حملہ آور ایرانی تھے اور دولت اسلامیہ سے تعلق تھا: سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل


ایران کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملہ کرنے والے ایرانی تھے جنھوں نے اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ رضا نے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں کا تعلق ایران کے مختلف علاقوں سے تھا اور وہ اپنے علاقوں میں دولت اسلامیہ میں شامل ہوئے تھے۔ بدھ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں دو مختلف حملوں میں پارلیمان کی عمارت کے علاوہ آیت اللہ خمینی کے مزار کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہو گئے ہیں۔ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ شدت پسند تنظیم نے ایک ایسی ویڈیو نشر کی ہے جو ان کے مطابق پارلیمان کی عمارت پر حملے کے دوران عمارت کے اندر سے بنائی گئی۔ دولت اسلامیہ کا ایران میں پہلا حملہ ہے۔ اس سے قبل ایران کے طاقتور عسکری دستے پاسدارانِ انقلاب نے تہران میں حملوں کی ذمہ داری سعودی عرب اور امریکہ پر عائد کی ہے جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ حملوں نے ایران کے دہشت گردی کے خلاف عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ نے ایران میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی ایک پرامن اور مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایرانی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے تیسرا حملہ ناکام بنا دیا ہے۔ دولت اسلامیہ ایران میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دولت اسلامیہ نے ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر پوسٹ کی ہے جس میں پارلیمنٹ کے اندر حملے کی فوٹیج کا دعویٰ کیا گیا ہے۔اس ویڈیو میں عربی زبان میں کہا گیا ہے ‘ہم کہیں نہیں جا رہے ہم ہمیشہ کے لیے ادھر ہی ہیں۔’

بی بی سی فارسی کی جینی نورٹن کا کہنا ہے کہ شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں ایران کافی متحرک ہے لیکن دولت اسلامیہ نے اب تک ایران میں کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اور ابھی تک یہ تاثر تھا کہ اس سنی تنظیم کو شیعہ اکثریتی ملک میں بہت کم حمایت حاصل ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں دولت اسلامیہ نے فارسی زبان میں اپنا پروپیگینڈا کافی تیز کر دیا ہے۔ ایران نے بھی ماضی میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے شدت پسند تنظیم کی حمایت یافتہ کئی کارروائیوں کو ناکام بنایا ہے۔ حملوں کا کیا اثر ہو گا؟ مشرق وسطیٰ کی تجزیہ کار دینا اسفندیاری کا کہنا ہے کہ ایک ممکنہ اثر یہ ہو گا کہ ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کو مزید تیز کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ عراق میں بھی شدت پسند تنظیم کے خلاف کارروائیوں کے حق میں اضافہ ہو گا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شام میں ایران کے ملوث ہونا ایران میں زیادہ مقبول نہیں کیونکہ وہاں ایران کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp