پھر
پا لمبڑ انتقال کر گیا اور نیم کا درخت کسی بے درد کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ مسجد کے نیچے ایک دکان میں گہری سیاہ رنگت والا لڑکا سائیکل مرمت کیا کرتا تھا، اس کا اصل نام تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھا بلکہ سب اسے چٹا چٹا کہہ کر ہی بلاتے تھے، سامنے والی دکان میں چٹے کا والد پا مولوی کوئلوں والی پیتل کی استری سے محلے کے لوگوں کے کلف لگے کاٹن کے کپڑے استری کیا کرتا تھا۔ چٹا بھی اپنے بھائیوں اور والد کے ساتھ افطاری مسجد میں ہی کرتا تھا۔ جن گھروں سے افطار کے لئے کھانا آتا وہ سب تنکوں سے بنی صفوں پر ایک ہی سفید دسترخوان پر چن دیا جاتا اور سب مل کر کھاتے۔ بچوں کے لئے یہ ایک چھوٹا سا تہوار ہوتا تھا کہ ان کو قسم قسم کے کھانے اور مشروب میسر آتے تھے۔ افطار کے بعد تراویح کے وقت پر مسجد میں نمازیوں کی تعداد کچھ کم ہوجاتی لیکن حیدری مسجد سمیت ہر مسجد میں محلے کے بچے تراویح میں شرکت ضرور کرتے۔ ستائیس رمضان کی شب شہر کی تمام مساجد کی طرح حیدری مسجد میں بھی شبینہ محفل کا انعقاد کیا جاتا۔ حافظ صاحب قرآن سناتے اور محلے کے مرد ان کے سامنے دو قطاروں میں بیٹھے قرآن اپنے سامنے کھولے حافظ صاحب کے ساتھ ساتھ قرآن پڑھتے رہتے۔

ستائیسویں شب مسجد میں موسم کے مطابق شربت یا چائے کے ساتھ شکر پاروں کا خصوصی انتظام ہوتا۔ بچے اسی لالچ میں قریب کی دو تین مساجد کا چکر لگاتے اور فجر تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اب رمضان کے دوران مسجد میں رونق تو ہوتی ہے لیکن صرف نماز کے چند سجدوں کے لئے۔ لوگ سموسوں، پکوڑوں اور پھلوں کے ڈھیر گھر کے دسترخوان پر ہی سجاتے ہیں۔ غریب اور سفید پوش طبقہ پانی کے چند گھونٹ پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ اب تو ایک سو روپے والی کھجور بھی رمضان میں تین سو روپے کلو ہوجاتی ہے۔ وقت اتنی تیز ی سے گزرا کہ اب لوگ پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لئے تین روزہ ہڑتال پر مجبور ہیں۔ رمضان کا جو ایک روحانی ماحول تھا وہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مساجد میں تنکوں کی صفوں کی جگہ نرم و دبیز قالینوں نے لے لی ہے اور پنکھوں کی جگہ ائیرکندیشنڈ آگئے ہیں۔ مادہ پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ر مضان میں جو محلہ دار ایک ہی خاندان کی شکل اختیار کر لیتے تھے اب وہ عید کے دن بھی چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں اور ایک بار پھر ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھ کرزرق برق لباسوں میں ملبوس رمضان کی فضیلت بیان کرنے والی اداکاراؤں کے چٹکلوں میں کھوجاتے ہیں۔ سوچتا ہوں ہمارے آنے والی نسلوں کا رمضان نہ جانے کیسا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).