نوے کی دہائی کی موسیقی اور میری یادیں


گزشتہ دنوں عامر ذکی کی وفات کی خبر سنی تو ایک غم کی لہر سی سرائت کر گئی۔ اس سے قبل جنید جمشید کی وفات بھی ایسی ہی خبر تھی جس نے دل میں دکھ بھی بھرا اور بے شمار یادیں بھی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے نہیں مگر جن سے ہمارا گہرا رشتہ تھا اور جن کے بغیر ہماری زندگی کی یادیں نامکمل ہیں۔ موسیقی کے بارے میں ایک اقتباس پڑھا تھا کہ موسیقی ایک ایسا طلسم ہے جس سے یادیں بھول بھی جاتی ہیں اور یاد بھی آ جاتی ہیں۔ جو لوگ بھی نوے کی دہائی میں بچے یا ٹین ایجر رہے ہیں وہ ایک جیسی یادیں رکھتے ہیں اور ایک ہی جیسا نوسٹیلجیا۔ چاہے ٹی وی پر دھوپ کنارے لگے یا وائیٹل سائینز کی موسیقی کی دھنیں بجیں، بچپن کی کم و پیش ایک جیسی یادیں لوٹ آتی ہیں۔

میرا بچپن ایک جھیل کے جیسا پرسکون تھا جس میں بس ایک لگے بندھے معمول پر زندگی گزری۔ امی اپنے کالے کیسٹ پلئیر پر نازیہ زوہیب کے گانے لگا کر کچن کے اور گھر کے کام کرتی تھیں جن میں کہیں کہیں گانا چلتے چلتے رک جاتا اور بھائی کی بچگانہ آواز میں قاری وحید ظفر کی نعت کی آواز ایک لمحے کے لئے ابھرتی تھی جو اس نے ریکارڈنگ کا بٹن دبا کر بھر دی تھی۔ مدھر دھن طجتے بجتے بھائی کی آواز فضا میں ایک لمحے کے لئے تھوڑا سا مختلف ارتعاش پیدا کرتی اور پھر زندگی اسی لے پر چل پڑتی۔

جو پہلا نغمہ میں نے اپنے طور سے پسند کیا اور سننا شروع کیا وہ دل دل پاکستان تھا۔ اس وقت دن میں بعض اوقات تین تین مرتبہ بھی پی ٹی وی پر یہ گانا چل جاتا تھا۔ والد صاحب نے صبح دفتر جانا ہوتا تو وہ ہمیں رات کو نو بجے سو جانے کو کہہ دیتے۔ امی نے ان کا ایسا رعب دلوں میں ڈالا ہوا تھا کہ علم ہی نہ تھا کہ رات کو دیر سے آنے والا یہ شخص حقیقت میں بہت شفیق ہے۔ ایسے ہی ایک دن دل دل پاکستان کے عین بیچ میں والد صاحب نے ٹی وی بند کر دیا۔ میں سننا چاہتی تھی مگر بول نہ سکی۔ کتنے ہی دن دل غمزدہ رہا۔ (بچپن کے غم کس قدر معصوم تھے)

ایسے میں ایک دن وائیٹل سائینز کا ٹی وی ڈرامہ دیکھا دھندلے راستے۔ یہ پہلا رومانوی ڈرامہ تھا جو میں نے کبھی دیکھا۔ بس آنکھیں پھاڑ کر دیکھے گئی۔ جب جنید جمشید نے یہ شام پھر نہیں آئے گی گایا تو یہ سین تو جیسے دل پر نقش ہو گیا۔ بعد میں برسوں یہ ڈرامہ دھونڈتی رہی اور ایک دن یو ٹیوب پر مل ہی گیا۔ مت پوچھیں کہ کیسا گمشدہ خزانہ ہاتھ لگا۔

سن نواسی میں میوزک 89 کے نام سے ایک شو آنا تھا۔ کافی دن پہلے سے اس کی تشہیر شروع کی۔ میں نے سوچا کہ ضرور دیکھوں گی مگر امی نے ٹھیک نو بجے رضائی میں لپیٹ کر سلا دیا۔ یہ ایک ایسا کانٹا ہے جو ہمیشہ چبھارہے گا۔ بعد میں جب شادی ہوئی اور میاں صاحب کو ملی تو انہوں نے بتایا کہ میوزک 89 تو انہوں نے خود جا کر دیکھا تھا، لائیو۔ مجھے تو ریکارڈنگ بھی نہ ملی۔

پھر تھوڑا بڑی ہوئی تو بھائی کو کہہ کر وائیٹل سائینز کی دونوں کیسٹس اکٹھی منگوا لیں۔ سب لوگ مانتے ہیں کہ اسی کی دہائی کے انگریزی پاپ میوزک کا کوئی مد مقابل نہیں۔ وائیٹل سائینز کے گانے اسی موسیقی سے متاثر تھےاور شعیب منصور صاحب کی سخت محنت اور تخلیقی کاوشوں کے شاہکار۔ ایک عجیب برصغیر کی موسیقی اور انگریزی موسیقی کا متزاج تھا، ’ یہ شام پھر نہیں آئے‘ گی راگ ایمن میں تھا مگر ’سمجھانا‘ ریڈ ریڈ وائن کی دھن پر تھا۔

میرے بچے یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ اس وقت ٹی وی پر موسیقی کے پروگرام کا انتظار کیسا ہوتا تھا۔ نہ تو دوبارہ یہ پروگرام کبھی چلتے تھے نہ انٹرنیٹ پر ملتے تھے۔

سن 93 میں شعیب منصور صاحب نے وائیٹل سائینز کی ویڈیو پر مبنی پروگرام بنایا جس کا نام تھا گیتار 93۔ بہت ہی یادگار ویڈیوز تھیں اور ایک ایک گانے کی پکچرایزیشن اور لوکیشن بے مثال تھی۔
اس زمانے میں پاکستانی پاپ میوزک سے دلچسپی رکنے والا کوئی شخص نہیں جو ’ندیم فاروق پراچہ‘ کے نام سے واقف نہ ہو۔ وہ موسیقی کے نقاد اور موسیقی کے صحافی تھےاور پاکستانی پاپ موسیقی میں ان کو بے حد دلچسپی اور عبور تھا۔ گانوں پر تبصروں کے ساتھ ساتھ ان گلوکاروں کی ذاتی زندگی پر بھی تھوڑا بہت لکھتے۔ کبھی طنزیہ تو کبھی ناقدانہ۔

’میوزک چینل چارٹس‘ اور ’وی جے‘ جیسے موسیقی کے پروگرام سننے کے بعد پراچہ صاحب کو پڑھنا تو ایک ٹریٹ کے جیسا ہوتا تھا۔

پھر میں نے ایک لال رنگ کا کیسٹ پلئیر خرید لیا اور ایک نیلے رنگ کا واک مین۔ جنون میرا پسندیدہ بینڈ بن گیا۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں کانوں میں ہیڈ فون لگا کر پوری آواز میں میں یہ دیسی راک گانے سنتی اور ساتھ اپنی سکیچ بک پر ٹینس کے اپنے پسندیدہ کھلاڑی پیٹ سمپراس کے سکیچ بناتی۔ ایسا وقت دوبارہ کبھی نہیں آسکتا۔

یہی وہ وقت تھا جب عامر ذکی کا گانا ’میرا پیار‘ بھی سنا۔ اداس چہرے والے ذکی کی آواز بھی مدھر تھی اور گانا بھی اداس۔ اس وقت یہی ایک گانا تھا ان کا جو مشہور ہوا۔ میرے میاں صاحب عامر ذکی سے واقف نہیں تھے اور میں انہیں نہیں سمجھا سکی کہ عامر ذکی کون تھے، مجھے کیوں پسند تھے اور میری ٹین ایج کی یادوں میں کتنے اہم تھے۔ میاں صاحب کو تو بس یوں لگا کہ کچھ خاص مشہور تو نہیں تھےعامر ذکی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی انہیں کوک سٹوڈیو میں دیکھنا بھی بہت عجیب لگا تھا جس میں ان کے بال بالکل سفید تھے۔ مجھے گزرتے وقت کا اندازہ نہیں ہوا۔ کچھ برس میرے ذہن سے مٹ گئے ہیں اور کچھ یادیں وہیں اپنی جگہ پر کھڑی ہیں۔ ذکی صاحب کو سفید بالوں کے ساتھ دیکھنا ایک ایسا ہی ادراک کا لمحہ تھا کہ وقت کتنا آگے آ چکا ہے۔

مائل سٹونز، سیکوئینسرز، باربیرینز، عامر ذکی اور بہت سے ایسے موسیقار اور بینڈ تھے اس زمانے کے جو مشہور ہوئے اور جن کے بارے میں سب لوگ نہیں جانتے۔ پھر میرے انٹرنیٹ پر بہت سے دوست تھے، جن میں سے کچھ ابھی بھی دوست ہیں، جو پاکستانی پاپ موسیقی کو اسی طرح سے دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے تھے۔

ضیا دور کی پابندیوں اور دباؤ کے بعد نوے کی دہائی میں پاکستان کی پاپ موسیقی کا سنہرا دور تھا اور بہترین گانے۔

میری اپنے میاں صاحب سے بہت سی مشترک قدروں میں سے ایک وائیٹل سائینز کے گانے بھی ہیں۔ لمبی ڈرائیو پر بچوں کے ساتھ اب بھی جب ’یہ شام پھر نہیں آئے گی‘ بجتا ہے تو بچے بھی خاموشی سے سنتے ہیں۔ مگر تعجب کی یہ بات ہے کہ اب جب ہر طرح کے اظہار رائے کے طریقوں کی آزادی ہے تو اس دور کی نسبت بہتر موسیقی تخلیق ہونی چاہئیے، اب تو ہوتی ہی نہیں۔ کوک سٹوڈیو میں بھی بس انہیں پرانے گانوں کو نئے طور سے گا لیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بچوں کی بچپن کی یادیں بھی انہیں گانوں سے بنیں گی جو ہماری گاڑی میں بجتے ہیں اور ان کو بھی نوسٹیلجیا اسی مو سیقی سے ہی ہو گا۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim