صومالیہ میں فوجی اڈے پر الشباب کے جنگجوؤں کا حملہ: عورتوں سمیت ستر افراد ہلاک


تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صومالیہ کی نیم خودمختار علاقے پنٹ لینڈ ممیں  انتہا پسند مسلم تنظیم الشباب کے جنگجوؤں نے ایک بڑا حملہ کیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 70 افراد  ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مقامی افراد نے تایا ہے کہ اس حملے مین جنگجوؤں نے عورتوں سمیت بہت سے افراد کے سر قلم کر دیے۔

صومالیہ کی حکومت کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم الشباب کے علاوہ داعش کا بھی سامنا ہے۔ حکام کے مطابق ’الشباب‘ کو ملک کے جنوب اور وسطی علاقوں میں ان تمام قصبوں سے باہر نکال دیا گیا ہے جہاں کبھی اس کا سکہ چلتا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ گروپ 2006 میں اب غیر فعال تنظیم یونین آف اسلامک کورٹس کے سخت گیر یوتھ ونگ کے طور پر سامنے آیا تھا اور اس نے صومالیہ کی کمزور عبوری حکومت کی مدد کے لیے ملک میں آنے والی ایتھوپیائی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ غیر ملکی جنگجو الشباب کا ساتھ دینے کے لیے صومالیہ گئے ہیں۔

الشباب نے اپنے زیرِ اثر علاقے میں سخت گیر شرعی قوانین نافذ کیے ہیں جن میں خواتین کو بدکاری پر سنگسار کرنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں شامل ہیں۔ اگرچہ الشباب اب اپنے زیرِ اثر بیشتر قصبات اور شہروں کا کنٹرول کھو چکی ہے لیکن اب بھی یہ ملک کے کئی دیہی علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے۔  الشباب  کو اگست 2011 میں دارالحکومت موغادیشو سے نکال دیا گیا تھا اور ستمبر 2012 میں اس نے کلیدی بندرگاہ کسمایو کو بھی خالی کر دیا تھا۔

کسمایو ان شدت پسندوں کے لیے اہم تھی کیونکہ یہاں سے انہیں رسد کے حصول میں آسانی ہوتی تھی۔ صومالی حکومت کی حامی افریقی یونین نے ان دونوں واقعات کو اہم کامیابیاں قرار دیا تھا لیکن الشباب اب بھی اکثر موغادیشو اور دیگر علاقوں میں خودکش حملے کرتی رہتی ہے۔ 2011 میں کینیائی افواج کی صومالیہ آمد کے بعد اب اس پر کئی محاذوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کینیا نے الشباب کے جنگجوؤں پر سیاحوں کے اغوا کا الزام لگایا ہے اور اب اس کی افواج افریقی یونین کے پرچم تلے جنگ میں مصروف ہیں۔

احمد عبدی غودان الشباب کے قائد ہیں۔ انہیں مختار ابوزبیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کا تعلق شمالی علاقے صومالی لینڈ سے ہے۔ خبروں کے مطابق جنوبی علاقوں کے جنگجو مختار ابوزبیر کی قیادت سے خوش نہیں لیکن الشباب کی جانب سے ان اطلاعات کو رد کیا جاتا ہے۔ الشباب میں جنوبی صومالیہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی اکثریت ہے اور ان کی تعداد اندازاً سات سے نو ہزار کے درمیان ہے۔

مختار ابو زبیر 2008 میں اپنے پیشرو معلم عدن حاشی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اب شاذونادر ہی منظرِ عام پر آتے ہیں۔ الشباب نے فروری 2012 میں القاعدہ کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا۔ ایک مشترکہ ویڈیو میں مختار ابو زبیر نے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ’فرمانبرداری‘ کرنے کا عہد کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ دونوں تنظیمیں مل کر کام کر رہی ہیں اور القاعدہ کے غیرملکی جنگجو صومالی شدت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔

امریکہ کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد افغانستان اور پاکستان سے بھاگنے والے القاعدہ کے جنگجو صومالیہ میں پناہ لے رہے ہیں۔ الشباب نے یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں 2010 کے فٹبال ورلڈ کپ کا میچ دیکھنے والے شائقین کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا تھا اور ان حملوں میں 76 افراد مارے گئے تھے۔ اس حملے کی وجہ یوگنڈا کی جانب سے افریقی یونین کی فوج میں شمولیت کے لیے اپنی افواج بھیجنا بتائی گئی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق الشباب کے جنگجو بغیر کسی مشکل کے کینیا آتے جاتے رہے ہیں اور ان میں سے کچھ تو نیروبی سے اپنا علاج بھی کروا چکے ہیں۔

2002 میں کینیا کے تفریحی مقام ممباسا میں اسرائیلی اہداف پر حملوں کا منصوبہ بھی مبینہ طور پر صومالیہ میں القاعدہ کے سیل نے تیار کیا تھا جبکہ امریکہ کا ماننا ہے کہ 1998 میں نیروبی اور دارالسلام میں اس کےس سفارتخانوں پر حملے کرنے والے افراد بھی صومالیہ میں پناہ لے چکے ہیں۔

اس خطے میں الشباب کا واحد حامی اریٹیریا ہے تاہم وہ اس گروپ کو ہتھیار فراہم کرنے کے الزام سے انکار کرتا ہے۔ اریٹیریا خطے میں اپنے دیرینہ دشمن ایتھیوپیا کے اثر کو کم کرنے کے لیے الشباب کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ کی حمایت سے ایتھیوپیا نے 2006 میں صومالیہ میں اپنی فوج بھیجی تھی جو کہ 2009 میں شدید جانی نقصان کے بعد واپس چلی گئی تھی۔

2011 میں دوبارہ مداخلت کے بعد ایتھیوپیا نے کہا تھا کہ وہ جو علاقے حاصل کرے گا ان کا کنٹرول افریقی یونین کو سونپ دے گا۔ صومالیہ کے موجود صدر سابق سیاسی کارکن حسن شیخ محمد ہیں۔ انہیں 2012 میں صومالیہ کی نئی منتخب شدہ پارلیمنٹ نے چُنا تھا۔ صومالیہ میں گزشتہ بیس برس سے کوئی موثر قومی حکومت نہیں۔ انہوں نے صدارت کی دوڑ میں سابق صدر شیخ شریف شیخ احمد کو ہرایا تھا جو کہ ایک سابق اسلامی باغی جنگجو تھے۔ ان کے تین سالہ دورِ اقتدار میں صومالیہ کو امداد دینے والے ادارے بدعنوانی کی وجہ سے بہت پریشان رہے تھے۔

صومالیہ کم و بیش ایک ناکام ریاست ہے۔ یہ حالات الشباب کے لیے موزوں ہیں۔ جب پہلی بار یہ تنظیم سامنے آئی تو اس نے عوام کو تحفظ دینے کی بات کی جس کی پذیرائی ہوئی۔ لیکن جب 2011 میں قحط کے دوران اس نے مغربی امداد قبول کرنے سے انکار کیا تو اس کی عوامی مقبولیت کو شدید دھچکا لگا۔

الشباب وہابی اسلام کا پرچار کرتی ہے جبکہ زیادہ تر صومالی صوفی عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔ الشباب نے بہت سے صوفیاء کے مزارات تباہ کیے ہیں جس سے اس کی پسندیدگی اور حمایت مزید کم ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).