خیبر پختونخوا حکومت میں شفافیت نہیں ہے


سابقہ حکمرانوں کو چور کہنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے جاتے جاتے صوبے کے عوام کو قرضوں کے بوجھ میں گرفتار کرنے کے لئے ریپڈ بس منصوبے کا اعلان کردیا۔ 53 ارب روپے کے منصوبے کے لئے رقم ایشین ڈویلپمنٹ بینک فراہم کرے گا اور اسے آٹھ ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ پنجاب میں شروع کیے جانے والی بس سروس کو جنگلہ بس سروس کہنے والے آج قرضے لے کر اس منصوبے کو شروع تو کروا رہے ہیں مگرحکمرانی کا نشہ اتنا ہے کہ کسی کو اس منصوبے کے بارے میں تفصیلات دینے کی ہمت نہ تو اسلامی انقلاب کی دعویدار جماعت اسلامی کے سینئر وزیر کے پاس ہے اور نہ ہی پشاور کی خوبصورتی کے دعوے کرنے والے پی ڈی اے کے حکام کے پاس، جنہیں ٹیکس دے کر غریب عوام پال رہی ہیں مگر بدلے میں انہیں سہولت کے بجائے نت نئے عذاب ہی مل رہے ہیں۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ ریپڈ بس منصوبے کی خاطر تیرہ، تیرہ فٹ سڑک کو توسیع دی جائے گی اگر ریپڈ بس منصوبے کے بجائے مرکزی شاہراہ کو اتنی وسعت دی جاتی تو اس سے پشاور سے حیات آباد تک ٹریفک کا دباؤ کم ہو جاتا۔ مگر اس منصوبے میں بہت سارے لوگوں کو مال بنانے کا موقع تو نہیں ملے گا اس لئے اس پر غور نہیں کیا جارہا البتہ ریپڈ بس منصوبے کے نام پر خیبرپختونخواہ کے عوام کو بے وقوف بنانے کاسلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس منصوبے کے لئے پشاور شہر سمیت یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد کے متعدد جگہوں پر گرین بیلٹ کو ختم کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں آلودگی کی وجہ سے پہچانے جانیوالے پشاور کے شہریوں کے ساتھ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت ” بلین ٹری“نامی پراجیکٹ پر کروڑوں روپے سرمایہ داروں اور اپنے چہیتے سرکاری اہلکاروں سمیت اپنی پارٹی کے من پسند افراد میں تقسیم کر چکی ہے۔ کروڑوں درخت لگانے کے دعویدار اختیار اور کرپشن میں اتنے اندھے ہیں کہ بلین ٹری منصوبے میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والے انٹی کرپشن کے اعلی حکام کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ دوسری طرف سڑک کنارے بنی گرین بیلٹ پر گزشتہ ڈیڑھ سال میں کروڑوں روپے خرچ کیے گئے کبھی درخت لگائے گئے اور کبھی ٹف ٹائل لگا کررقم ہضم کرلی گئی۔ کیا یہ کرپشن نہیں، کیا ریپڈ بس منصوبے کی بات کرنے والوں کو پتہ نہیں تھا کہ انہوں نے ریپڈ بس منصوبہ شروع کرنا ہے۔ پھر ڈیڑھ سال سے گرین بیلٹ پر کروڑوں روپے کیوں خرچ کیے گئے۔

عجیب منطق تو یہ ہے کہ پنجاب کے خلاف باتیں کرنے والی صوبائی حکومت کے بیشتر منصوبوں کے ٹھیکیداروں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ یعنی ایک طرف صوبے کے غریب عوام کو پنجاب ہمارے ساتھ زیادتی کررہا ہے کے نعرے بلند کرنے زندہ باد مردہ باد کیا جارہا ہے تو دوسری طرف پنجاب سے تعلق رکھنے والے من پسند ٹھیکیداروں میں صوبے کے عوام کا پیسہ دیا جارہاہے کیا اس صوبے میں کام کرنے والے کنٹریکٹرز چور ہیں یا اتنے ہی نا اہل ہیں کہ کوئی منصوبہ ٹھیک سے کر نہیں سکتے۔

غضب کرپشن کی عجب کہانی یہ ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے سامنے واقع گرین بیلٹ پر گندا نالہ گذشتہ ایک سال سے خراب تھا جس میں ایک سابق سینیٹر کے رشتہ دار بھی گر کر جاں بحق ہوگئے لیکن اس نالے کو ٹھیک نہیں کیا جارہا اب نامعلوم وجوہات کی بناء پر راتوں رات اس نالے کو ٹھیک کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور اس کے لئے اب تیس سے چالیس سال پرانے درخت بھی کاٹے جارہے ہیں۔ دیواروں پر ”درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے“ کے نعرے لکھنے والے صوبائی بیورو کریسی سے کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ آپ کے لیڈران تو منہ پھاڑ کر ماحولیات کو بہتر کرنے اور درخت لگانے کے دعو ے کرتے ہیں لیکن یہ کیسا دوغلا پن ہے کہ اب درخت بھی کاٹے جارہے ہیں اور کروڑوں روپے نالے پر لگائے تو جارہے ہیں مگر یہ نالہ ریپڈ بس سروس کے آغاز میں دوبارہ ٹھیک کیا جائے گا کیونکہ ریپڈ بس منصوبے کی وجہ سے گاڑیوں کا دباؤ بڑھے گا تو پھر اس نالے کو دوبارہ کاٹا جائے گا اور پھر اس کی بھرائی ہوگی اور پھر سرکار رقم خرچ ہوگی اور یہی رقم اس صوبے کے غریب عوام سے ٹیکسوں کی مد میں وصول کی جائے گی۔ یعنی ایک جگہ پر سرکاری رقم کئی مرتبہ استعمال کی جائے گی کیونکہ غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ سرکار کے نام پر اسی ڈرامے کے ذریعے ہی چند مخصوص لوگوں کے پیٹ میں جائے گا۔

سب سے زیادہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اپنے آخری سالوں میں کرپشن کی غضب داستان لکھنے والے حکمران اور بیورو کریسی اپنے آپ کو کسی کو جواب دہ بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ بیورو کریسی کو صرف وہی لوگ اچھے لگتے ہیں جو ان کی ”سب اچھا ہے“ اور ”صاحب نے کارنامہ“ سرانجام دیا ہے جیسے رپورٹیں اخبارات میں شائع کرواتے ہیں یا پھر ٹیلی ویژن پر آن ائیر کرواتے ہیں۔ ریپڈ بس منصوبے کے لئے گرین بیلٹ کو ختم کرنے سے متعلق سوالات اور اس پر بات کرنے کے لئے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تعینات ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کیا گیا مگر موصوف فون کال کا جواب دینے کی زحمت نہیں کرتے البتہ ان کے سیکورٹی پر تعینات ایک ریٹائرڈ سیکورٹی اہلکارڈ ”صاحب اسلام آباد میں ہے“ کی کہانی سنا دیتے ہیں اور یہی تین دن سننے کو مل رہا ہے۔ اسلامی انقلاب کی باتیں کرنے والوں کے سینئر وزیر اور ان کے ذاتی اسسٹنٹ سے دو دن رابطے کے لئے وقت ملا مگر آخری وقت میں چار گھنٹے انتظار کرانے کے بعد ”صاحب اسلام آباد میں ہے“ کو سننے کو ملا جبکہ ضلع ناظم نے اس حوالے سے بات کرنے سے متعلق ایس ایم ایس پیغام دینے کے بعد موصوف نے اپنا موبائل فون نمبر بھی مصروف کردیا۔ جو کہ تاحال مصروف ہی ہے۔ ان حالات میں دوسروں کو انگلی اٹھا کر چور کہنے والوں سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ”جناب“ کبھی آپ بھی ان چوروں کے ساتھی تھے۔ اور ویسے آپس کی بات ہے کہ ”چھپنے والے چور ہی ہوتے ہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).