شرم کس کو آنی چاہیے؟


\"mujahidجمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ ہفتہ کے دوران پنجاب میں عورتوں پر تشدد کے خلاف منظور ہونے والے قانون کو آئین اور شریعت کے خلاف قرار دیا ہے۔ کل حیدر آباد میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اس قانون ، پنجاب اسمبلی کے اراکین اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے ان لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ مولانا فضل الرحمان ذہانت ، جودت طبع ، سیاسی فقرے بازی اور حاضر جوابی کے لئے مشہور ہیں۔ حیدر آباد میں پنجاب کے مسودہ قانون پر ناراضگی کا اظہار کرنے سے قبل انہوں نے اسے مردوں کو بیوی اور بیویوں کو شوہر بنانے کے مترادف قرار دیا تھا۔ اسی بنیاد پر وہ ارکان پنجاب اسمبلی کو ’زن مرید‘ قرار دے چکے ہیں۔ یہ فقرے بازی گھٹیا اور لطیف مزاح کے معیار سے کمتر تھی۔ اسے اعلیٰ سیاسی ظرافت کا نمونہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم اب اس قانون کے حوالے سے مولانا نے چونکہ آئین اور شریعت کا حوالہ بھی دیا ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک کی دینی جماعتوں اور ان کے رہنماﺅں کو صرف کمزور طبقوں کی حفاظت کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں ہی اسلام کو کیوں خطرہ نظر آتا ہے۔ وہ اس وقت شریعت کی خلاف ورزی پر کیوں سیخ پا نہیں ہوتے جب خواتین پر ظلم ہوتا ہے، اقلیتوں کی قبریں اکھاڑی جاتی ہیں یا زبردستی ان کی کم سن بچیوں کو اغوا کر کے مسلمان کیا جاتا ہے تا کہ ان کے ساتھ بدکاری کی جا سکے۔

ایسے سب مواقع پر تو مولانا فضل الرحمان سمیت ملک کے سارے کے سارے دینی عالم اور مذہبی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں۔ البتہ جب وزیراعظم اقلیتوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہونے کی بات کریں ، ملک کو سب عقائد کے ماننے والوں کے لئے جائے امان بنانے کا عہد کریں اور اس اظہار کے لئے ”لبرل“ کی اصطلاح استعمال کر لیں، کوئی اسمبلی عورتوں پر دن رات ہونے والے ظلم کی روک تھام کا ارادہ ظاہر کرے یا مدرسوں کو خودکش بمبار تیار کرنے کی فیکٹریاں بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کیا جائے تو مولانا فضل الرحمان سمیت سارے مذہبی رہنما بے چین اور پریشان ہو جاتے ہیں۔

اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے کہ پنجاب اسمبلی کا تازہ ترین زیر بحث قانون کس حد تک غیر شرعی اور غیر آئینی ہے اور اسے مشرف بہ اسلام کرنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے…. یہ کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ ملک کے مذہبی حلقوں کو اس قانون میں ایسی کون سی قباحت نظر آتی ہے کہ وہ اپنی متانت ، سنجیدگی ، علمیت ، مقام و مرتبہ سب بھول کر منہ سے کف بہاتے ہر اس شخص پر غصہ نکالنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ عورتوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے بننے والا کوئی بھی قانون یا اقدام قابل تحسین ہے اور اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت بھی دیکھنے میں آتی ہے جب مدرسوں میں انتہا پسندانہ مزاج سازی کو روکنے اور ان دینی مدارس کو بند کرنے کی بات کی جاتی ہے، جہاں نہ صرف خودکش بمباروں اور دہشت گرد حملہ کرنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت ہوتی ہے بلکہ اس مقصد کے لئے بھرتی کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ان دونوں کاموں میں یہ بزرگان دین تعاون کرنے اور حکومت اور عوام کے ساتھ مل کر ان معاشرتی علتوں کو ختم کرنے کے لئے جدوجہد کرنے کی بجائے، اسلام اور شریعت کا جھنڈا اٹھائے، شریعت کی خلاف ورزی کا نعرہ لگاتے کیوں میدان عمل میں اتر آتے ہیں؟ کیا اس رویہ سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ ملک کا ہر دیندار اپنی اہلیہ اور زیر کفالت سب خواتین پر جسمانی تشدد کرنا عین اسلامی فریضہ سمجھتا ہے اور اگر اس طریقہ کار کو روکنے کے لئے قانون سازی ہو گی تو یہ سارے اسلام پسند اپنے عقیدہ پر عمل کرنے سے قاصر ہو جائیں گے؟

یہ نہایت اشتعال انگیز سوال ہے۔ لیکن یہ پوچھنے کی ضرورت یوں پیش آ رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان سمیت متعدد علمائے دین پنجاب اسمبلی کے قانون کی ایسے مخالفت کر رہے ہیں جیسے یہ قانون خاص ان ہی لوگوں کے ”جرم“ کا پردہ فاش کرنے یا انہیں کسی اہم دینی فریضہ ادا کرنے سے روکنے کے لئے بنایا گیا ہو۔ اس لئے لازم ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس سوال پر غورکریں اور اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ خود یا ان کے لواحقین ، احباب ، ساتھی ، شاگرد اور عقیدت مند اس قسم کے کسی فعل کے مرتکب نہیں ہوتے تو وہ اس پر پابندی لگانے یا اسے غلط اور غیر قانونی قرار دینے کی بات کرتے ہوئے ناراض اور بدحواس کیوں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ اسلامی شعائر کے تحفظ کا معاملہ ہے تو صرف ملک کی مظلوم اور اکثر صورتوں میں حقوق سے محروم نصف آبادی کے تحفظ کے سوال پر ہی دین کی ساری شرطیں کیوں ازبر کروائی جا رہی ہیں۔ انہیں عورتوں پر ظلم کرنے والے مرد ، مدرسوں کو غیر اسلامی شعائر کے لئے استعمال کرنے والے ملا ، اسلامی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرنے والے لوگ اور عقیدہ کے نام پر قتل و غارتگری کرنے والے گروہ اور مسلکی بنیادوں پر نفرتیں پھیلانے والی تنظیمیں کیوں دکھائی نہیں دیتیں۔

یقینا نظر آتی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے ایک یا دوسرے عالم دین نے تنہا یا باجماعت ان سب قبیح اور بدخصلتوں کے خلاف بیان بھی دیا ہو لیکن کیا اسلامی اخلاقیات، تعلیمات اور اصولوں کی حفاظت کے لئے اپنی پناہ گاہوں سے ایک بیان جاری کردینا کافی ہے۔ ان برائیوں کے خلاف بات کرتے ہوئے کبھی آپ کے چہرے پر اتنی وحشت اور غصہ کیوں نظر نہیں آتا۔ آپ نے جتنی جدوجہد خود کو اور اپنی پارٹی کو سیاسی مفاد دلوانے کے لئے کی ہے کیا کبھی اس محنت کا عشر عشیر بھی اقلیتوں کے ساتھ ظلم ، عورتوں کے ساتھ ناانصافی اور معصوم شہریوں کے خلاف دہشت گردی رکوانے کے لئے دیکھنے میں آیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، اس کے لیڈر اور ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان کے ہم مسلک اور ہم مشرب گزشتہ دس برس میں کتنی بار ان مقاصد کے لئے جمع ہوئے ہیں، جلسہ کیا ہے یا قیام امن کے لئے جلوس نکالا ہے؟ اس کے برعکس آپ سارے ہر سال ربوہ میں ختم نبوت کانفرنس کے نام سے اکٹھا ہو کر نہ صرف نفرت کا پیغام عام کرتے ہیں بلکہ اس ملک کی ایک اقلیت کو دھمکیاں دینے، مغلظات بکنے ، ان کے بزرگوں کو برا بھلا کہنے اور اس اقلیت کے حق اور ان پر رحم کی بات کرنے والی حکومت یا عوام کو ڈرانے کا کام بڑی باقاعدگی سے سرانجام دیتے ہیں۔

پنجاب میں بننے والے ایک قانون پر وزیراعلیٰ سے لے کر ارکان اسمبلی تک کو عورتوں کا غلام ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے اگر آپ یہ بھی واضح کر دیں کہ وہ کون سا دینی ضابطہ ہے جو عورت کا احترام کرنے، اس کے ساتھ نرمی سے پیش آنے ، حسن سلوک کا مظاہرہ کرنے اور اسے اس کا حق دلوانے سے منع کرتا ہے۔ یا آپ نے اسلام کے صرف وہ اسباق یاد کئے ہوئے ہیں جو دنیا بھر میں اسلام کے دشمن مسلمانوں کے خلاف طعنے کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ: ” عورتوں پر ظلم کرو، اقلیتوں کے حقوق سے انکار کرو، خون ریزی کی تبلیغ کرو، یا ثابت کرو کہ جہاد تلوار اٹھا کر کفار کو تہس نہس کرنے کا نام ہے اور اپنے سوا باقی سب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھو‘۔ ذرا غور کیجئے کہ آپ جب دوسروں سے تقاضہ کرتے ہیں کہ انہیں شرم نہیں آتی، تو کیا آپ کو کبھی احساس شرمندگی ہوتا ہے کہ آپ وہ ساری حرکتیں کرتے ہیں جن کا حوالہ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ کیا یہ طرز عمل باعث شرم نہیں ہے۔ کیا اس رویہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا آپ کو ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی گھریلو زندگی کے بارے میں حرف زنی کرتے ہوئے یا اس کے بعد یہ شرم محسوس ہوئی کہ آپ کا یہ عمل اسلامی تہذیب اور اسوة حسنہ کے خلاف ہے۔

مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھی اگر پنجاب کے ایک قانون کو غیر آئینی سمجھتے ہیں تو آئین ہی میں اس کی جانچ کرنے کا طریقہ موجود ہے۔ آپ عدالت عظمیٰ میں اسے چیلنج کر سکتے ہیں اور آئینی دلائل کے ساتھ عدالت کو قائل کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کا موقف تسلیم کر لے۔ جب تک آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کی بیان بازی ایک صوبائی اسمبلی کے حقِ قانون سازی پر غیر اخلاقی نکتہ چینی سمجھی جائے گی کیونکہ آپ اس تنقید کے لئے مبتذل زبان استعمال کر رہے ہیں اور آئین کی کسی شق کا حوالہ دینے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر آپ اسے اسلامی شریعت کے خلاف سمجھتے ہیں تو معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل میں لے جا سکتے ہیں جہاں آپ ہی کی جماعت کے ایک رکن قومی اسمبلی چیئرمین کے عہدہ جلیلہ فائز ہیں۔ اور آپ ہی کی طرح اسلام کے ان پہلو?ں کو تلاش کر کے لائم لائیٹ میں لانے کے شوقین بھی ، جن سے صرف اسلام دشمن استفادہ کرتے ہیں اور مسلمان خجل اور پریشان ہوتے ہیں۔ بات چونکہ اسلامی شریعت اور اخلاقیات کی ہو رہی ہے، اس لئے جملہ معترضہ کے طور پر یہ ضرور پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اسلامی شریعت کی وضاحت و صراحت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے دنیاوی مراعات و سہولیات حاصل کرنا شرعی تقاضوں کے مطابق ہے یا اسلام سرکاری خزانے کے اس ضیاع کے بارے میں بھی کوئی حکم صادر کرتا ہے!

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کو اندیشہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کا قانون نافذ ہونے سے خاندان ٹوٹ جائیں گے، میاں بیوی دشمن کی بجائے شریک حیات بن جائیں گے اور مردوں کے حقوق متاثر ہوں گے۔ مولانا کی باتوں سے لگتا ہے کہ پنجاب (بلکہ پاکستان) کے ہر گھر میں مرد عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کا عادی ہے۔ ایسی صورت میں تو اس قسم کا قانون زیادہ سخت ہونا چاہئے۔ اگر یہ صورتحال نہیں ہے تو دینی جماعتوں کی اصل پریشانی کیا ہے؟ کیا واقعی آپ کو لگتا ہے کہ اس قسم کی تبدیلی کے بعد مہذب لوگ آپ کی بات سننے اور ماننے سے انکار کر دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments