تہران حملے: دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ کی ناکامی


تہران میں آج دو دہشت گرد حملوں سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس عفریت کا مقابلہ کرنے کے دعوے دار ملک جس قدر ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو ہوا دیں گے، دہشت گرد اسی قدر توانا ہوں گے۔ تہران کی پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ داعش کی ویب سائٹ اعماق پر 23 سیکنڈز کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں ایک لاش پڑی دیکھی جا سکتی ہے اور ایک حملہ آور فائرنگ کر رہا ہے۔ اگرچہ غیر جانبدار ذرائع نے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن ایران میں ہونے والے حملوں سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس کے درپردہ خواہ کوئی بھی گروہ ہو، دنیا کا کوئی ملک بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔ دولت اسلامیہ یا داعش کو اس وقت عراق اور شام میں سخت صورتحال کا سامنا ہے۔ عراقی افواج نے موصل کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کی جامعہ مسجد سے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے دو برس قبل اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔ فرقہ واریت اور نفرت کی بنیاد پر استوار ہونے والے اس گروہ نے ہر ملک اور ہر طرح کے لوگوں کو بلاتخصیص اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے لیکن اس کا مقابلہ کرنے والے مہذب دنیا کے ممالک اکثر و بیشتر اس حوالے سے باہمی اختلافات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔اور اپنے سیاسی مفادات کے تناظر میں ایک دوسرے کو ہی دہشت گردوں کا معاون و محافظ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
حالت جنگ میں دشمن کے مقابلے میں اتحاد اور اتفاق رائے کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر باہمی اختلافات کا مظاہرہ ہو گا اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے مختلف ممالک اور گروہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے تو اس سے انتشار ، بدامنی اور دہشت پھیلانے والے گروہوں کو قوت اور حوصلہ ملتا ہے۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منتخب ہونے کے بعد اگرچہ دولت اسلامیہ کے مکمل خاتمہ کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن وہ عملی طور پر مستقل اس سوال پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے 7 مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا۔ اس حکم کو جب عدالتوں نے مسترد کر دیا تو انہوں نے سول سوسائٹی ، ماہرین یا عدالتوں کی بات پر کان دھرنے کی بجائے اسی قسم کے ایک نئے صدارتی حکم کے ذریعے 6 ملکوں کے باشندوں پر پابندی کا نیا حکم جاری کر دیا۔ اس حکم کو بھی عدالتیں امریکی آئین سے متصادم قرار دے کر مسترد کر چکی ہیں لیکن وہائٹ ہاؤس اب سپریم کورٹ سے اپنی حمایت میں فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ سعودی عرب کے دورہ کے دوران مسلمان سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے اگرچہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر اقدام کرنے کی اپیل کی لیکن ان کا اصل فوکس ایران کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں علاقائی عسکری قوت میں اضافہ کرنا تھا۔ گویا امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے سیاسی ، معاشی اور اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کیلئے دہشت گردی کو ختم کرنے کی بجائے مسلمان ملکوں کو لڑانا زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ عرب ملکوں نے بھی ٹرمپ کے اس پیغام پر لبیک کہتے ہوئے ایران کو دہشت گردی کا منبع قرار دیا۔

گزشتہ روز سعودی عرب کی قیادت میں 6 مسلمان ملکوں نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے علاوہ اس کا فضائی ، زمینی اور بحری بلاکیڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح ایک ایسے چھوٹے عرب ملک کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اگرچہ دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد کا بھی حصہ ہے، یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ جوئی میں بھی شراکت دار تھا اور داعش کے علاوہ دیگر دہشت گرد گروہوں کے خاتمہ کیلئے عالمی کوششوں کا بھی حصہ رہا ہے۔ اب سعودی عرب اور اس کے ہمنوا ممالک قطر پر دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور ان کے ملکوں میں تخریب کاری کرنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ یہ رویہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں عرب ملکوں کی غیر سنجیدگی بھی ظاہر کرتا ہے اور یہ خبر بھی دیتا ہے کہ اصل مقصد ایک یا دوسرے دہشت گرد گروہ کا خاتمہ نہیں ہے یا اسلامی عقائد کی بنیاد پر انتہا پسندانہ سخت گیر نظریات کی تبلیغ سے کسی کو پریشانی لاحق نہیں ہے بلکہ دراصل یہ ایک حساس اور تیل کی دولت سے مالا مال خطے میں طاقت حاصل کرنا اور مخالف ممالک کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔ قطر کا اصل قصور یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے مقابلہ میں ایران ، حزب اللہ اور حماس کے بارے میں متوازن رائے رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ الجزیرہ کی خود مختارانہ نشریات کی وجہ سے اکثر مطلق العنان عرب حکومتوں کو شدید پریشانی لاحق رہی ہے۔

آزادی رائے ، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے چیمپئن امریکہ کے صدر کو سعودی عرب اور اس کے زیر اثر ملکوں کے رویہ پر تشویش ہونی چاہئے تھی لیکن اس کے برعکس صدر ٹرمپ یہ فرماتے ہیں کہ عرب ملکوں کا یہ اقدام ان کے دورہ کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے عرب لیڈروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر اقدام کریں۔ دوسری طرف ان کے وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے یہ امید ظاہر کرتے ہوئے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا فرمایا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے اس واقعہ کا عالمی سیاست پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہو گا۔ حالانکہ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکہ کی دلچسپی اور شام میں روس کے اثر و رسوخ پر پریشانی بے معنی ہو جاتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کے تحفظ ، چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کا مقابلہ کرنے اور اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کیلئے مشرق وسطیٰ میں مطلق العنان حکومتوں کے ذریعے جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سبب بنتا رہا ہے۔ قول و فعل کے اسی تضاد کی وجہ سے امریکہ اور یورپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ اتحادی افواج نے افغانستان میں 16 برس کے دوران کھربوں ڈالر صرف کئے لیکن وہ طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے کیونکہ ان کی جنگ جمہوری روایت کے فروغ یا انسانی حقوق کے تحفظ کی بجائے تسلط ، اثر و رسوخ اور گٹھ جوڑ کی سیاست پر استوار تھی۔ یہی کھیل گزشتہ 6 برس سے شام میں کھیلا جا رہا ہے۔ وہاں بظاہر ایک جابر حکمران کی حکومت ختم کرنے کیلئے جمہوریت اور آزادی کے نام پر پراکسی وار کا آغاز کیا گیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں اسلامی جہادی گروہوں نے قوت پکڑنا شروع کر دیا۔ ان کی سرپرستی اور مالی معاونت میں وہ سارے ممالک شامل رہے ہیں جو 22 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے تھے لیکن دراصل ایران کے خلاف محاذ آرائی کی ساز باز میں مصروف تھے۔

ایران کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ دنیا پر امریکی تسلط تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ وہ اسرائیل کیلئے ناجائز امریکی امداد اور سرپرستی کا بھی مخالف ہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ مخالف تحریکوں کو مستحکم کرنے کیلئے اس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کی قوت ایران کی امداد اور تعاون کی وجہ سے ہی اسرائیل جیسی علاقائی سپر پاور کو للکارنے کے قابل ہوئی تھی۔ اسی طرح یمن میں حوثی قبائل کی معاونت یا شام میں بشار الاسد کے ساتھ تعاون ایران کے اہم ترین ’’جرائم‘‘ میں شامل ہیں۔ امریکہ نے خود اپنی ناقص اور کوتاہ نظری پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے عراق میں صدام حسین کی سیکولر اور فرقہ بندی سے پاک حکومت کا خاتمہ کر کے وہاں شیعہ گروہوں کو طاقت پکڑنے کا موقع فراہم کیا۔ امریکی بزرجمہر یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ عراق کے شیعہ حکمران فطری طور سے شیعہ ایران کے حلیف ثابت ہوں گے۔ اب امریکہ عراق میں ایک ایسی جنگ کا حصہ بنا ہوا ہے جس میں بالآخر اسے ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح شام کے عوام کو ظالم اور غیر جمہوری بشار الاسد سے نجات دلانے کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ 6 برس کے دوران اس ملک میں انسانی خون کو ارزاں کیا گیا ہے۔ اس خود ساختہ بحران میں جب ایران اور روس نے مداخلت کی اور بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کا آغاز کیا تو سعودی عرب اور امریکہ کو اس سے یکساں طور سے پریشانی لاحق ہوئی۔

امریکہ براہ راست روس کو چیلنج کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اس لئے اس کے ساتھ تو شام میں محفوظ علاقوں کیلئے بات چیت کی جا رہی ہے لیکن عرب ملکوں کو ایران کے خلاف جنگ کیلئے مسلح و تیار کیا جا رہا ہے۔ اسی لئے ڈونلڈ ٹرمپ قطر کے خلاف سعودی عرب کی مہم جوئی کو امریکی پالیسی کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کو کمزور کرنے اور ان کا اثر و رسوخ کم کرنے کیلئے کام کا آغاز ہو سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں تو انتشار پیدا ہو رہا ہے لیکن داعش موصل اور رقہ میں مشکل صورتحال کے باوجود دنیا بھر میں دہشت گردی کیلئے اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہی ہے۔ کابل ، برطانیہ اور اب تہران میں حملہ اس کی اس بڑھتی ہوئی قوت کا مظاہرہ ہے۔ تاہم امریکہ ایک طرف ایران کے خلاف جنگ کے حالات پیدا کرنے میں مصروف ہے تو دوسری طرف افغانستان میں امریکہ کی سرپرستی میں اقتدار پر قابض اشرف غنی پاکستان کے خلاف الزام تراشی یا سرحدوں پر بحران پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دوسری طرف بھارت افغانستان کو مسلسل پاکستان میں تخریب کاری کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن واشنگٹن سے دہشت گردی کے حوالے سے جب بھی کوئی صدا بلند ہوتی ہے اس میں پاکستان کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت کشمیر میں مظالم ، اقلیتوں کے خلاف تحریکوں اور ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کی سرپرستی کے باوجود امریکہ کی آنکھ کا تارا ہے۔

اس پس منظر میں تہران میں ہونے والے حملے یہ واضح کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باہمی اشتراک اور تعاون کو فروغ دیئے بغیر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ داعش ایک خطرناک اور مہلک نظریئے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو فرقہ واریت اور قتل و غارتگری کو بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کے اثرات عرب ملکوں کے علاوہ پوری اسلامی دنیا اور امریکہ و یورپ کے ملکوں میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے مسلمانوں یا چند ممالک کو مورد الزام ٹھہرانا کافی نہیں ہے۔ تہران میں دہشت گردی اس خطرے کی حقیقت کو سمجھنے اور علاقائی اور اسٹریٹجک مفادات سے پہلے اس انسان دشمن چیلنج سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی بنانے کا تقاضہ کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali