قائداعظم یونیورسٹی میں حالیہ فسادات اور سٹوڈنٹ کونسلیں


قائداعظم یونیورسٹی میں حالیہ فسادات علاقائی بنیادوں پر بننے والی طلبا تنظیموں یعنی کونسل کے درمیان ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں ظہور پزیر ہوئے۔ دنگافساد کے بعد یونیورسٹی عارضی طور پر بند کر دی گئی۔ طلبا کو ہوسٹل سے زبردستی راتوں رات بے دخل کر دیا اور پولیس نے ہوسٹل کے کمروں کی تلاشی لی مشکوک طلبا کونسل کے عہداران کو گرفتار کیا۔ امن و امان بحال ہونے کے بعد کونسل کے ممبران اور یونیورسٹی انتظامیہ کے مابین مذاکرات کے لئے بھی یونیورسٹی دوبارہ کھول دی جائے گی اور چند دنوں میں خبروں کی زینت بننے والے اس خادثے کو ماضی کے المناک حادثوں کی طرح بھلا دیا جائے گا۔

پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کی درسگاہوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے پس منظر میں قائداعظم یونیورسٹی میں ہونے والے واقع کی کوئی اہمیت نہیں۔ جہاں حالیہ چند مہینوں میں ایک نوجوان کو محض شک کی بنیاد پر سر عام یونیورسٹی کے ہوسٹل کے اندر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا جائے وہاں بیس پچیس نوجوانوں کا محض ڈنڈوں سے پیٹنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔

اس حادثے کے ضمن میں بعض افراد کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ یہ کونسل قوم کو دراصل لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے بنی ہیں اور صوبائی طرز کی کونسل گویا QAU کے قومی تشخص کو مسخ کرتی ہیں۔ لہٰزا طارق فضل چوہدری اور زبیر CAD کی رائے میں انھیں بند کر دینا چاہیے۔

’ہم سب‘ کے صفحات پر اس سے ملتی جلتی رائے کا اظہار کیا گیا کہ لسانی تنظیمیں طلباء کو سیاسی پختگی کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ پاکستان میں کلچر کے نام پر جس قدر فرسودہ اور جاگیرداری دور کی رسموں کو پروان چڑھایا جاتا ہے اس سے یہ امکان خارج از امکان نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجنا چاہیے کہ ہمارے تعلیم کے نظام سے کلچر کی تعلیم عنقا ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بچوں میں مقامی کلچر سے بے اعتنائی برتنے کا رویہ ایک رواج بن گیا ہے۔ ہمارے بچے ہماری مقامی خوراک کی نسبت کوک اور چاکلیٹ برگر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی ماں بولی کی بجائے غیر ملکی زبان کو برتر سمھجتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کلچر کے بارے میں ایک تنقیدی شعور پیدا کیا جائے۔

بد قسمتی سے ہم کلچر کی پرورش کی بجائے ہم اس کو پوجنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ماضی کے علوم کو جدید دور کے تقاضوں میں علمی طور پر ڈھالنے کی بجائے ہم ان کو ماضی کے مزار بنا دیتے ہیں۔

اس پس منظر میں ہم قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء تنظیموں کا ایک تاثرانہ جائزہ چند تحاریر کے ساتھ پیش کر رہے ہیں تاکہ علاقائی بنیادوں پر بننے والے کونسل کلچر کی صیح طور پر آبیاری کر سکیں اور محض اسے ایک فیشن کے طور پر نہ اپنائیں۔

قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء کی کل تعداد تقریباً 8000 ہے جس میں طلباء کی تعداد کا تقریباً نصف حصہ پنجاب، تقریباً 16 فیصد سندھ، 12 فیصد پختونخوا، بلوچستان 5 فیصد گلگت بلتستان تقریباً 2 فیصد ہے۔ ایک فیڈرل یونیورسٹی ہونے کے ناطے یہاں طلباء مختلف لسانی اور سماجی حوالوں سے جانے جاتے ہیں۔

قائداعظم یونیورسٹی میں Quaidian Student Federation یعنی QSF کے زیر اثر چلنے والی علاقائی تنظیمیں مندرجہ ذیل ہیں۔

مہراں سناوات کونسل، بلوچ سٹوڈنٹ کونسل، پختون کونسل، پنجاب کونسل، جی بی کونسل، سرائیکی کونسل۔

یہ علاقائی کونسلز ضیاء دور کے لگنے والے طلباء یونین کے بین ہونے کے نتیجے میں 1990 میں وجود میں آئیں۔ بچھلے 15 سالوں میں یہ کونسلز پھیل کر پورے طلباء کے سماج کو اپنی گرفت میں لے چکی ہیں۔ ان تنظیموں کے باقاعدہ عہدیدار منتخب ہوتے ہیں جو اپنی کونسل کے ممبران کی فلاح و بہبود کے کام آتے ہیں۔

ان تنظیموں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں طلباء میں ثقافتی شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی علاقائی رسوم اور تہواروں سے روشناس ہوتے ہیں۔ اب یونیورسٹی میں پختوں علاقائی رقص اتان کی روایات عام ہو چکی ہے۔ اس طرز پر ہے جمالو کا رقص سندھی طلباء بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ 2016 میں QSF کے زیر اہتمام تمام کونسلز نے ایک cultural exchange کے نام سے ایک تقریب کا احتمام کیا جسمیں تمام علاقائی کونسلز کے عہدداران نے ایک دوسرے کے سر پر پگڑی یا علاقائی ٹوپی رکھی۔ جس ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ لسانی مفادات بھی زوروں پر ہوں وہاں کے طلباء کا ایک دوسرے کے کلچر کو مشترکہ عزت اور توقیر سمجھنا ایک خوش آئند علامت ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد جہاں قومی خدمت کے تمام مواقع، وسائل کے ساتھ صوبوں کو منتقل کر دیے گے ہیں وہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ فیڈرل یونیورسٹی کو بین صوبائی تشخص کو ابھارنے میں مدد کرنی چاہیے تاکہ اس کے فارغ التصیل طلباء اپنے صوبوں کو جا کر قومی ملازمت اور نجی کاروبار کرتے وقت دوسرے علاقے کے افراد کے کلچر کو سمجھتے ہوئے ایک قوم کی حیثیت سے آگے پڑھیں۔

اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان کونسل کی تشکیل نو کی جائے تاکہ ایک افزائش نسل ہو سکے۔
اس کار خیر میں یونیورسٹی پروفیسر ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں اور انہیں اس کونسل کی تنظیم سازی اور کسی جھگڑے کی صورت میں منصف کا رول ادا کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے قائداعظم یونیورسٹی کے استاد اس تمام عمل سے لا تعلق ہیں جس کے نتیجے میں حالیہ تصادم ظہور پذیر ہوئے۔ آخری وقت تک یونیورسٹی کی انتظامیہ اس جھگڑے سے بے خبر رہی۔

دوسرا یہ کہ لڑکیوں کی تعداد یونیورسٹی کے MSc اور MPhil پروگرام میں لڑکوں سے زیادہ ہونے کے باوجود بھی ان کونسلز میں نمائندگی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین طلباء کو ان کونسلز کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہمارے کلچر کے مطابق خواتین کے حقوق کی ترجمانی ہو سکے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری قومی اتحاد کی بنیاد ہمارا لسانی اور علاقائی تنوع ہے۔ اردو اور انگریزی ہمارے قومی اور بین الاقوامی رابطے کی زبانیں ہیں اور سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، پنجابی اور بہت سی قومی زبانیں ہمارے علاقائی تشخص کی آئنہ دار ہیں ان کو پروان چڑھانے سے ہی ایک کثیر اللسانی قوم کی تشکیل نو ہو گی تشکیل نو ہو گی تہ ایک مضبوط پاکستان اور خود مختار صوبوں کا وجود ہماری قومی وحدت کو ناقابل تسخیر بنا دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).