خدا کی ہستی پر ملحدین کے اعتراضات کا جواب


دین کے بارے میں غلط فہمیاں اور توہمات (myths)اور کچھ ہمارے مذہبی طبقے کی تشریحِ بازیچہ دیکھ کر کچھ لوگوں نے دین سے بیزاری اختیار کرلی۔ آغاز میں ان کا یہ انقطاع خلوصِ دل پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ واقعی چاہتے ہیں کہ صحیح تحقیق کے بعد کسی درست نتیجے پر پہنچاجا سکے۔ پھر اپنے فطری سوالات جب اہل علم کے بجائے روشن خیال طبقے سے یا کسی ملحد سے پوچھتے ہیں اور نتیجاً انہیں دین سے بیزاری سے لے کر خدا سے بیزاری کا سفر مفت میں کروا دیا جاتا ہے۔ جو لوگ آغاز میں دین کے بارے میں ذہن میں اٹھے سوالات کی علمی و عقلی توجیہ کے لیے سرگرداں تھے، اب آخر کار ملحدین کی صحبت انہیں اللہ کا منکر بنا دیتی ہے۔

ملحدین کے پاس دو قسم کے ہتھیار ہوتے ہیں، پہلا ہتھیار اللہ کا انکار کرنا ہوتا ہے۔ اس ہتھیار سے وہ سادہ لوح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ دکھائیں کہا ں ہے خدا؟ یہ کائنات ایک عظیم مگر اتفاقی دھماکے کی وجہ سے وجود میں آئی جسے“بگ بینگ ” کہا جاتا ہے۔ پھر ارتقاء کے طویل سفر کے بعد انسانوں کو بھی وجود ملا، پھر رفتہ رفتہ عقلِ انسانی عروج کی منزلوں کو طے کرتی ہوئی سائنس اور ٹیکنالاجی کے اس دور میں آ پہنچی ہے۔ بہرکیف اسی طرح کے کچھ حوادث و تغّیرات پھر سے رونما ہوں گے، جس کے باعث کارگاہِ کائنات ختم ہو جائےگی۔ اسی طرح ہماری پیدائش بھی والدین کے اختلاط سے ہوتی ہے، پھر عین اسی طرح اجزائے جسم کےپریشان ہونے سے ایک دن ہماری موت بھی واقع ہو جائے گی۔ ان مراحل میں خدا کا کیا کام؟ ہم خدا کو کیونکر مانیں؟ ہم کسی سپر پاور ہستی کو، جو عقل سے ماوراء ہے، اور وہ ہستی جودکھائی بھی نہ دےاس کے وجود کو بغیرکسی سائنسی دلیل کے مانیں، گویاہم وہ سب کچھ کریں جس کی وہ اجازت دے اور اس کے منع کرنے پر ہم باز رہیں، ہماری عقل اس کی اجازت نہیں دیتی۔ دوسری جانب دین کی اساسیات سے نابلد سادہ مسلمان، ملحدین کے پیش کردہ ایسے عمومی اور خام دلائل سے مرعوب ہوجاتا ہے۔ پھر، ملحدین جب دیکھتے ہیں کہ کچھ نوجوان نفسیاتی طور پر اپنے عقیدے میں راسخ نظر آ رہے ہیں، خدا کے انکار سے ان کے چنگل میں پھنسنے والے نہیں، تو ایسے نوجوانوں کو پہلے مرحلے میں منکرِ خدا بنانے کے بجائے، اللہ کی ذات میں شکوک پیدا کرنا ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے، اس طرح ان کے عقیدے میں دراڑ پیدا کرنا، ملحدین کا یہ دوسرا مگر اہم ہتھیار ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ دوغلا پن اور دوہرا معیار ہے۔ تاہم ملحدین کو اس نوجوان طبقے کے عقائد میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہیں ہوتا۔ پھر نوجوانوں سے بات کرنے کی سہولت میسر ہوتی ہے، ملحدین حضرات وہاں بے تکے سے اعتراضات کرنا شروع کردیتے ہیں، جبکہ یہ اعتراضات انتہائی سطحی ہوتے ہیں۔ جیسے، کہیں پر سیلاب کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے، یا پھر زلزے کی وجہ سے سینکٹروں اموات واقع ہوئیں تویہ کہتے ہیں کہ دیکھو تمہارے اللہ نے انسانوں پر کتنا ظلم کیا ہے۔ کبھی افر یقہ کے بھوکے ننگے لوگوں کی انٹرنیٹ سے تصاویر لے کر کہتے ہیں، ”کیاتم لوگ اب بھی کہو گے کہ اللہ سب کا رازق ہے؟ “ یاپھر تھیلسمیا کے مریض کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے ہیں کہ بتاؤاس بچے نے اللہ کا کیا بگاڑا تھا، کیوں اسے یہ سزا دی گئی ہے؟ کبھی ان کا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں کمزوروں پر ظلم ہوتا دیکھ کر خدا خاموش کیوں ہے؟ ایسے ایسے ڈھیروں بے ڈھنگے سوالات کا جال بچھا کر عام انسانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے در پے ہوتے ہیں۔ لہذا جو لوگ دین کی مبادیات سے اتنے واقف نہیں ہوتے، وہ لوگ یا تو ان سے مکمل کنارہ کر لیتے ہیں، یا پھر کچھ لوگ علماء سے استفادہ لے کر ان کو جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو کبھی ملحدین ایسے نوجوانوں کو ورغلانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔

حالانکہ اکثر ملحدین سائنسی علوم سے گہرا تمسک رکھتے ہیں۔ وہ بذریعہ علومِ سائنس ہی اللہ کا انکار سیکھتے ہیں، تو ایسے سطحی اعتراضات ان کو زیب نہیں دیتے۔ جب یہ اللہ کونہ ماننے کے دلائل دیتے ہیں تو یہ اعتراضات جو اللہ پر کر رہے ہیں، ان کے سائنسی جوابات خود دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ یو ٹیوب پر کوئی بھی وڈیو کلپ دیکھیں، بالخصوص ہمارے پرویز ہود بھائی کی ہی دیکھ لیں، کہ وہ کتنی آسان اردو میں کائنات کے پوشیدہ رازوں کو کس طرح سائنسی انداز سے بیان کر رہے ہوتے ہیں اور بلاشبہ ان کے وڈیو ز قابلِ التفات ہوتے ہیں۔

بہر صورت، ملحدین حضرات جب سائنسی توجیہات پیش کرتے ہیں تو وہ ماہرینِ جیولاجی کی تحقیقات کی رو سے خود بیان کرتے ہیں کہ زمین پر زلزلے کس طرح آتے ہیں اور ان کی کیا وجوہات ہوتی ہیں۔ ماہرینِ جیولاجی کے مطابق جب زیر زمین، دو ارضیاتی پلیٹیں یا بڑی چٹانیں ایک دوسرے کے ساتھ رگڑکھاتی ہیں، تو ان کے کچھ حصے ٹوٹ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں توانائی کی ایک انتہائی طاقتور لہر پیدا ہوتی ہے، جو کہ قشرارض کی طرف پھیلتی چلی جاتی ہے۔ جب یہ لہر زمین کی اوپری سطح تک پہنچتی ہے تو اسے بری طرح سے ہلا کر رکھ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں زمین کے پھٹنے اور عمارتوں کے منہدم ہونے جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔ لیکن یہ سائنسی معلومات دیتے ہیں تو اس وقت تو یہ نہیں کہتے کہ زلزلے درحقیقت اللہ کے حکم سے آتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح پینے کا پانی گلیشئر سے گزر کر ڈیم اور دریا میں ذخیرہ ہوکر پائپوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔ لیکن اس آبی نظام کو ہم درست بنیادوں پر استوار نہیں کرتے، اور بے اعتنائی برتتے ہیں تو قدرت کا یہ عظیم شہکار ہمارے لیے مصیبت بن جاتا ہے، اسی کو سیلاب کہتے ہیں، جو سراسر انسان کی غلط منصوبہ بندیوں اور نکاسی نظام سے ناواقفیت کی بنا پر آتاہے۔ اللہ کی نعمت کا درست استعمال انسان کو شکر گزار بنا دیتا ہے، جبکہ اللہ کی نعمت کو خداداد صلاحیتوں سے درست طور پر برتا نہیں جائے گا اور جب تک آپس میں جنگ و جدل ہوتی رہے گی تو یہ جان لیں کہ پہلے بھی ایسی کئی آٖفتیں، قوموں کی قومیں لے ڈوبی ہیں۔

اولاً، یہ بات اصولی طور پر ذہن نشین کر لیں کہ اللہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا (الحج، 10) اور دنیا میں جتنی بھی مصیبتیں ہوا کرتی ہیں وہ انسانوں کی اپنی لائی ہوئی ہوتی ہیں (النساء 79)۔ آپ مشاہدے کے طوراپنی نگاہ ان حقائق پر ڈالیں جو عالمگیر مسائل ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ بھوک، افلاس اور قحط سالی کا مسئلہ ہے۔ یہ غلّہ اور غذائی چیزوں کی قیمتیں انسان کے پہنچ سے مہنگی ہونا، یہ سرمایہ داری (Capitalism) کی دوڑ میں ایک دوسرے سے مسابقت میں غریب انسانوں کا کچومر نکالنا اور دنیائے معیشت میں رسد میں خودساختہ کمی پیدا کرکے انسانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے گرانا، یہ سب تاریخِ انسانی کے قرطاس سے کب پوشیدہ ہیں؟ صدیوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ قارونی ذہنیت کے چند لوگ، انسانوں کی کثیر آبادی کی روزی روٹی پرقابض ہوئے ہیں، تو ان کی بیخ کنی کے بجائے ان سے صرف نظر کیوں کیا جاتا ہے؟ بھلا جس عقل نے اتنے محیّر العقول انقلاب برپا کیے ہیں وہ عقل مفلوک الحال انسانوں کی روزی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتی؟ اس کا جواب تو حضرت انسان ہی دے سکتا ہے، وگرنہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے کسی پر بھی الزام لگا کر دبے پاؤں منظر عام سے بھاگا جا سکتا ہے۔

بھلے پاکستان کی حالتِ زار کوہی دیکھ لیں کہ آزادی کے بعد سے آج تک چاپلوس اور مطلب پرست گروہ نے قبضہ جما کر پاکستانی عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کبھی سیاسی لٹیروں کی جمہوریت نے لوٹا تو کبھی فوجی اقتدار کی بہیمانہ آمریت عوام کو ڈستی آئی ہے۔ ذرا نگاہِ بازگشت لوٹ مار کی حکومت کرنے والے چند لوگوں کی ان خرابیوں پر بھی ڈالیں جنہوں نے کثیر عوام کو فاقہ کشی پر مجبور کیا ہے، اور اس کا حرف بھی اللہ کے رازق ہونے پر آ ئے گا؟ اللہ عزوجل نے تو تمام تر رزق کے وسائل بلا مزد و معاوضہ انسانوں کو بہم پہنچا دیے ہیں۔ یہ انسان ہی ہیں جو دوسروں کے رزق کے سرچشموں پر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ملحدین حضرات اس زاویے سے دیکھنا ہی نہیں چاہتے یا کم از کم یہ بتائیں کہ پاکستان کی تنگ دستی اور خستہ حالی کو دیکھ کر آپ کو(نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی کوئی کمزوری معلوم ہوئی تو ذرا یہ بتائیں کہ مغرب اتنا خوشحال ہے تو وہاں جو مسلمان آباد ہیں یا عیسائی اور یہودی بستے ہیں ان کےاللہ پر ملحد لوگ ایمان لے آئیں گے؟ یا محض یہ بہانے بازیاں ہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے، کیونکہ ان کا کام کسی مسئلے کی نوعیت کو سمجھنا ہوتا ہی نہیں بلکہ ان کو تو صرف لوگوں کو بے دین بنانا مقصود ہوتاہے۔

اب، بیماری اور صحت کے مسائل پر بھی غور کریں، جس کو غلط انداز سے دیکھنے کی وجہ سے بے سمجھ لوگوں نے اللہ کی ”عادل“ صفت پر زبان درازی کی ہے۔ جیسا کہ یہ معلوم بات ہے کہ اللہ کے ہاں کوئی الل ٹپ قانون نہیں چلتا کہ کسی کو لنگڑا پیدا کیا تو کسی کو نابینہ بنا دیا، یا پھر کسی کو پیدائشی خون کی بیماری تھیلیسیمیا دے دی، کہ مریض کو مستقلاً انتقال خون کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اس چیز کو دقت نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ اپنے مسائل دوسروں پر تھوپنے سے مسائل حل ہوا نہیں کرتے، بلکہ کسی خرابی کو جڑ سے ختم کرنے سے ہی چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے، پھر بھی طوالت سے بچتے ہوئے چند ایک چیزوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔

اگر ماں باپ ناقص جین کے ساتھ بچے پیدا کر رہے ہوں تو اولاد اس بے ضابطگی کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن اگر ماں باپ میں سے دونوں الگ الگ جین مطلب ایک نارمل اور دوسرا ایب نارمل جینرکھ رہاہو تو بیماری کے اولاد میں آنے کے چانسز عموماً نہیں ہوتے۔ عمیق مطالعہ کے بعد یہ آشکار ہوا ہے کہ یہ جینیاتی نقص زیادہ تر ایک ہی خاندان میں شادی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ بالخصوص تھیلیسمیا مرض تو کزن میرج اور ایک ہی خاندان میں شادی کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے جو والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہو تی ہے، اس بیماری میں مبتلا بچوں میں خون کم بنتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 6 سے 8 ہزار بچے اس موروثی مرض کو لے کر پیدا ہوتے ہیں اور بچے کے پیدا ہونے کے 3، 4 ماہ کے بعد اس مرض کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ متاثرہ بچے کو ہر پندرہ دن کے بعد انتقالِ خون اور جسم سے زائد فولاد کے اخراج کے لیے ادویات کی ضرورت تاحیات رہتی ہے۔ اس سلسلے میں، سماجی تنظیمیں اس مرض کو روکنے کے لیے خاندان میں شادیاں اور بالخصوص کزن میرج کی روک تھام کے لیے کوشاں ہیں اور اگر حمل ٹھہرنے سے پہلے یا حمل ٹھہرنے کے چند ہفتے بعد ٹیسٹ کروائے جائیں تو اس مرض کی تشخیص ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا مناسب علاج نہ ہونے کے باعث متاثرہ بچے 15 سال کے عرصے کے دوران ہی فوت ہو جاتے ہیں، جبکہ مغرب میں علاج کی سہولت کے باعث وہاں تھلیسیمیا کے مریض 40 سال تک جیسے تیسے اپنی اذیت ناک زندگی گذار لیتے ہیں، لیکن شادی وہ بھی نہیں کرتے کیونکہ ایسے مریضوں کی اولاد بھی اسی مرض کو لے کر پیدا ہوتی ہے۔

اسی طرح اگر والدین میں کوئی جینیاتی نقص پہلے سے موجود نہ ہو تو بھی کئی اور اسباب ہوتے ہیں جن کے سبب بچّہ کوئی نقص لے کر پیدا ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین کو اکثر بچے کی پیدائش تک کسی بھی قسم کی ادویات کا استعمال کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر کسی درد یا تکلیف کے بڑھنے کی وجہ سے کوئی دوا لینی ہو تو بھی معالج کے مشورے کے بغیر ادویات کے استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اگر لیڈی ڈاکٹر ٹھیک طریقے سے علاج نہ کر پائے۔ دوران علاج اینٹی بایوٹکس یا وٹامنز کو ضرور ت سے زیادہ استعمال کیا جائے یا ان ادویات میں میکوٹین، انہیلرز یا ایسی دیگر قسم کی اودیات، ماں کے جسم سے بچے کے خون کی شریانوں میں داخل ہو جاتی ہیں جو کہ بچے میں کوئی نقص یا ان کی نشو و نما میں کوئی خلل پیدا کر سکتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں علاج کی مناسب سہولت اور حمل میں انتہائی درجہ کا خیال رکھنے کی وجہ سے جینیاتی نقص والے بچوں کی پیدائش کی شرح میں کافی کمی ہے۔ لیکن پاکستان میں عورت دوران حمل ہی سب سے زیادہ تکلیف سے دوچار ہوتی ہے۔ یہاں پر ہر لیڈی ڈاکٹر نے خانگی کلینک کھول رکھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کی غرض سے لوگوں کو غلط گائیڈ کیا جاتا ہے اور علاج کے ذریعے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ بچہ نارمل ڈلیوری کے بجائے بذریعہ سرجری پیدا ہو، تاکہ یہ بھاری فیسیں لے کر اپنا پیٹ بھریں، اور ادویات کے خرچہ پر بھی میڈیکل اسٹور مالکان سےکمیشن الگ سے لے سکیں۔ ایسے میں ان درندہ نما لیڈی ڈاکٹرز کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ والدین سے پورے پیسے بھی بٹورتی ہیں نتیجاً کبھی وقت سے پہلے ہی miscarriage ہو کر، بچہ ضائع ہو جاتا ہے، یا کبھی بچہ جینیاتی نقص پیدا ہو کر کینسر، خون کی بیماریاں و دیگر مہلک بیماریاں لے کرپیدا ہوتا ہےیا پھر ایسا بچہ بھی پیدا ہوتا ہے جس کے اعضاءابھی تک مکمل نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔ اب بتایا جائے کہ غلط علاج ہونے سے یا مناسب نشو و نمانہ نہ ہونے سے بچہ اس دنیا میں اعصابی، ذہنی اور جسمانی کمزوری کو ساتھ لیے پیدا ہوا ہو تو اس کا قصور وار کون ٹھہرے گا؟

دوسری طرف جعلی ادویات اور چیزوں میں ملاوٹ کرنا ہمارے خطے کا شرمناک فعل ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ اجل کا شکار بنتے ہیں۔ جعلی ادویات کا استعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے، پہلے اسپرو اور اسپرین جیسی ادویات دونمبر تیار ہو کر دیہات میں بکتی تھیں، اب تو قیمتی ادویات حتیٰ کہ جان بچانے والے انجکشن بھی جعلی تیار ہو کر لوگوں کی موت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے، مگر پانی میں میں بھی ملاوٹ ہو رہی ہے۔ یہ بوتلوں اور واٹر ڈسپنسرز میں فروخت کیا جانے والا غیر صحت مند یا جعلی کمپنیوں کا منرل واٹر پینے سے ہر سال قریب ایک ملین شہری یرقان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو دوسری کھانے پینے والی اشیاء میں ملاوٹ ایک عام چیز ہوگئی ہے، لیکن اب حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ مارکیٹ میں چائنا سے درآمد شدہ مصنوعی انڈے بیچے جا رہے ہیں، یہ انڈے بالکل اصلی انڈے محسوس ہوتے ہیں، ان کو کھانے والوں کو ذرا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ کوئی مصنوعی انڈہ کھا رہے ہیں۔ ان مصنوعی انڈوں کو کھانے سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، کیوں کہ انڈے میں استعمال ہونے والا سارا مواد کیمیکلز پر مشتمل ہے، انڈے کے چھلکے کو کیلشیم کاربونیٹ سے بنایا جاتا ہے، اس کے علاوہ انڈے کی زردی اور سفیدی کو سوڈیم ایلگی نیٹ، جی لیٹنگ، کیلشیم کلورائیڈ، پانی اور فوڈ کلرز سے بنایا جاتا ہے اور یہ تمام چیزیں انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ مصنوعی و ملاوٹی چیزوں کا کھلے عام فروخت ہونا، ملاوٹ پر قابو نہ پانا، پھر ان چیزوں سے جو بیماریاں لاحق ہوجائیں اور بے چارے مریض سرکاری اسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں دواؤں کی عدم دستیابی ہوتی ہے اور ڈاکٹر حضرات مریض کا علاج مکمل توجہ سے کرتے ہی نہیں، کیونکہ انہوں نے نجی اسپتالوں میں اپنا دھندہ الگ سے کھول رکھا ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ وہ خانگی اسپتالیں بھی کوس رحلت بن چکی ہیں۔ اب ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے ہی چنے ہوئے لوگ جو ہماری بے حسی کا مذاق اڑاتے مزے مزے سے ہماری نسل کو تباہ کر رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو مقابلہ کرنے کے بجائے، سارا الزام پرورگارِ عالم پر دھر کر اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتے ہیں۔

میرےپیارے بھائیو! کسی ملحد کے ٹیڑھے سوالات پر جھٹ سے اعتبار کرنے کے بجائے، خود علم کی بارگاہ میں رجوع کریں۔ کسی غیر کے کہنےپر اللہ کی ہستی پر شک نہ کیجئے۔ یہ لوگ بظاہر عقلی دلائل پیش کرتے ہیں لیکن عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو وہ دلائل حق کے مقابلے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ یہ پھر سے ذہن نشیں کر لیں کہ اللہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا، نہ اس جہاں میں نہ روزِ قیامت کسی پر ذرہ برابر ظلم کیا جائے گا۔ اس دنیا میں جتنے بھی عذاب آئے ہیں وہ انسان کی اپنی کارستانیوں کی وجہ سے ہی آئے ہیں۔ یہ پرانی امتوں کے واقعاتِ قرآنی ہوں یا ہماری امتِ کا قصہِ المناک، ہر طرف انسان اپنی ہلاکت کا سامان جمع کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ لیکن زیادہ تر مصائب و آفات، انسانوں کی غلط منصوبہ بندیوں، باہمی فساد و جدل اور صرف اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھنے سے ہی آتے ہیں۔ جیسے سیلابی آفت ہو، جو با اثر لوگ اپنے اپنے علاقے یا محض اپنی جاگیر کو بچانے کے لیے، دریاء کے بندوں کو غریب اور بے بس انسانوں کی بستیوں کی جانب توڑ کر ان کو زیرِ آب کر دیتے ہیں یا پھر اپنے سوئز اکاؤنٹ کو بھرنے کے لیے ملک میں خود ساختہ مہنگائی نازل کر دیتے ہیں اور بھاری ٹیکس لاگو کرکے ایک غلط معاشی نظام عوام پر مسلط کردیتے ہیں۔ اور خود ہمارے ملک کی عوام، جو خود بے بس ہو کر دوسرے مجبور انسانوں کو لوٹتی رہتی ہے۔ کیوں نہ پھر وہ ڈاکٹرز ہوں جو سرکاری ڈیوٹی کے دوران چپکے سے بھاگ کر اپنی خانگی اسپتال میں آپریشن کرکے پھر ڈیوٹی ختم ہونے کے وقت سرکاری اسپتال پہنچ جانے والے ہوں یا وہ ٹھیکیدار اور انجنیئرز ہوں جو عوام کے پیسوں کو ہتھیا کر ایسے ناقص پل اور کمزور عمارتیں بنائیں کہ چند سالوں میں منہدم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں تک کو لے جاتی ہیں، یا ایسے دو طرفہ روڈ یا ایسے خطرناک موڑ بنائے جاتے ہیں کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایکسیڈنٹ ہوتا رہتا ہے، آپ کبھی سہون سے جامشورو کا سفر کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کس طرح اس دو گھنٹے کے سفر میں آپ کس طرح پل صراط سے گزرتے ہیں۔ یا پھر وہ دہشت گرد دکاندار اور ٹھیلے والے جو اشیاء خورد و نوش میں ملاوٹ کرکے انسان کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں اور وہ سبزی فروش اور فروٹ ٹھیلے وا لے سبزیوں کو تازہ دکھانے کے لیے مصنوعی رنگ چڑھاتے ہیں اور پھلوں کو میٹھا اور رنگ دار بنانے کے لیے رنگ اور سکرین کی سرنج لگاتے ہیں۔ اب بتائیں قصوار کون ہے؟

اسی طرح ظلم و بربربیت کے ابواب کو بھی کھول کر دیکھ لیں۔ اگرچہ میں محمّد بن قاسم اور محمود غزنوی کے حملوں کا دفاع نہیں کر رہا لیکن صرف انہی کی یلغار کا راگ الاپنے والے حضرات اپنے خداؤں کے مظالم بھول گئے ہیں؟ تاریخِ انسانی کاسب سے پرسوز واقعہ کون فراموش کر سکتا ہے، جب امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے علاقوں پر جوہری حملے کیے تھے، کہ دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی سیکنڈز میں لاکھوں افراد کی یہ دو بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی تھیں۔ اب اس وحشت کا بھی اللہ پر الزام دیا جائے گا؟

لوگوں کی معاشی، معاشرتی اور سماجی حیثیت کو تباہ کرنے والے، اشرف المخلوقات کا درجہ لیے ہوئے، نسلوں کے نسل تباہ کرنے والے یہ خود انسان ہی ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل کو خود حل کرنا ہے۔ قرآن کے واقعات اس سے بھرے پڑے ہیں کہ تول و ناپ میں بے ایمانی کرنے والے اور لوگوں کے ساتھ مکر وفریب کرنے والی قوموں کو سمجھانے کے لیے اللہ نے اپنے کتنے رسول بھیجے تھے۔ آج ہمارے پاس اللہ کا آخری اور مکمل ہدایت نامہ موجود ہے، جس پر عمل ِ پیرا ہو کر ہماری زندگیاں جنّت کی طرح ہو سکتی ہیں لیکن ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر صرف اپنے اپنے مفادات کو بٹورنے والی سوچ ہمیں لے کر ڈوبے گی اور ایسے حالات میں جب ہمیں اللہ سے زیادہ تمسک اور اس کے قوانین و ضابطہ حیات کو سمجھ کر اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے اور ہم اپنے پروردگار کی نعمت کی ناشکری کریں، انسانوں کی لگائی ہوئی آگ کا ذمہ داراپنے اللہ کو ہی سمجھیں اور ناسمجھ اور روشن خیال لوگوں کے بے بنیاد الزامات کو سچ سمجھ کر اپنا آخری سہارا بھی گنوا دیں تو یہ دنیا کو جنّت بنانے کاخواب تو درکنار، ہم اپنی آخرت کو ہمیشہ کے لیےتباہ کر رہے ہیں، کاش ہم سمجھ لیتے۔ روشن خیالی کی اس ملحدانہ سوچ کا انجام جہنم کے تاریک گڑھے کے سوا کچھ نہیں۔

اوریہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشےکےسواکچھ نہیں ہےاورآخرت کا گھرہمیشہ کی زندگی ہے، کاش کہ یہ لوگ جان جاتے۔ (العنکبوت، 64)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).