آئن سٹائن بلاوجہ مشہور ہے


آپ نے سنا ہو گا کہ آئن سٹائن سب سے بڑا سائنسدان تھا۔ وہ سب سے زیادہ ذہن تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے چپکے سے اس کی کھوپڑی توڑ کر اس کا دماغ نکال لیا تھا اور محفوظ کر لیا تھا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ آئن سٹائن کو بلاوجہ ہی بیسویں صدی کا سب سے بڑا جینئیس سائنسدان مشہور کر دیا گیا تھا۔ ہمیں کبھِی سائنس پڑھنے کا اتفاق تو نہیں ہوا ہے مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ آئن سٹائن ایک بڑا سائنسدان نہیں تھا اور بلاوجہ ہی مشہور تھا۔

اگر ہم اگر انصاف سے کام لیں تو دیکھیں گے کہ آئن سٹائن نے اکیلے کوئی چیز ایجاد نہیں کی اور نہ اکیلے اس کے نام پر کوئی پیٹنٹ وغیرہ ہیں۔ جو ایجادات یا پیٹنٹ وغیرہ ہیں ان میں آئن سٹائن کے علاوہ بھی لوگوں کے نام موجود ہیں۔ اس کا سب سے مشہور پیٹنٹ ایٹم بم ایجاد کرنے کا نہیں بلکہ لیو سلارد نامی بندے کے ساتھ مل کر ایک کمرشلی ناکام فریج ایجاد کرنے کا ہے۔ امریکی تارپیڈو پر کام کرنے والی ٹیم کے سربراہ برناؤر کا کہنا تھا کہ ’جنگ کے دوران بنایا جانے والا نیا اور زیادہ کارگر دھماکہ خیز مواد ٹیم ورک کا نتیجہ تھا اور آئن سٹائن اس ٹیم کا حصہ تھا۔ یہ سوچ کر ہی دل بڑھ جاتا تھا کہ آئن سٹائن ہمارے ساتھ ہے‘۔ اسی سے آپ اندازہ کر لیں کہ آئن سٹائن کوئی خاص کام نہیں کرتا تھا بلکہ بیٹھا صرف حوصلہ ہی بڑھایا کرتا تھا۔

آئن سٹائن اپنی پیٹنٹ شدہ ایجادات کی وجہ سے مشہور نہیں تھا۔ اس کی اصل مہارت عام فہم سی باتوں کو مشکل سی سائنسی انگریزی میں لکھنا تھی۔ مثلاً آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ اگر آپ ایک ایسی ٹرین میں سفر کر رہے ہیں جو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے، اور آپ اس میں ڈبے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلنا شروع کر دیں تو ٹرین کے اندر آپ کی رفتار محض چھے کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی، لیکن ٹرین سے باہر زمین پر کھڑے شخص کے حساب سے آپ کی رفتار ایک سو چھے کلومیٹر ہو گی۔ اب یہ ایک ایسی بات ہے جو پانچویں جماعت کا بچہ بھی جانتا ہے۔ لیکن آئن سٹائن نے اس کو تھیوری کا نام دے کر  اور ادق سائنسی اصطلاحات  میں لکھ کر رسالے میں چھپوا دیا تو اسے اس معمولی سی بات پر نوبل انعام مل گیا۔ ہماری رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہودی تھا اور یہودی لابی اسے نوازنا چاہتی تھی۔ ملالہ کو اسی وجہ سے نوبل انعام ملنے کا واقعہ آپ کے علم میں ہی ہو گا۔ سب ذی شعور پاکستانی جانتے ہیں کہ ملالہ نے بھی کچھ نہیں کیا تھا مگر یہودی آئن سٹائن کی طرح مغرب اسے بھی بلاوجہ ہی نوازنا چاہتا تھا۔

بہرحال ہم اپنے موضوع پر پلٹتے ہیں۔ سائنسدانوں کو پرچانے کے لئے آئن سٹائن نے دعوی کر دیا کہ اس تھیوری آف جنرل ریلیٹی ویٹی اور ایسی دوسری مشکل ناموں والی تھیوریوں کی وجہ سے اجرام فلکی روشنی کو بھی موڑ سکتے ہیں اور مادے کو توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بعد میں جب دوسرے سائنسدانوں نے ایٹم بم بنا دیا تو آئن سٹائن نے مشہور کروا دیا کہ اس کی مادے، روشنی اور توانائی کی رفتار والی تھیوری سچ ثابت ہو گئی ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہی ہیں کہ بنی نوع آدم کے لئے روشنی کی رفتار ماپنا ناممکن ہے۔ جو شخص ایسا بے بنیاد دعوی کرے اسے آپ چیلنج کر دیں کہ آپ بٹن دبا کر کمرے کا بلب جلاتے ہیں، وہ روشنی کی رفتار آپ کو ناپ کر دکھائے۔ آپ بڑے سے بڑے سائنسدان کو یہ چیلنج کر دیں گے تو وہ کھسیانا ہو کر آپ کو مسکراتے ہوئے آپ کو دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گا۔ بلکے بعضے بعضے تو شرمندہ ہو کر آپ کی شکل کو دیکھتے ہوئے ہنس بھی پڑیں گے۔

یہی حال آئن سٹائن کا تھا۔ وہ فارغ بیٹھا تھیوریاں ہی گھڑتا رہتا تھا۔ ہم اپنے پچھلے سائنسی مضمون ”ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے“ میں یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ”ہم نے جماعت سوئم کی سائنس کی کتاب میں ہی پڑھ لیا تھا کہ سائنسی طریقہ کار کے چار مراحل ہوتے ہیں، مشاہدہ، نظریہ، تجربہ، اور قانون۔ اب ایک سرسری نظر سے ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی نے یہ مشاہدہ کر لیا کہ بندر اور انسان دونوں کے ہاتھ پاؤں ایک ہوتے ہیں، تو نظریہ قائم کر لیا کہ شکل عقل میں باقی فرق ارتقا کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن سائنٹیفیک میتھڈ کے مطابق اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی تجربہ نہیں کیا گیا جس سے یہ حتمی طور پر تسلیم کر کے قانون بن جائے“۔

اسی سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آئن سٹائن کی تھیوریوں کی بھی ارتقا کی تھیوری کی طرح کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اصل چیز تو تجربہ ہوتی ہے۔ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی آئن سٹائن کی تھیوریاں کبھی قانون نہیں بن پائیں۔ اب اگر کوئی تھامس ایڈیسن کے متعلق کہے کہ وہ سب سے بڑا سائنسدان تھا تو ہم ایک لمحہ تامل کیے بغیر اس بات کو سچ مان لیں گے۔ تھرموڈائنامکس کے قوانین تہس نہس کر دینے والی واٹر کٹ کے موجد آغا وقار صاحب کے متعلق کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ اس صدی کے سب سے بڑے سائنسدان ہیں تو ہم جھجک اس کی تصدیق کریں گے۔ مگر اگر کسی ایسے سائنسدان کے متعلق یہ دعوی کیا جائے جس نے کوئی خاص چیز ایجاد ہی نہیں کی ہے تو اسے کیسے بڑا سائنسدان مانا جا سکتا ہے؟ جو بندہ ڈھنگ سے ایک فریج تک نہ بنا سکتا ہو، وہ کہاں کا بڑا سائنسدان ہے؟

اب اپنے پروفیسر پرویز ہود بھائی کو ہی دیکھ لیں۔ یہ حضرت بھی تو یہی دعوی کرتے ہیں کہ میں نے فلاں فلاں تھیوری پر کام کیا تھا اور بہت مشکل گتھیاں سلجھا دی تھیں اور میرے سائنٹیفیک پیپر فلاں فلاں مشہور ترین سائنسی جرائد میں شائع ہوتے ہیں اور دنیائے سائنس کی درجہ اول کی یونیورسٹیوں میں میں پروفیسری کرتا ہوں۔ ذی شعور پاکستانی تو ان سے بھی یہی سوال کر کے ان کو لاجواب کر دیتے ہیں کہ ”بھائی اگر آپ اتنے ہی بڑے سائنسدان ہیں تو یہ بتائیں کہ آپ نے کیا کیا ایجادات کی ہیں اور کون کون سے پیٹنٹ آپ کے نام پر ہیں؟“ اب کیا آئن سٹائن کی طرح ہم پرویز ہود بھائی کو بھی محض اس وجہ سے بڑا سائنسدان مان لیں کہ وہ بیٹھے الٹی سیدھی عام فہم سی باتیں سوچ سوچ کر ان کو مشکل سی سائنسی زبان میں لکھتے ہیں اور معتبر سائنسی جرائد میں چھپوا دیتے ہیں؟


اسی بارے میں
ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے  
پرویز ہود بھائی صرف اپنی فیلڈ تک محدود کیوں نہیں رہتے ہیں؟ 
پرویز ہود بھائی کی یونیورسٹی میں روحانی تعلیم کی بے جا مخالفت 

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar