کلمہ گو جمہوریت کے بعد اب پاکیزہ سیکولر ازم


علامہ اقبال نے اول جمہوریت کو باطل نظام کہہ کرمسترد کردیا تھا۔ جب ان پر جمہوریت کی افادیت کھلی تو اسے ایک بہترعمرانی دستاویز کے طور پر قبول کیا۔ پہلے کہا کرتے تھےکہ جمہوریت میں لوگوں کو فقط گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔ پھر بشارت دینے لگے کہ سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ۔ علامہ پرعلی گڑھ یونیورسٹی میں اسی کایا پلٹ کی وجہ سے سوال اٹھا۔ علامہ نے جواب دیا، موجود دور میں اس سے بہتر کوئی نظام میرے علم میں نہیں ہے۔ تفصیلی مکالمے کو رہنے دیتے ہیں۔ بس اتنا عرض ہے کہ علامہ نے اس موقع پرروحانی جمہوریت کا تصور پیش کیا۔ یعنی جمہوریت کوروحانی وغیرروحانی میں تقسیم کردیا۔ کیوں؟ کیونکہ جمہوریت کا نام لے تو لیا، مگراب چونکہ لوگ اسے کفریہ نظام سمجھتے ہیں اس لیے اب سوشل اپروول (سماجی اجازت نامہ) درکار تھا۔ لہذا مسلمانوں کے اطمینان کے لیے انہوں نےجمہوریت کے ساتھ لفظ روحانی کا اضافہ کردیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے شہد بیچنے کے کے لیے ہمارے کچھ کاروباری حضرات نے اپنے برانڈ کو اسلامی شہد کا نام دے رکھا ہے۔ حالانکہ ہر بندہ بشر جانتا ہے کہ شہد تو بس شہد ہوتا ہے۔ اس میں اسلامی وغیراسلامی کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کاروباری ذہن کی نفسیات بھی معلوم ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں مذہب کی غلاف میں کچھ بھی بیچ لیا جائے تو بسہولت بک جاتا ہے۔ سودا بک تو جاتا ہے مگر اس کے دور رس اثرات ٹھیک نہیں ہوتے۔ خود اپنی علمی کاوش اور نیک خواہش پر بھی سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جمہوریت کے مخالفین نے علامہ پر یہی طعن کسا کہ وہ گڑھ میں زہر رکھ کر مسلمانوں کو کھلانے چلے ہیں۔ یہ منطقی طعن تھا کہ آخر علامہ نے ہی تومسلمانوں کو یہ جملہ رٹایا تھا۔ جو ایک دن ان پررجعت کرگیا۔ اس رجعت کا دفاع انہوں نے روحانیت سے کیا۔

علامہ صاحب کے اس تصور نے آج تک پاکستان کے مسلمانوں کو کنفیوز رکھا ہوا ہے۔ دوچیزیں ہوئیں۔ پہلی یہ کہ روحانی جمہوریت کا مطلب انہوں نے مذہبی ریاست کو سمجھ لیا۔ حالانکہ جمہوریت میں روحانی جمہوریت کا کوئی تصور اگر مان بھی لیا جائے تو بھی روحانی جمہوریت وہی کہلا سکتی ہے جس میں امن خوش حالی اور انصاف ہو۔ جہاں یہ تین چیزیں نہ ہوں، باوجود خانقاہوں کی طویل قطاروں کے وہ روحانی جمہوریت نہیں ہوسکتی۔ سچ یہ ہے کہ آج بھی قدامت پسندوں کا ایک بڑا طبقہ یہ خیال کرتا ہے کہ پاکستان میں روحانی جمہوریت نافذ ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس ملک میں مذہبی سیاسی جماعتوں ، خانقاہوں، مزاروں ، جہادی تحریکوں اور پرجوش خلافتی سرگرمیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری چیز یہ ہوئی کہ جمہوریت کو غلبے کی نفسیات کے ساتھ قبول کیا گیا۔ کبھی سوچیے گا کہ پاکستان کے مذہبی ذہن نے جمہوریت کو دل سے قبول کیوں نہیں کیا۔ کیونکہ روحانی جمہوریت کا تصور پیش کرنے والوں نے پیروکاروں کو یہ نہیں سمجھایا کہ اس عمرانی معاہدے کا مقصد تنازعے کے امکانات کو ختم کرنا ہے۔ ہمیشہ یہی سمجھایا گیاکہ اب اسلام کا غلبہ اسی صورت ممکن ہے کہ آپ جمہوریت سے وقتی طور پر وابستہ ہوجائیں۔ پاکستان کی مذہبی قوتوں سے وابستہ کارکنوں کا یہ باقاعدہ احساس ہے کہ ہم نے جمہوریت کو بیت الخلا کی طرح گوارا کیا ہے۔ یہ ایک وقتی حربہ ہے، اس پر اطمینان نہیں ہے۔ ہماری منزل کچھ اور ہے، ہم اسی باطل راہ سے ہوکر اُس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں جسے اسلامی تاریخ کی اصطلاح میں خلافت کہتے ہیں۔ شدت کی کمی اور زیادتی کے ساتھ مذہبی سیاسی کارکنوں کے لاشعور میں یہی خیال بکل مارے بیٹھا ہے۔

اب سکیولرازم کےمعاملے میں ٹھیک یہی مشکل آن پڑی ہے۔ احباب کسی بھی طرح سکیو لرازم کوقابل قبول بنانے کے لیے اسے کلمہ پڑھوانے پر بضد ہیں۔ باالکل اسی طرح کہ جس طرح جب کوئی پاکستانی مسلم کسی مسیحی لڑکی سے نکاح کرتا ہے تو اول اسے قبولِ اسلام پر مجبور کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اسلامی تعلیمات میں اہل کتاب سے نکاح کی ممانعت نہیں ہے، پھر بھی رشتے کو معتبر بنانے کے لیے کم از لڑکی سے جھوٹ موٹ ہی سہی، یہ اقرار ضرور کروالیا جاتا ہے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ سیکولرازم کے ساتھ اچانک یہ رویہ اپنالینے کی وجہ بھی مجھ طالب علم کو یہی سمجھ آتی ہے کہ سوشل اوپروول درکار ہے۔ یہ ایک نیک خواہش تو ہوسکتی ہے مگر یہ سماج کو کنفیوز کرنے والی بات ہے۔

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے توبطور خاص سیکولرازم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ لفظ سیکولرازم جب ایک مذہبی رجحانات رکھنے والے شہری کی زبان پر آتا ہے تو اسے جاوید غامدی صاحب ایک بہتر اور مختلف سیکولرازم باور کرواتے ہیں۔ یہی لفظ جب ایسے شہری کی زبان سے ادا ہوتا ہے جو مذہبی ترجیحات نہیں رکھتا، اس کو وہ کچھ باطل سا سیکولرازم قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید کو بیچ میں لاکر انہوں نے اس دوسرے طبقے کو قرآن کا مدمقابل قرار دے دیا ہے۔ اسی بنیاد پراس دوسرے سیکولرازم کی شکست کا انہوں نے پورے تیقن سے اعلان کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ میری رائے میں اس کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا کہ لوگ اس کو فقط ایک پناہ گاہ تصور کرکے ایک خاص وقت گزارنے کے لیے وابستہ ہوں گے۔ اور یہ وابستگی تب پیدا ہوگی جب وہ خود کو مغلوب محسوس کریں گے۔ ہم لوگوں کو بنیادی طور پر یہ تصور دے رہے ہیں کہ وہ وہی غلبے کی نفسیات کے ساتھ سیکولرازم کو قبول کریں۔ ہم دیگر ممالک میں ہوں تو سیکولرازم کو قبول کرتے ہیں۔ پلٹ آئیں تو سیکولرازم پرچار حرف بھیجتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہی غلبے کی نفسیات ہی تو کارفرماہیں۔ یعنی دیگر ممالک میں سیکولرازم کوہم نے اس لیے قبول کیا ہے کہ ہم ان ممالک میں کفار پر غالب آنا چاہتے ہیں۔ یہاں اس پر چار حرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ یہا ں تو ہم غالب ہی غالب ہیں۔ میری رائے میں سیکولرازم کو غلبے کی نفسیات کی بجائے احترام کی نفسیات کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ اس تاثر سے ہمیں بچنا ہوگا کہ سیکولرازم کو ہم اپنی مذہبی مراعات کی بقا کے لیے اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس خیال کی طرف جانا ہوگا کہ ہم اپنے علاوہ جو دیگر عقائد کے ماننے والے ہیں ان کے احترام کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ سیکولرازم پر اصرار مذہبی رجحانات رکھنے والا شہری کرے یا مذہبی ترجیحات سے بے نیاز شہری کرے، بہر دو صورت سیکولرازم اپنی ذات میں سیکولرازم ہی ہو گا۔ تب سیکولرازم کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ معاشرے میں فکری حوالے سے ایک اور تقسیم پیدا ہوچکی ہے۔ کیونکہ سیکولرازم جیسے سیاسی بندوبست نے تقسیم کی کوکھ سے ہی جنم لیا ہے۔ معاشرے میں فکری تنوع اور تقسیم جتنی بڑھے گی سیکولرازم کی اہمیت میں اتنا اضافہ ہوگا۔ سیکولرازم بقائے باہمی کے اصول کے تحت مختلف الخیال اورمختلف العقائد معاشرے میں تین چیزوں کو یقینی بناتا ہے

الف: عقیدے کا احترام

ب : اپنے عقیدے کے مطابق شہری کو عبادت کی آزادی

ج : تمام عقائد کے ماننے والوں کو یکساں طور پر اپنے عقائد کی ترویج اور تبلیغ کی آزادی

سیکولر ریاست میں حکومت شیعہ عقائد رکھنے والے کسی گروہ کی ہو یا سنی عقائد ماننے والوں کی، اپنی زندگی میں مذہبی رجحانات رکھنے والوں کی ہو یا مذہبی ترجیحات نہ رکھنے والوں کی، بہر چہار صورت سیکولرازم اسی بات کا تقاضا کرے گا کہ ریاست نے فقط شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور اس کی ضروریات پوری کرنی ہیں۔ شہری کی مذہبی ضروریات بھی انہی ضروریات میں سے ایک ہے۔ چنانچہ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ شہری سے اس کے عقائد کے تناظر میں ضروریات کا پوچھے، اور ان کا بندوبست کرے۔

کسی بھی شہری کا یا مفکر کا یہ حق ہے کہ وہ سیکولرازم کویکسر مسترد کردے۔ قبول کرنا ہے تو پھر میرے خیال میں مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا عبیدااللہ سندھی اور ابوالکلام آزاد کی طرح اسے شرح ِ صدر کے ساتھ قبول کرنا چاہیئے۔ اگر کوئی تصور ہی پیش کرنا ہے تو پھرحضرت علامہ اقبال والی روایت کو دوہراکر کسی موجود تصور کو کلمہ پڑھوانے کی بجائے کوئی اور ایسا تصور پیش کرنا چاہیئے جو آپ کے خیال کے مطابق معاشرے کے لیے قابل قبول ہو۔ غامدی صاحب کی اچھی بات ہی یہ ہے کہ وہ اپنا موقف تائید کی لالچ اور تردید کے خوف سے بے نیاز ہوکر دو اور دوچار کی طرح رکھتے ہیں۔ جس معاشرے کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہو کہ اس کے تصورات واضح نہیں ہیں، وہاں غامدی صاحب ابہام کو باقی رکھیں گے تو یہ اذیت کو بڑھاوا دینے والی بات ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).